Inquilab Logo Happiest Places to Work

خدمتِ خلق کو عبادت بنائیں نہ کہ اشتہاری مہم کا حصہ

Updated: June 20, 2025, 4:27 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا بلاشبہ اعلیٰ اخلاقی اقدار میں شمار ہوتا ہے، مگر اس سے بھی بلند مرتبہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف مسلسل بھلائی کرتا رہے بلکہ اپنی کی ہوئی نیکی کو دل و دماغ سے فراموش بھی کر تا رہے؛ کیونکہ حقیقی نیکی وہی ہے جو احسان جتا کر یا فخر و نمود کے ساتھ نہ کی جائے، بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا بلاشبہ اعلیٰ اخلاقی اقدار میں شمار ہوتا ہے، مگر اس سے بھی بلند مرتبہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف مسلسل بھلائی کرتا رہے بلکہ اپنی کی ہوئی نیکی کو دل و دماغ سے فراموش بھی کر تا رہے؛ کیونکہ حقیقی نیکی وہی ہے جو احسان جتا کر یا فخر و نمود کے ساتھ نہ کی جائے، بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو۔ یہی صفت انبیاءِ کرام علیہم السلام کی سیرت کا جوہر ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے لئے خیر کا سرچشمہ بنے رہے اور اپنی نیکیوں کو کبھی یاد نہ رکھا۔ قرآن مجید میں انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں کئی جگہوں پر ہے کہ وہ اپنی قوم سے کسی بدلے یا صلے کے طلب گار نہ تھے، بلکہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ’’میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمہ ہے۔ ‘‘ (الشعراء:۱۰۹) یہ طرزِ عمل اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انبیاء کی تمام محنتیں اور خدمات خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے تھیں، نہ کہ کسی دنیاوی فائدے اور تعریف و ستائش کے لئے۔ یہی اخلاص اور بے غرضی ہر خیرخواہ کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ 
انسانی فطرت میں دوسروں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ بسا اوقات اپنی ذات کی تسکین یا سماجی قبولیت کے لئے بھی ہوتا ہے، لیکن جب انسان کسی صلہ، تعریف یا بدلے کی توقع کے بغیر بے غرضی سے کسی کے لئے بھلائی کرتا ہے، تو وہ عمل روحانی سکون، اندرونی خوشی اور قلبی اطمینان کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں نیکی محض ایک عمل نہیں رہتی بلکہ ایک کیفیت، ایک روحانی تجربہ بن جاتی ہے۔ اسی مفہوم کو ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے خوبصورت قول سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔ 
زیر ِ بحث موضوع سے متعلق ایک عجیب مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں بے شمار رفاہی و فلاحی کام افراد، اداروں اور جماعتوں کی طرف سے انجام دیئے جا رہے ہیں، جو بظاہر قابلِ تعریف ہیں لیکن ان نیکیوں کے ساتھ ایسی تشہیر، تصویری نمائش اور ویڈیو گرافی جُڑی ہوتی ہے کہ اصل مقصد یعنی انسانی خدمت او ر اخلاص پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ مستحقین کی تصویریں اس انداز میں لی جاتی ہیں کہ ان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ یہ عمل اگرچہ نیکی کی صورت میں کیا جاتا ہے، مگر جب اس کی نمائش مقصود بن جائے تو وہ نیکی نہیں رہتی، بلکہ دکھاوا بن جاتی ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ بے لوث خدمت کا اصل حسن اسی میں ہے کہ لینے والے کو عزت اور دینے والے کو عاجزی ملے۔ نیکی کی معراج یہ ہے کہ وہ خاموشی سے کی جائے اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو، نہ کہ سوشل میڈیا کی داد اور شہرت کے لئے۔ اگر بھوکوں کو کھانا کھلانے کے عمل میں ان کی بھوک سے زیادہ ان کی عزت کو پامال کیا جائے، تو وہ خدمت نہیں بلکہ ایک نفسیاتی اذیت ہے۔ اسی لئے دین اسلام اور دانشمندانہ اصول یہی سکھاتے ہیں کہ بھلائی کرو، لیکن اس انداز میں کہ لینے والے کا ہاتھ نیچے ہو اور عزت اوپر — نہ کہ کیمرے کے فریم میں قید۔ اسی سماجی بیماری کو دور کرنے کے لئے اسلام میں خفیہ طور پر صدقہ دینے کو غیر معمولی فضیلت حاصل ہے، کیونکہ یہ اخلاص، عاجزی اور حقیقی خیر خواہی کی علامت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اگر تم صدقہ ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور چھپاکر دو اور محتاجوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘ (سورہ البقرہ:۲۷۱) اسی طرح ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے ان سات خوش نصیب افراد کا ذکر فرمایا جو قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے اتنی رازداری سے صدقہ کیا کہ اُس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ (بخاری و مسلم) 
 خلاصہ یہ ہے کہ آج کے تشہیری دور میں، جب ہر خاص و عام کو نام و نمود کی پڑی رہتی ہے اور ہر عمل کو کیمرے کی آنکھ سے قید کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم نیکی کے نام پر کسی کی دل آزاری اور عزتِ نفس کی پامالی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہیں ؟ 
 اس لئے آئیں ! ہم اپنی نیکیوں کو خالص بنائیں، اپنی نیتوں کو درست کریں اور خدمتِ خلق کو عبادت سمجھ کر انجام دیں — نہ کہ اشتہاری مہم کا حصہ۔ یہی وہ پیغام ہے جو اسلام نے دنیا کو دیا ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK