اسلام نے ووٹ کو گواہی اور ایک امانت قرار دیا ہے۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ اب انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہونگی، ایسے میں سب کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ہمارا فرض کیا ہے۔
EPAPER
Updated: October 25, 2024, 3:35 PM IST | Mufti Masood Ahmed Qasmi | Mumbai
اسلام نے ووٹ کو گواہی اور ایک امانت قرار دیا ہے۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ اب انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہونگی، ایسے میں سب کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ہمارا فرض کیا ہے۔
انتخابات ایک جمہوری ملک میں حکومت کی تبدیلی اور عوام کی فلاح و بہبود کا ایک ذریعہ ہونے چاہئیں، لیکن اس کے برعکس آج یہ عمل خرابیاں اور مفاسد لئے ہوئے ہے۔ یہ نہ صرف دنیوی فساد کا سبب بن رہا ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی گناہ اور حرام کاموں کا ذریعہ بن چکا ہے۔ دنیاوی مفادات کے لئے حلال و حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے اور لوگ خود کو ایسے گناہوں میں ملوث کر لیتے ہیں جو نہ صرف ان کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ پوری امت کے لئے خطرناک ہیں۔
حرام طریقے سے کمائی اور ووٹ فروشی کا وبال
انتخابات میں حرام طریقے سے مال کمانا عام ہو چکا ہے۔ سیاسی امیدوار اور جماعتیں ووٹرز کو خریدنے کے لئے پیسے تقسیم کرتے ہیں اور ووٹر اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔ ‘‘ (البقرہ:۱۸۸)
یہ عمل نہ صرف رشوت کی تعریف میں آتا ہے بلکہ ایمان کی کمزوری اور آخرت کی بے فکری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ایک مومن کا یہ طرز عمل انتہائی خطرناک ہے کہ وہ عارضی دنیاوی مفاد کے لئے اپنے دین کو داؤ پر لگائے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ ‘‘ (ابو داؤد)
اس حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انتخابات میں رشوت اور حرام پیسہ دینا اور لینا کس قدر سنگین جرم ہے۔
اندھی حمایت اور فاسق کی تعریف غضب الٰہی کا سبب
آج کے انتخابات میں ایک اور بدترین رویہ یہ ہے کہ لوگ اپنے امیدواروں اور لیڈروں کی اندھی حمایت میں مبتلا ہو چکے ہیں، چاہے وہ امیدوار فاسق اور بدکار ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیشہ حق اور باطل میں فرق کرنے کی تاکید فرمائی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی رویے اس کے برعکس ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جب کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو عرش الٰہی ہل جاتا ہے اور اللہ غضبناک ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (ترمذی)
آج کل سیاسی لیڈروں اور امیدواروں کی بے جا تعریفات اور ان کے کردار و عمل کو بے حد بڑھا چڑھا کر پیش کرنا معمول بن چکا ہے، حالانکہ ایسے افراد کی حمایت یا تعریف الٰہی غضب کو دعوت دیتی ہے۔
مخالفین کی غیبت اور الزام تراشی
سیاسی مہم کے دوران مخالفین کی غیبت کرنا، ان پر جھوٹے الزامات لگانا اور تہمتیں باندھنا عام ہو چکا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ایسے رویے سے سختی سے روکا ہے۔ فرمایا گیا:
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں ) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں ) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں ) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو۔ ‘‘ (الحجرات:۱۱)
یہ آیت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ دوسروں کی عزت اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا ایک مومن کا فرض ہے، لیکن آج الیکشن مہمات میں مخالفین کی بے عزتی کرنا، ان کی غیبت کرنا، جھوٹے الزامات لگانا اور تہمتیں باندھنا ایک عام رویہ بن چکا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص کسی مومن کی عزت و آبرو پر حملہ کرتا ہے، اللہ اسے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ ‘‘ (ابو داؤد)یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ لوگوں کی عزت و حرمت کو پامال کرنا کتنا بڑا جرم ہے، اور سیاسی امیدواروں کے حمایتی اکثر اپنے مخالفین کی عزتوں کو نشانہ بناتے ہیں، جس کا نقصان نہ صرف دینی طور پر بلکہ معاشرتی طور پر بھی بہت زیادہ ہے لیکن ہم انتخابی جوش میں اسے بھول جاتے ہیں۔
عزت، مال اور خون کی حرمت
انتخابات میں جو خرابیاں دیکھی جاتی ہیں، ان میں ایک بڑی خرابی لوگوں کی عزت و حرمت کو پامال کرنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
’’اے لوگو! یقیناً تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسے کہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری، مسلم)
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان کی عزت، جان اور مال واجب الاحترام ہے، اور ان کو نقصان پہنچانا یا ان پر ظلم کرنا حرام ہے مگر آج کے انتخابات میں مخالفین کے خلاف ایسی مہمات چلائی جاتی ہیں جو ان کی عزتوں کو مجروح کرتی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف خلاف شرع ہے بلکہ معاشرتی تباہی کا سبب بھی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اللہ کی مدد کو دیکھنے کیلئے بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے
حامیوں میں دشمنیاں
ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ انتخابی حامی آپس میں لڑائی جھگڑے شروع کر دیتے ہیں، اور یہ دشمنیاں انتخابات کے بعد بھی سالوں تک جاری رہتی ہیں۔ مخالف اور حامی اپنے لیڈروں کے لئے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دشمنیاں قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہیں حالانکہ بعد میں لیڈران خود سا زباز کرلیتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ‘‘ (بخاری)
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ایک سچا مومن وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتا، لیکن آج کے الیکشن نے اس اصول کو بالکل الٹ دیا ہے۔
نظام سیاست کا زوال
یہ بات عیاں ہے کہ آج انتخابی عمل اقتدار کے حصول کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ سیاستداں صرف اپنے مفادات کیلئے عوام کو استعمال کرتے ہیں اور الیکشن ختم ہونے کے بعد ان کے مسائل کو بھول جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جب تمہاری حکومت بدترین لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور مال دنیا تمہارے بہترین لوگوں کے بجائے بدترین لوگوں کو دیا جائے، تو اس وقت تمہاری حالت خراب ہوگی۔ ‘‘(ترمذی)
یہ حدیث آج کے حالات پر پوری طرح صادق آتی ہے، جہاں سیاست کا معیار گراوٹ کا شکار ہے اور عوام اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ان تمام حالات کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ اور انتخابی عمل کو دین کے احکام کے مطابق کریں۔ ووٹ ایک امانت ہے، اور ہمیں اسے صرف انہی افراد کو دینا چاہئے جو اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے جانکاراوردیانت دار ہوں۔ (سورہ یوسف )قرآن و حدیث کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ان پر عمل کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔ ‘‘ (النساء:۵۸)
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ووٹ کی امانت کو صحیح جگہ پر خرچ کرنا ایک اہم فریضہ ہے، اور ہمیں ہر قسم کی حرص و لالچ سے بچتے ہوئے حق اور سچائی کا ساتھ دینا چاہئے۔