دنیا اور آخرت کی فکر میں فرق بہت تھوڑا سا ہے۔ بات بس ترجیحات کی ہے کہ ہم کس زندگی کو ترجیح دیتے ہیں، البتہ یہ بات طے ہے کہ جس انسان نے آخرت کو اپنا مطمح نظر بنایا، اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی، اور جس نے اس کے برعکس کیا وہ اپنی دنیا بھی کھو بیٹھتا ہے اور آخرت بھی۔
اسلام نے دنیاوی امور سے منع نہیں کیا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمہ وقت فکر آخرت بھی رہے۔ تصویر: آئی این این۔
انسانی دماغ میں ایک عادت ہے بھولنے کی۔ یہ اچھی بھی ہے اور بری بھی۔ بری اس معنی میں ہے کہ انسان اکثر اہم کام وقت پر کرنا بھول جاتا ہے، اپنی ذمہ داریاں بھول جاتا ہے، اپنوں کو بھول جاتا ہے یا اپنے محسنین کو بھول جاتا ہے۔ لیکن یہی عادت اس معنی میں اچھی بھی ہے کہ غم اور مصیبتیں جو اسے اذیت پہنچاتی ہیں وہ وقت کے ساتھ فراموش ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تو یہ بھول ایک طرح سے رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ اور بھول کے متعلق اس بحث میں اگر ہم غور کریں تو سب سے اہم نکتہ یہ نظر آتا ہے کہ انسان اپنے رب کو، اس کی یاد کو اور اپنی آخرت کو نہ بھول جائے۔ اسی بھول کو دور کرنے کی خاطر اللہ عزوجل نے بے شمار پیغمبر بھیجے، آسمانی کتابیں نازل فرمائیں، خوشخبریاں دیں، متنبہ کیا، ڈرایا اور عذاب بھی بیان فرمائے تاکہ انسان اس دنیا کی حقیقت کو سمجھے اور اس سے دل لگا کر آخرت کو نہ بھول بیٹھے۔
سورۃ الکہف کی آیت نمبر ۲۴؍ میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے رب کویاد کرلیا کرو۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ انسان جب غلطی سے اپنے رب کو بھول جائے تو اسے فوری طور پر رجوع کرلینا چاہئے۔ شریعت اسلامیہ میں نسیان اور بھول کا مفہوم بیان کرتے ہوئے امام راغب الاصفہانیؒ کہتے ہیں : ’’انسان کی ہر بھول اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ لیکن ایسی بھول جس میں ارادے کا عمل دخل ہو، اس کی معافی نہیں ہے۔ ہاں جس بھول میں انسان کے پاس واقعی عذر ہو، وہ اللہ عزوجل کے پاس قابل معافی ہے۔ ‘‘ اسی بات کی بہترین تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن عبد البرؒ نے لکھا ہے:’’عربوں کے پاس لفظ نسیان، بھول، دو معنی میں استعمال ہوتا تھا: جان بوجھ کر کوئی کام ترک کرنا اور ایسے ہی یہ لفظ یاد کی ضد کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ ‘‘ قرآن مجید میں یہ لفظ انہی دو معنی میں استعمال بھی ہوا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ارادے اور غیر ارادے کی بھول پر ہی شریعت بہت سارے احکامات صادر کرتی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کی وجہ بھی تو وہ بھول ہی بنی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیڑ کے قریب نہ جانے کے حکم کو وہ بھول بیٹھے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’اور درحقیقت ہم نے اس سے (بہت) پہلے آدمؑ کو تاکیدی حکم فرمایا تھا سو وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں بالکل (نافرمانی کا کوئی) ارادہ نہیں پایا۔ ‘‘ ( سورۃ طٰہ: ۱۱۵)
یعنی انہوں نے اللہ عزوجل پر ایمان لانے اور اس کے رسول کے لائے ہوئے احکامات کی پیروی کو نظر انداز کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اپنی رحمتوں سے دور کردیا۔ آخرت میں جب کفار و مشرکین جہنم میں داخل کردئیے جائینگے اس وقت اللہ عزوجل ان کو اس دنیا میں ان کی بھول یاد دلائے گا: ’’اور (اُن سے) کہا جائے گا: آج ہم تمہیں بھلائے دیتے ہیں جِس طرح تم نے اپنے اِس دن کی پیشی کو بھلا دیا تھا اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے۔ ‘‘ (سورۃ الجاثیہ:۳۴)
یہ بھی پڑھئے: الیکشن کا اخلاقی اور دینی تنزل: حرام کمائی،فاسق کی تعریف اوراندھی حمایت کا المیہ
بھول کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ ایک ہی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس دنیا کے چکر میں پڑ کر اپنی آخرت کو بھلا نہ دینے کی تلقین کرتا ہے بلکہ آخرت میں ہماری کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہوگا کہ ہم نے اس دنیا کی چکاچوند سے آنکھیں چرا کر اپنے رب کی جانب اپنی نگاہوں کو مرکوز کیا تھا۔ ایک حدیث شریف میں کیا ہی بہترین مثال آئی ہے کہ جس میں اللہ کے رسول کریم ﷺ نے ہمیں اس دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی طرح زندگی گزارنے کی تلقین کی ہے۔ اس لئے کہ ایک مسافر اپنے سفر میں بہت ساری باتوں کا اہتمام کرتا ہے مثلاً وہ کم سے کم سامان لے کر سفر کرنے کی کوشش کرتا ہے، راستے میں بے شمار خوشنما مناظر اس کو بھاتے ہیں لیکن وہ اپنی نگاہ فقط اپنی منزل پر مرکوز رکھتا ہے۔ نئے شہر اور نئے مقام پر اس کے آس پاس لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے لیکن وہ خود کو ان کے درمیان اجنبی محسوس کرتا ہے، اس طرح خود کو اجنبی سمجھنے سے اس کو نفسیاتی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل سے منزل کی محبت کم نہیں ہوتی۔ اب ان ساری باتوں کا انطباق اگر ہم اس آئیڈیل زندگی پر کریں جن کا اسلامی تعلیمات میں تصور دیا گیا ہے تو ایک حسین زندگی کا مرقع سامنے آتا ہے جو ہلکی پھلکی ہے، آسان ہے، جس میں پریشانیاں اور مسائل کے طوفان بھی مسافر پر اثر انداز نہیں ہوتے اور جس میں مسافر آخرت کی منزل کو نہارتے ہوئے اس دنیا سے بآسانی گزر جاتا ہے۔
اس کے بر عکس جو مسافر اس دنیاوی زندگی کے سفر کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں، ان کی دنیا بھی لٹ جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ سب سے پہلے تو انہیں اس دنیا کی ہوس کی فکریں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں کہ دنیا میں ملنے والا ہر نفع ان میں لالچ کو بڑھاتا ہے اور ہر نقصان ان میں بخل کو فروغ دیتا ہے۔ ان کو مال و دولت کم ملے تو وہ زیادہ کی خواہش کرتے ہیں اور جب زیادہ ملے تو اور زیادہ کی ہوس کرتے ہیں۔ ان کے دل میں مال و دولت، نام و نمود، ریاکاری اور تکبر جیسے کئی جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ دنیا کے لئے جھوٹ، دھوکہ دہی، مکاری وغداری، رشوت، ناجائز قبضہ جات، دوسروں کا حق مارنا، ظلم و ستم اور پتہ نہیں کیا کیا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
غور فرمائیے کہ ان سارے جھمیلوں سے پَرے اسلام نے انسان کو ایک ہی فکر دی ہے اور وہ ہے آخرت کی۔ یہ کوئی معمولی فکر نہیں ہے۔ نبیؐ کریم نے آخرت کیلئے جس کثرت سے آنسو بہائے ہیں، ہر مسلمان کو ان آنسوؤں سے یہ بات سیکھنے کی ضرورت ہے کہ فکر کرنے کی اصل چیز آخرت ہے، دنیا نہیں۔ اور ہم ہیں کہ اس فانی دنیا کی محبت کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں جو ایسے نہیں تو ویسے بہر حال کیسے بھی، ایک دن ہم سے چھن جائے گی، ختم ہوجائے گی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم میں بہت سے ایسے ہیں جو اسی دُنیا کے پیچھے دوڑ دوڑ کر اپنی موت اور اپنی آخرت کو فراموش کردیتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ گھڑی کی سوئی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے، وہ ہمیں اپنی موت سے اور اپنی آخرت سے قریب کرتی جاتی ہے اور گھڑی یا وقت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ٹھہرتے نہیں ہیں۔
بات بہت چھوٹی سی ہے اور دنیا اور آخرت کی فکر میں فرق بھی بہت تھوڑا سا ہے۔ بات بس ترجیحات کی ہے کہ ہم کس زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ جس انسان نے آخرت کو اپنا مطمح نظر بنایا، اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی، اور جس نے اس کے برعکس کیا وہ اپنی دنیا بھی کھو بیٹھتا ہے اور آخرت بھی۔