موجودہ حالات میں سنجیدگی، حکمت اور قانون کے احترام کے ساتھ صحیح قدم اٹھانا نہ صرف ایک فطری عمل ہے بلکہ نبی اکرم ؐ سے حقیقی عقیدت اور ایمان کا تقاضا بھی ہے۔
EPAPER
Updated: October 03, 2025, 4:13 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
موجودہ حالات میں سنجیدگی، حکمت اور قانون کے احترام کے ساتھ صحیح قدم اٹھانا نہ صرف ایک فطری عمل ہے بلکہ نبی اکرم ؐ سے حقیقی عقیدت اور ایمان کا تقاضا بھی ہے۔
مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی اور سب سے بنیادی حقیقت یہ ہے کہ خدائے وحدہٗ لاشریک کے بعد مرکز ِ محبت و عقیدت صرف اور صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کا سارا عملی اور اعتقادی ڈھانچہ حضور اکرم ؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ سے وابستہ ہے۔ خود نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ‘‘(مسلم) اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کریم سے سچی محبت اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کی مکمل پیروی ایمان کی تکمیل کی شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ جذبۂ محبت کسی جذباتی یا رسمی وابستگی کا نتیجہ نہیں بلکہ عقیدے کا تقاضا ہے، جو ایمان کے لازمی حصے کے طور پر ان کی زندگیوں میں رچا بسا ہوا ہے۔
چونکہ حضورؐ سے محبت و عقیدت کا اظہار مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی حصہ ہےاور یہ جذبہ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں جھلکتا ہے، اسی دینی و فطری وابستگی کے تحت گزشتہ ہفتے مسلمانوں کی ایک جماعت نے کانپور میں پلے کارڈ پر ’’آئی لو یو محمدؐ‘‘ لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ لیکن افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس خالص مذہبی جذبے کو بھی کچھ شرپسند عناصر نے نشانہ بنایا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرادیا۔ اس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پولس انتظامیہ نے بھی اس بے بنیاد شکایت کو تسلیم کرتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا اور گرفتاریاں تک کر ڈالیں۔ اب یہ سلسلہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک آئینی اور مذہبی حق کو جرم بنا کر پیش کیا جائے؟ یہ طرزِ عمل نہ صرف انصاف اور قانون کی روح کے منافی ہے بلکہ مذہبی آزادی پر بھی کھلا حملہ ہے۔ کسی مذہبی رہنما سے محبت اور عقیدت کا اظہار انسانی فطرت ہے، اورہمارے ملک کا آئین اس جذبے کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل ۲۵؍ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے، یعنی وہ اپنے مذہب پر عمل کر سکتا ہے، اس کی تبلیغ کر سکتا ہے اور اپنی عقیدت و وابستگی کا اظہار کر سکتا ہے۔ ’’آئی لو یو محمدؐ‘‘ کہنا بھی اسی مذہبی آزادی کے دائرہ میں آتا ہے، جیسے دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنے رہنماؤں اور مذہبی شخصیات کے لئے نعرے بلند کرتے ہیں۔ اگر صرف مسلمانوں کے معاملے میں اس پر مقدمہ یا کارروائی کی جاتی ہے تو یہ نہ صرف آئین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ آرٹیکل ۱۴؍ (سب کیلئے مساوات) اور آرٹیکل ۱۹؍ (اظہارِ رائے کی آزادی) کی بھی کھلی توہین ہے۔ اس طرح کا امتیازی رویہ دراصل مذہبی منافرت اور تعصب کی بدترین مثال ہے، جو ملک کے سیکولر کردار، جمہوری اقدار اور عدالتی وقار کے منافی ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اس طرزِ عمل کو نہ قانونی جواز حاصل ہے اور نہ ہی اخلاقی۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس مذہبی قدغن کے خلاف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی کھل کر آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے، کیونکہ نبی اکرم ؐ کی ذات گرامی سے محبت اور عقیدت کی تاریخ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ غیر مسلموں میں بھی صدیوں سے ایک گہرا احترام اور محبت پائی جاتی رہی ہے۔ آپؐ کی تعلیمات، انسانیت کے لئے آپؐ کا پیغام، اور آپؐ کی اعلیٰ اخلاقی بصیرت نے دنیا کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ عزت اور محبت پیدا کی ہے۔ اس پس منظر میں غیر مسلموں کی حمایت نہ صرف انصاف و آزادی کے تقاضے کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ نبی کریم ؐ کی محبت ایک عالمی انسانی جذبہ ہے، جو کسی بھی مذہبی یا سماجی حدود میں محدود نہیں کی جا سکتی۔
اس پس منظر میں مسلمانوں پر اس وقت دو نہایت اہم ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پہلی ذمے داری یہ ہے کہ ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی ساتھ لے کر ایک مضبوط اور منظم قانونی جنگ لڑیں، تاکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس طرح کے ناجائز اور امتیازی اقدامات کے خلاف واضح پیغام دیا جا سکے۔ اس طرح نہ صرف موجودہ واقعے کا مناسب اور پرامن حل ممکن ہوگا بلکہ یہ مستقبل میں ایسے کسی بھی اقدام کے سدِ باب کے لئے بھی ایک مضبوط مثال اور بنیاد قائم کرے گا، اور یہ ظاہر کرے گا کہ مسلمانوں کی محبت نبی اکرمؐ کے لئے پرامن، قانونی اور معاشرتی اصولوں کے مطابق ہے۔
دوسرا یہ کام کہ حضورؐ کی تعلیمات کو برادران وطن تک پہنچانے کے عمل کو تیز کریں اور اُنہیں قریب لائیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم سرکار دوعالمؐ کی تعلیمات میں خود کو ڈھالنے کے معاملے میں نہ تو تغافل سے کام لیں نہ ہی تساہل سے۔ یہ حالات ہمیں ایک اور موقع فراہم کررہے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے اہم اور بنیادی کام جو مسلمانوں کو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ صرف پلے کارڈ یا زبان سے آپؐ سے محبت کا اظہار کرنے تک محدود نہ رہیں، بلکہ اس موقع کو اپنی زندگی کا ایک حقیقی نقطہ آغاز بنائیں۔ یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ ظاہری، باطنی اور عملی طور پر اپنے آپ کو نبوی رنگ میں رنگیں، یعنی اپنی سوچ، عمل، اخلاق اور تعلقات میں رسولؐ اللہ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو مکمل طور پر اپنائیں۔ صرف اسی صورت میں مسلمان اپنی محبت کے دعوے میں سچے ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد ہی مسلمانوں کی زندگی میں وہ رعب قائم ہوگا، جو لوگوں کے دلوں میں احترام اور خوفِ خدا پیدا کرے گا۔ جس کی طرف نبی اکرمؐنے اشارہ فرمایا ہے: ’’میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی ہے۔ ‘‘ (سنن ترمذی)
خلاصہ یہ کہ اس معاملے میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مذہب اور عقل دونوں کا استعمال کرتے ہوئے صحیح اور سنجیدہ نتیجے پر پہنچیں۔ اس لئے اس وقت سنجیدگی، حکمت اور قانون کے احترام کے ساتھ صحیح قدم اٹھانا نہ صرف ایک فطری عمل ہے بلکہ نبی اکرم ؐ سے حقیقی عقیدت اور ایمان کا تقاضا بھی ہے۔