سیرت ِ نبویؐ کا ایک ایک گوشہ ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہے۔ ہم آپؐ کے جس کسی طریقہ کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں، دنیا و آخرت سنور جائےاور حب ِ نبوتؐ کا ہمارا دعویٰ سچ ثابت ہوجائے۔
EPAPER
Updated: October 04, 2025, 2:57 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
سیرت ِ نبویؐ کا ایک ایک گوشہ ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہے۔ ہم آپؐ کے جس کسی طریقہ کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں، دنیا و آخرت سنور جائےاور حب ِ نبوتؐ کا ہمارا دعویٰ سچ ثابت ہوجائے۔
آپ ﷺہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین فرماتے تھے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے۔ عرب کا ایک معزز قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت چوری میں پکڑی گئی، لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے، آپؐ کے پروردہ اور محبوب حضرت اسامہ بن زیدؓ نے سفارش کی، آپؐ نے اس سفارش پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور اس خاتون پر سزا جاری فرمائی۔ (صحیح بخاری) حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ربیعہ بنت نضرنے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا، ان لوگوں نے قصاص کا مطالبہ کیا، ربیعہ کے لوگوں نے دوسرے فریق سے معافی کی درخواست کی، جسے ان لوگوں نے قبول نہیں کیا، اب دونوں فریق بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے، حضورؐ نے قصاص جاری کرنے کا حکم فرمایا، ان کے بھائی انس بن نضر نے کہا : اللہ کے رسولؐ ! کیا ربیعہ کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ اس ذات کی قسم ! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا، آپؐ نے فرمایا: قصاص اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے؛ چنانچہ دوسرے فریق راضی ہوگئے اور انہوں نے معاف کردیا۔ ( بخاری، باب الصلح فی الدین)
حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کے اصرار پر ان کے والد نے ان کو کچھ ہبہ کرنا چاہا، جب وہ اس کے لئے تیار ہوگئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر حضورؐ کو گواہ بنایا جائے؛ چنانچہ یہ دونوں حضرات اپنے صاحبزادہ نعمان کو لے کر آپؐ کی خدمت میں پہنچے اور آپؐ کو گواہ بنانا چاہا، رسولؐ اللہ نے حضرت بشیرؓ سے پوچھا : کیا اس کے علاوہ تمہاری کوئی اور اولاد بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں، آپؐ نے فرمایا : کیا تم نے ان سب کو اسی طرح ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا : پھر تو میں اس پر گواہ نہیں بن سکتا؛ کیوں کہ میں ایسے کام پر گواہ نہیں بن سکتا جو ظلم پر مبنی ہو۔ (مسلم )
جیسے آپؐ اولاد کے درمیان انصاف اور برابری کا حکم دیتے تھے، اسی طرح بیویوں کے درمیان بھی عدل کا پورا لحاظ فرماتے تھے۔ جب آپؐ سفر میں تشریف لے جاتے اور کسی زوجہ مطہرہ کو ساتھ لے جانا ہوتا تو اپنے طورپر انتخاب نہیں فرماتے؛ بلکہ قرعہ اندازی کرتے اور جن کا نام نکل آتا، ان کو ساتھ لے جاتے۔ (بخاری، عن عائشہؓ، حدیث نمبر: ۵۲۱۱)۔ اس درجہ عدل و انصاف کے باوجود حضرت عائشہؓ کی طرف آپ کا قلبی رجحان تھا تو فرماتے تھے کہ اے اللہ ! جو چیز میرے اختیار میں ہے، اس میں تو مَیں عادلانہ تقسیم کررہا ہوں ؛ لیکن جس چیز کے آپ مالک ہیں، میں مالک نہیں ہوں ، یعنی : قلبی رجحان، اس میں ہماری پکڑ نہ فرمائیں ۔ (ابوداؤد )
اگر کوئی شخص قاضی یا حَکم ہو تو اس کے لئے آپؐ نے خاص طورپر عدل کی تاکید فرمائی، آپؐ نے فرمایا: قاضی تین قسم کے ہیں : ایک جنت میں جائیں گے اور دو دوزخ میں، جس نے مقدمہ میں یہ بات سمجھ لی کہ کون حق پر ہے ؟ اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں جائے گا، اور جس نے حق اور ناحق کو سمجھ لیا پھر بھی غلط فیصلہ کیا، یا اس میں حق و ناحق کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور جہالت کے باوجود فیصلہ کردیا تو ان دونوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ (ابوداؤد) اسی لئے آپ ؐکی ہدایت تھی کہ جب تک دونوں فریق کی بات نہ سن لی جائے، اس وقت تک فیصلہ نہ کیا جائے۔ ( مستدرک حاکم) آپؐ کا طریقہ تھا کہ جب بھی کسی مقدمہ کا فیصلہ فرماتے تو دونوں فریق کو برابری میں سامنے بیٹھاتے۔
معاملات میں بھی آپؐ اس کا پورا خیال رکھتے تھے۔ آپؐ کے ذمہ اگر کسی کا دَین (قرض) باقی ہوتا تو پورا پورا بلکہ بڑھ کر ادا فرماتے۔ ایک دفعہ ایک صاحب کی اونٹنی آپؐ کے ذمہ دَین تھی، آپؐ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا: جو اونٹنیاں آئی ہیں، ان میں سے اسی معیار کی اونٹنی دے دیں، یہ سن کر حضرت بلالؓ نے عرض کیا : تمام اونٹنیاں اُس سے بہتر ہیں، جو آپؐ کے ذمہ میں باقی ہے۔ آپؐنے فرمایا: اسی میں سے دے دو، یہ حسن ادائیگی کا تقاضہ ہے۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب البیوع) ایک بار ایک صاحب حَجَرسے مکہ کپڑا لے کر آئے، اللہ کے رسولؐ نے پائجامہ کا بھاؤ طے کیا، ان کے ساتھ ایک خادم تھا، جو درہم کا وزن کرتا تھا، آپؐ نے اس سے فرمایا: وزن کرو اور جھکتا ہوا تولو۔ (ترمذی )
آپؐ نے اُمت کو اجتماعی سطح پر عدل قائم رکھنے کا خاص طورپر حکم فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: جس اُمت میں حق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا جاتا ہو اور کمزور شخص طاقتور سے بے تکلف اپنا حق وصول نہیں کر پاتا ہو، اللہ تعالیٰ اس قوم کو عزت نہیں دیتے ہیں۔ (معجم الکبیر للطبرانی) خود رسولؐ اللہ کو اِس کا اِس درجہ لحاظ تھا کہ غزوۂ بدر کے موقع سے جب بہت سے لوگ قید ہوئے تو ان میں آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے۔ جب فدیہ مقرر ہوا تو ان کے لئے بھی مقرر ہوا۔ انہوں نے فدیہ معاف کرنے کی درخواست دی۔ انصار نے بھی حضورؐ کے رشتہ کی رعایت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کا فدیہ معاف کردیا جائے؛ لیکن آپؐ نے اس کو قبول نہیں کیا اور ان سے بھی فدیہ وصول فرمایا۔ (صحیح بخاری)
سخاوت و فیاضی کا حال یہ تھا کہ کوئی سائل واپس نہیں ہوسکتا تھا، اگر اپنے پاس موجود نہ ہوتو دوسروں سے قرض لے کر دیتے، اگر کچھ درہم و دینار بچا رہتا تو جب تک تقسیم نہ ہوجائے بے چین رہتے، جن لوگوں کی وفات ہوتی، فرماتے کہ ان کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے، اور متروکہ ان کے ورثاء کیلئے ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع) آپؐ کی اس فیاضی کا نتیجہ تھا کہ جب آپؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو چراغ میں تیل تک نہیں تھا اور آپؐ کی زرہ مبارک چند کلو جَو پر رہن تھی۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی)
حضرت مقدادؓ نقل کرتے ہیں کہ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ اس طرح خدمت اقدس میں حاضر ہوا کہ بھوک اور مشقت کی وجہ سے ہماری آنکھیں اور ہمارے کان بھی جواب دے رہے تھے، ہم اپنے آپ کو مختلف صحابہؓ پر پیش کررہے تھے کہ کوئی میری میزبانی قبول کرلے؛ لیکن کسی نے قبول نہیں کی، آخر ہم خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوئے، آپؐ ہمیں اپنے گھر لے گئے، وہاں تین بکریاں تھیں، آپؐ نے فرمایا : ان بکریوں کا دُودھ نکالو، جس کو ہم سب لوگ مل کر پئیں گے؛ چنانچہ ہم دُودھ دوہتے، ہم میں سے ہر آدمی اپنا حصہ لے لیتا اور ہم آپؐ کے لئے آپؐ کا حصہ اُٹھالیتے۔ ( مسلم، عن مقداد) یہ سخاوت و فیاضی کا اعلیٰ طریقہ تھا کہ صرف ایک دفعہ کھلا پلا دینے پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان کے لئے مستقل طور پر آپؐ نے میزبانی کا نظم فرمایا۔
معمولِ مبارک تھا کہ کوئی بھی شخص کوئی سوال کرتا، اگر آپؐ کے پاس موجود ہوتا تو ضرور عنایت فرمادیتے، ’’ نہیں ‘‘ نہ کہتے۔ (بخاری)۔ یہ فیاضی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ دو پہاڑوں کے درمیان بکریوں کا ایک ریوڑ تھا، ایک صاحب نے درخواست کی کہ یہ پورا ریوڑ ان کو دے دیا جائے، آپؐ نے عطا فرمادیا، وہ صاحب اپنی قوم میں گئے اور کہنے لگے : لوگو! مسلمان ہوجاؤ؛ کیونکہ محمدؐ اتنا عنایت فرماتے ہیں کہ محتاجی کا ڈر ہی باقی نہ رہے۔ ( مسلم، عن انسؓ )
جہاں آپؐ کے دربار سے کوئی حاجت مند نامراد واپس نہیں ہوتا تھا وہیں دوسری طرف سوال اور گداگری کو بھی ناپسند فرماتے تھے۔ ایک صاحب بھیک مانگتے ہوئے آئے تو آپؐ نے ان کا بستر اور پیالہ ( جس کے وہ مالک تھے ) منگوایا اور اس کی ڈاک لگوائی، دو درہم میں فروخت ہوا، آپؐ نے انہیں ایک درہم خرچ کے لئے دیا اوردوسرے درہم سے کلہاڑی بنادی کہ جنگل سے لکڑی لائیں اور فروخت کریں۔ پندرہ دنوں بعد جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو دس درہم ان کے پاس جمع ہوچکا تھا، آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ اچھا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن چہرہ پر گدائی کا داغ لے کر جاتے ؟ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ)
آپؐ انسانی برابری اور مساوات کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے، آپؐ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں صاف فرما دیا کہ کالے اور گورے یا عربی و عجمی ہونے کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے؛ اسی لئے جب بھی کوئی کام ہو تا، آپؐ اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اس کام میں شریک رہتے۔ حج میں قریش حدودِ حرم سے باہر نکلنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے؛ اس لئے عرفات نہیں جاتے تھے، آپؐ نے اس امتیاز کو ختم کیا اورعرفہ کے وقوف کو حج کے لئے لازم قرار دیا۔
عربوں میں خاندان اور ذات پات کی بنیادیں بہت گہری تھیں، ہر چیز میں اس کا لحاظ رکھا جاتا تھا اور شادی میں تو سب سے بڑھ کر، مجال نہ تھی کہ ایک اونچے قبیلے کے فرد کی لڑکی نیچے قبیلے کے مرد سے بیاہی جائے۔ سب سے کمتر درجہ غلاموں کا تھا۔ اگر غلام آزاد کردیا جاتا تب بھی وہ اس لائق نہیں سمجھا جاتا تھا کہ کسی معزز قبیلہ کی لڑکی اس کے نکاح میں دی جائے، آپؐ نے اس تصور کو توڑا، اور فرمایا کہ کوئی شخص رنگ و نسل کی وجہ سے معزز نہیں ہوتا؛ بلکہ معزز ہوتا ہے اپنے عمل اور تقویٰ کی وجہ سے۔ (معجم الکبیر للطبرانی : ۱۸؍۱۲، حدیث نمبر : ۱۶، باب العین ) پھر خاص طورپر نکاح کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص دین کے اعتبار سے پسند آئے اسے منتخب کریں۔ (سنن ترمذی، ابواب النکاح)
مساوات و برابری کا آپؐ کو اس قدر پاس و لحاظ تھا کہ آپؐ اپنے آپ کو بھی اپنے رفقاء کے برابر رکھنے کی کوشش کرتے، مسجد نبویؐ کی تعمیر کے موقع سے صحابہ اینٹیں اُٹھااُٹھاکر لاتے تھے اور دیوار چنی جاتی تھی، آپؐ بھی اینٹیں اُٹھاکر لائے، صحابہؓ نے درخواست کی کہ ہم خدام حاضر ہیں، آپؐ زحمت نہ فرمائیں ؛ لیکن آپؐ بہ اصرار اس کام میں شریک ہوئے اور فرمایا: میرے اندر اتنی طاقت بھی ہے کہ میں اس کام کو کرسکوں اور اجر و ثواب کی ضرورت جیسے تم کو ہے، ویسے ہی مجھے بھی ہے۔ (صحیح ابن حبان) آپؐ لوگوں کو سچ بولنے اور دیانت داری کو قائم رکھنے کی خاص طورپر تاکید فرماتے تھے اور ایفاء عہد کا بھی آپؐ کو بڑا لحاظ تھا۔
غرض کہ آپؐ کی ذات گرامی فضائل اخلاق کا نمونہ تھی، آپؐنے نہ صرف اخلاق کی تعلیم دی؛ بلکہ عملاً انہیں برت کر دكھایا۔