اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو محض جسم و ذہن کا مجموعہ بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس کے باطن میں ایک ایسی روحانی قوت ودیعت کی ہے جسے حوصلہ کہا جاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو محض جسم و ذہن کا مجموعہ بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس کے باطن میں ایک ایسی روحانی قوت ودیعت کی ہے جسے حوصلہ کہا جاتا ہے۔ یہ حوصلہ دراصل انسان کی داخلی رفعت، اس کی معنوی پرواز اور اس کی خودی کی اصل توانائی ہے۔ جب یہ قوت بیدار و بلند ہوتی ہے تو انسان خارجی رکاوٹوں کو حقیقت نہیں بلکہ عارضی دھند سمجھ کر آگے بڑھتا ہے اور یوں وہ کامیابی کی بلند ترین چوٹیوں کو بھی اپنی کوششوں کے سامنے پست پا تا ہے لیکن جب یہی باطنی قوت کمزور پڑ جائے تو انسان کے اندر کی دنیا سکڑ جاتی ہے، مقصد کا افق دھندلا جاتا ہے اور وہ نہ صرف بڑی کامیابیوں سے محروم ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی موجود نعمتوں کو بھی ہاتھ سے کھو بیٹھتا ہے۔ یوں حوصلہ انسانی وجود کی وہ باطنی محرّک قوت ہے جو اسے زوال یا کمال،دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لے جاتی ہے اور اسی کے تعین پر انسان کی تقدیر کا رخ مڑتا ہے۔
اسی حقیقت کی بنا پر قرآن مجید میں حوصلہ بلند رکھنے اور دل مضبوط کرنے کی تاکید بارہا کی گئی ہے۔ انسان جب آزمائشوں میں گھِر جاتا ہے تو اس کا باطن کمزور پڑنے لگتا ہے، اسی لئے قرآن اسے یاد دلاتا ہے کہ حوصلہ اور توکل وہ باطنی سہارے ہیں جو انسان کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو۔ ‘‘(سورۃ آلِ عمران:۱۳۹) یعنی مومن کو اپنی داخلی طاقت کو بیدار اور مضبوط رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر جب تم پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران:۱۵۹) اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ارادہ اور اعتمادِ الٰہی جب متحد ہو جائیں تو انسان کے راستے کی بڑی سے بڑی رکاوٹیں بھی معمولی ہوجاتی ہیں۔ اس طرح قرآن انسان کے باطنی سفر کو رہنمائی دیتے ہوئے اسے ہمت، استقلال اور توکل کے ساتھ آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم اپنی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک عجیب اور نہایت تکلیف دہ تضاد سامنے آتا ہے۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم دل میں بڑی کامیابیوں کی آرزو کرتے ہیں، اس کا خواب دیکھتے ہیں، لیکن ہمارا حوصلہ اکثر کمزور پڑ جاتا ہے اور یہی پست ہمتی ہمیں منزل تک پہنچنے نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان کو لیجئے جو ڈاکٹر بننے کا شوق تو رکھتا ہے، مگر جب محنت، مستقل مزاجی اور مشکل راہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کا حوصلہ لرزنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل میں عظیم مقصد کے باوجود وہ چند مشکلات کے آنے پر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور یوں کامیابی ،جس کے وہ خواب دیکھ رہا تھا، اس کے ہاتھ سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ مثال ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ خوابوں کی بلندی تبھی حقیقت بنتی ہے جب حوصلہ بھی اسی بلندی تک اُٹھے، ورنہ خواہشیں بڑی ہوں یا چھوٹی؛ پست ہمتی ان سب کو راستے ہی میں روک دیتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ کائنات کا نظام کمزور ارادے اور پست ہمتی کو کبھی قبول نہیں کرتا؛ گویا ازل سے یہ قانون نافذ رہا ہے کہ جو شخص اپنے عزم کو مضبوط نہ رکھے، اپنے اندر کے خوف اور تذبذب پر قابو نہ پائے، اسے زندگی کے سفر میں زوال، ناکامی اور محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے پست ہمتی کوئی سادہ انسانی کمزوری نہیں بلکہ ایک ایسا جرم ہے جو انسان کو اس کے حقیقی مقام و مرتبے سے محروم کر دیتا ہے۔
اس باب میں معلم انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ بلند حوصلگی کی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ ہر ایک انسان کے لئے روشنی کا مینار بن جاتی ہے۔ ان میں سے ایک نہایت عظیم مثال طائف کا واقعہ ہے۔ جب آپؐ مکہ میں مسلسل مخالفت، تکذیب اور ظلم برداشت کرنے کے بعد طائف کی طرف گئے، اس امید کے ساتھ کہ شاید وہاں کے لوگ حق کی آواز قبول کریں گے تو وہاں بھی آپ کو ٹھکرایا گیا، مذاق اُڑایا گیا، بلکہ شہر کے اوباش لڑکوں اور غلاموں کو آپ پر پتھر مارنے کیلئے لگا دیا گیا۔ آپ زخمی ہوئے حتیٰ کہ نعلین خون سے بھر گئے۔
یہ وہ مقام تھا جہاں کوئی کمزور حوصلہ انسان ٹوٹ کر رہ جاتا، لیکن آپؐ نے اس شدید ترین اذیت کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ آپؐ نے اللہ کے سامنے جو دعا کی وہ آپؐ کی بلند حوصلگی، عزم اور توکل کی معراج ہے: ’’اے اللہ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی تکلیف کی پروا نہیں۔‘‘ (سیرت ابن ہشام) اس کا صاف مفہوم اور مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی سختیاں، جسمانی تکلیفیں اور بے قدری بھی آپ کا حوصلہ نہیں توڑ سکیں۔ آپؐ نے راستہ نہیں بدلا، مقصد نہیں چھوڑا اور نہ ہی کسی تلخی میں مبتلا ہوئے۔ اس موقع پر جب فرشتہ آیا اور پوچھا کہ اگر آپ حکم دیں تو ان کو پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے، تو آپ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ ان کی نسلوں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام۔ آپ کی حیات مبارکہ کا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ بلند حوصلگی صرف مشکلات برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ تکلیف میں بھی مقصد کو برقرار رکھنے، انسانیت کیلئے خیرخواہی جاری رکھنےاور اللہ کے فیصلوں پر کامل توکل رکھنے کا نام ہے۔ نبی کریمؐ کا یہی حوصلہ تھا جس نے شکست کی ہر گھڑی کو مستقبل کی عظیم کامیابی کا پیش خیمہ بنا دیا۔
موجودہ وقت میں اگر ہم غور کریں تو ہمارے بہت سے مسائل پست ہمتی کی وجہ سے ہی جنم لیتے ہیں اس لئے ہمیں اسوۂ نبوی ؐسے قوت و حوصلہ کا وہی روشن سبق لینے کی ضرورت ہے جو ہر دور کے انسان کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ اس طرح اگر ہم ناموافق حالات میں بھی اپنے عزم کو مضبوط رکھیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے راستے کو نہیں روک سکے گی اور ہم مشکل لمحوں کو شکست نہیں بلکہ کامیابی کا زینہ بنا دیں گے اور ہمارا شمار تاریخ میں نئی کامیابی، نئی فتح اور نئی مثال رقم کرنے والوں میں ہوگا۔