Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلم معاشرے میں قدردانی کا فقدان اور اس کا نتیجہ

Updated: July 12, 2024, 2:37 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

یورپ میں گزشتہ چند صدیوں میں جو مفکر، سائنسداں ، مختلف علوم کے ماہرین پیدا ہوئے ہیں ان کی مدح سرائی میں مغربی دنیا نے زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے ہیں یہاں تک کہ ساری دنیا نے اعتراف کرلیا کہ اگر علم کی صحیح ترقی ہوئی ہے تو اہل یورپ کے ذریعہ ہوئی ہے۔

Millions of bad things are said in the West, but we must learn to appreciate brave people from them. Photo: INN
مغرب میں لاکھ باتیں بری سہی لیکن ان سےا پنے حوصلہ مند لوگوں کی قدردانی ضرور سیکھنی چاہئے۔ تصویر : آئی این این

یورپ میں گزشتہ چند صدیوں میں جو مفکر، سائنسداں ، مختلف علوم کے ماہرین پیدا ہوئے ہیں ان کی مدح سرائی میں مغربی دنیا نے زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے ہیں یہاں تک کہ ساری دنیا نے اعتراف کرلیا کہ اگر علم کی صحیح ترقی ہوئی ہے تو اہل یورپ کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اس کے برخلاف امت اسلامیہ میں جو عظیم مفکرین پیدا ہوئے ان پر گویا کہ گمنامی کا ایک دبیز پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صرف علامہ ابن خلدون کو ہی لیں کہ انہوں نے تقریباً چھ سو سال قبل ’عُمران‘ یعنی سماجیات کے مضمون کا نظریہ اپنی تاریخ کی کتاب کے ذریعہ دے دیا تھا۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فلسفے کی تاریخ لکھی تھی۔ انہوں نے اپنی تاریخ کے ذریعہ ایک بادشاہ کو کس طرح حکومت کرنی چاہئے، کن برائیوں سے بچنا چاہئے اور کن اچھائیوں کو اپنانا چاہئے واضح کردیا تھا۔ مغربی دنیا میں ابن خلدون کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۶ ءمیں سال کے اختتام پر جب فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سے پوچھا گیا تھا کہ اس سال آپ نے کن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے دیگر دو کتابوں کے ساتھ مقدمہ ابن خلدون کا بھی ذکر کیا تھا۔ آج ہم ان علمی آسمان کے جگ مگ ستاروں کے نام سے بھی ناواقف ہیں اور یہ اکیلے ابن خلدون کا مسئلہ نہیں ہے ، ہماری تاریخ کے سبھی درخشاں ستاروں کے متعلق ہمارایہی حال ہے۔ ناواقفیت کا عالم اب یہ ہوچلا ہے کہ گریجویشن کی سطح کے طلبہ دیگر علماء ، محدثین، سائنسدانوں کو تو چھوڑ دیجئے، چار وں خلفاء راشدین کے نام صحیح ترتیب کے ساتھ نہیں بتلا پارہے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود ہی اپنے علمی وادبی کارناموں کو دل کے نہاں خانوں میں کہیں دفن کردیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: قرآن مجید کو نجماً نجماً نازل کرنے کی حکمتیں اور مصلحتیں

اس کے برخلاف مغرب کو دیکھئے۔ کس طرح وہ اپنے ایک ایک مفکر کا ورثہ سنبھال کررکھتے ہیں ؟ کس طرح وہ اس کی مدح سرائی کرتے ہیں کہ ساری دنیا کو یقین ہوجاتا ہے کہ نہیں اس مضمون کا دنیا میں سب سے ماہر آدمی یہی گزرا ہے۔ شاید اس کی وجہ وہ عادت ہے جوہمارے اندر سرایت کرتی چلی گئی ہے: کسی کی تعریف نہ کرنا، ہر کسی کے کسی بھی کام پر سوائے تنقید کے کچھ نہ کرنا۔ یہاں یہ بات واضح ہو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام تواضع کی تعلیم دیتا ہے اور فخر وتکبر سے سختی سے منع کرتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انسان کی تعریف اس کے اندر تکبر اور ریاکاری کے بیج بوسکتی ہےاور اس سلسلے میں مسلم شریف میں یہ حدیث بھی ملتی ہے کہ:’’ابو معمر سے روایت ہے کہ ایک شخص کھڑاہوا امراء میں سے کسی امیر کی تعریف کرنے لگا توحضرت مقدادؓ اس شخص پر مٹی ڈالنے لگے، اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ حکم دیاتھا کہ ہم مدح سراؤں کے منہ میں مٹی ڈالیں۔‘‘
 لیکن ، غور کیا جائے تو یہ وہ تعریف ہے جو منہ پر کی جائے، جس میں مبالغہ آرائی ہو، جس کی وجہ سے تعریف کئے جانے والے شخص کا فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ ورنہ قرآن مجید میں تعریف کی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں انبیاء کرام ، صحابہ اور اہل ایمان کی بھی تعریف کی ہے بلکہ بعض نصاریٰ کی بھی تعریف قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بیشمار احادیث ہیں جن میں رسول اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کےفضائل بیان کئے ہیں۔ یہ تو مشہور ہے ہی کہ دس صحابہ کرامؓ تو عشرۂ مبشرہ ہیں ہی ، اس کے علاوہ بیشمار احادیث ہیں جن میں الگ الگ صحابہؓ کے فضائل واردہوئے ہیں۔ اور ان سب تعریف وتوثیق کے الفاظ جو نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے مختلف لوگوں کے لئے مختلف مواقع پر وارد ہوئے ہیں ، ان کی دینی وجہ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی وجہ بھی ہے کہ انسان کی تشجیع یا اس کی حوصلہ افزائی کو نہ صرف خود اس انسان کو بلکہ دیگر کئی سارے انسانوں کو بھی بلند عزائم اور کچھ کر دکھانے کا حوصلہ عطاکرتی ہے۔
  لیکن افسوس کہ مدح سرائی کی ان ساری باریکیوں سے درکنار ہوکر ہم صرف تنقید اور نقص کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کوئی عالم ہو یا حافظ، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، تاجر ہو یا مزدور، ہمارے پاس پزیرائی اور حوصلہ افزائی کی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ البتہ تنقید کے ذریعہ لوگوں کے حوصلے پست کرنا، یہ ہمارے مزاج میں داخل ہوچکا ہے۔ اگر ہمیں تنقید سے فرصت ملے تو ہم قدردانی پر آئیں ، قدردانی پرآئیں تو لوگوں کی صلاحیت کو سمجھیں ، ان کی صلاحیت کو سمجھیں تو ان کی خوبیوں کی تعریف کریں ، اور اس طرح معاشرے میں خیر اور بھلائی کو عام کرنے میں معاون ہوسکیں ، اس طرح لوگوں کے دلوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور امنگ پیدا کرسکیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا یہ تنقید اور ناقدری والارویہ صرف بڑی علمی، ادبی ، پیشہ ور شخصیات کے ساتھ ہی نہیں ہے، بلکہ ہمارے گھروں ، محلوں ، مدارس میں دوستوں ، رشتے داروں اور اہل خانہ اور پڑوسیوں کے درمیان بھی یہی عادت جاری ہے۔
  یہی نہیں کھیل کود ہو، کمپیوٹر یا موبائیل پر کوئی اہم کام ہو، کوئی نقش ونگار ہو، ٹیلرنگ ہو، کوئی نظم سنانا ہو، اسکول سے کسی مقابلے میں انعام جیتنا ہوہمارے نونہالوں کو عام طور پر وہ حوصلہ افزئی نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔ گھر سے باہر نکلیں تو یہی حال معاشرے کی اعلی سطح تک بھی جاتا ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ عرصہ ہوا کہ مسلم قوم میں غزالی، طبری، طرطوشی اور ابن خلدون جیسے لوگ آنا بند ہوگئے ہیں۔ اگر ہم کو اس قحط الرجالی سے باہر آنا ہے تو مغرب میں لاکھ باتیں بری سہی لیکن ان سےا پنے حوصلہ مند لوگوں کی قدردانی ضرور سیکھنی ہوگی۔ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کی آج ہمیں جتنی ضرورت ہے، شاید ہی تاریخ کے کسی اور موڑ پر اتنی ضرورت رہی ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK