• Mon, 03 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایس آئی آر: کمیشن دلائل دے سکتا ہے،جواب نہیں !

Updated: November 02, 2025, 2:51 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

نئی ووٹر لسٹ خامیوں سے پُر ہے، ووٹر وں کی تعداد لاکھوں میں کم ہوئی ہے، بی جے پی کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے،ایک خودمختارادارہ کی یہ کوئی مہم ہے یا تماشا؟

Whatever Chief Election Commissioner Gianish Kumar says, his decisions create a wave of fear throughout the country. Photo: INN
چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کچھ بھی کہیں لیکن ان کے فیصلوں سے پورے ملک میں خوف کی ایک لہر پائی جاتی ہے۔ تصویر: آئی این این

بہار میں ایس آئی آر کے بعداب الیکشن کمیشن ملک گیرسطح پراس پر عمل کرنے کی تیاری کررہا ہے۔گزشتہ دنوں اس معاملےپرسپریم کورٹ میں جو سماعت ہوئی اس میں عدالت سے الیکشن کمیشن کو جزوی راحت ملی۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کیا اوراسے حتمی فہرست شائع کرنے کا پورا موقع دیا۔سپریم کورٹ نے ایس آئی آر کے بعد حتمی ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے باہر کئے گئے ۳ء۶۶؍ لاکھ رائے دہندگان کی فہرست طلب کی تھی جس پر الیکشن کمیشن نے جواب دیا تھا کہ جن کے نام حذف کئے گئے ہیں ان میں سے کسی نےالیکشن کمیشن سے شکایت نہیں کی ہے۔ واضح رہےکہ یہ ۳ء۶۶؍ لاکھ ووٹر وں کے نام جو ہٹاگئے ہیں وہ ان ۶۵؍لاکھ کے علاوہ ہیں جواس سے پہلے الیکشن کمیشن نے حذف کئے تھے۔ یعنی مجموعی طورپر دیکھا جائے تو بہار میں ایس آئی آر کے تحت اب تک ۶۸؍ لاکھ سے زائد نام ہٹا ئے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساڑھے ۲۱؍ لاکھ سے زائدنئے ووٹروں کے نام شامل کئے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہےکہ الیکشن کمیشن کی پوری ایس آئی آر مہم کی طرح یہ سارے اعدادو شمار بھی گنجلک اور مبہم نظر آتے ہیں۔
اعدادوشمارپرایک آخری نظر ڈالتے چلیں :۳۰؍ ستمبر۲۰۲۵ء کو(بہارمیں ایس آئی آر کے بعد) حتمی فہرست جاری کی گئی جس میں ۷ء۴۲؍ کروڑ ووٹروں کے نام تھے۔۲۴؍ جون ۲۰۲۵ء یعنی ایس آئی آر سے پہلے تک ریاست میں ۷ء۸۹؍ کروڑ رائے دہندگان تھے۔ اس سے قبل جب یکم اگست۲۰۲۵ء کومسودہ فہرست جاری کی گئی تھی، اس میں ۷ء۲۴؍ کروڑووٹر تھےاور۶۵؍ لاکھ ووٹروں کے نام نکالے گئے تھے۔ (ستمبر میں جاری کردہ ) حتمی فہرست میں ۲۱ء۵۳؍لاکھ ووٹروں کے نام شامل کئے گئے اورمزید۳ء۶۶؍ لاکھ ووٹروں کے نام حذف کئےگئے۔ اعدادوشمار کا یہ اب تک کا منظر نامہ ہے۔سی پی ایم کے لیڈردیپانکر بھٹاچاریہ نےفہرست پرتبصر ہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ۶؍ ہزاررائے دہندگان کو’ غیر ہندوستانی شہری ‘ ہونے کی بنیاد پر نکالا گیا لیکن فہرست جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔‘‘ انہوں نے مزیدنشاندہی کی تھی کہ بہار میں ایس آئی آر سے پہلے ایک ہزارمردووٹروں پر خواتین ووٹروں کا تناسب ۹۱۴؍ تھا جو ایس آئی آر کے بعد کم ہوکر۸۹۲؍ رہ گیا۔
اکتوبرکے اوائل میں سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ وہ حتمی فہرست پر مزیدکام کررہا ہےاورتازہ فہرست بھی جلد جاری کی جائے گی۔یعنی رائے دہندگان کوابھی ایک اور فہرست کا انتظار کرنا پڑے گا۔اس تعلق سےماہر سیاست یوگیندر یادو بھی اپنا مقدمہ عدالت میں پیش کرچکے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ ملک میں پہلی بار ووٹر لسٹ سے۴۷؍ لاکھ ناموں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر تک بہار میں بالغوں کی آبادی۸ء۲۲؍ کروڑ ہونی چاہئے تھی۔ فی الوقت ووٹر لسٹ میں ۷ء۴۲؍ کروڑ ووٹر شامل ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے لیکن ہم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ بہار میں بالغ آبادی اور ووٹر لسٹ کے درمیان فرق ۲۰۱۶ء کے بعد سے کم ہوا لیکن ایس آئی آر کے بعد یہ بڑھ کر۸۱؍ لاکھ ہو گیا ہے جو تشویشناک ہے۔ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق۲؍ کروڑ ووٹروں کےفارم بی ایل اوز نے بھرے ہیں لیکن لوگوں کو اس کے بارے میں معلومات نہیں ملی ہیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی ووٹروں کو شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘
یہ ابھی ایک ریاست کا معاملہ سامنے آیا ہے جہاں لاکھوں ووٹروں کے نام فہرست سے نکالے جا چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس کے بعد۱۲؍ ریاستوں میں یہ مشق شروع کرنے والا ہےجس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ مزید کتنے لاکھ ووٹرحق رائے دہی سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ’نیوانڈیا‘کی ’ نیو ڈیموکریسی‘ ہے جہاں ایک خود مختار ادارہ ووٹر لسٹ سےووٹروں کے نام نکالنے کی مہم چلا رہا ہے اوراس مہم کی صر ف اپوزیشن مخالفت کررہا ہے،حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایس آئی آر اتنی قابل اعتراض مہم نہ ہوتی،اگر اسے درست رخ پر چلایاجاتا۔نام نکالنے کے بعد شکایت درج کرانے کا موقع دینے کی بجائےاگرمقرہ میعادمیں فارم نہ بھرپانے والے شہریوں کو آئندہ بھی فارم بھرنے کا موقع دیاجاتا تواس سے بہتر نتائج سامنے آسکتےتھےلیکن یہاں نظر آتا ہےکہ الیکشن کمیشن بس نام نکالنے کیلئے بیٹھا ہے۔پھرالیکشن کمیشن نے بھی ناموں کو حذف کرنے کا کون سا معیاری اورمثالی طریق کاراختیار کیا ؟ ایک ایک گھر میں ۲۰۰؍ سے ۲۵۰؍ ووٹروں کےنام ہونے کے معاملے سامنے آئے۔ ’دی رپورٹرس کلیکٹیو‘ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہےکہ بہار کی انتخابی فہرست میں ۱۴؍ لاکھ ۳۵؍ ہزار سے زائد ایسے ووٹر ہیں جن کے نام دو دو حلقوں یا جگہوں پر درج ہیں ۔ ان کے پتے، ولدیت اور نام سب کچھ یکساں ہیں ۔ اسی طرح اس فہرست میں ایک کروڑ ۳۲؍ لاکھ ایسے رائے دہندگان کے نام بھی درج ہیں جو مشتبہ ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات پہلےسامنے آچکی ہےکہ کئی ووٹرجو زندہ ہیں انہیں کمیشن نے ’مردہ‘ قراردے کرفہرست سے نکال دیا اوربعد میں ان سے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ملاقات بھی کی۔
بہار میں ابھی ایس آئی آر کا معاملہ فیصل نہیں ہوا ہے۔ اس پر ابھی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ الیکشن کمیشن اس پوری مہم کو جمہوری قراردے رہا ہے اور اس کادعویٰ ہےکہ اس مہم کو۷؍ کروڑ سے زائد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ جب یہ پوری مہم اورسامنے آنے والی فہرست میں سیکڑوں ہزاروں نام ہی مشتبہ ہوچکے ہوں اور الیکشن کمیشن خود سپریم کورٹ میں کہہ چکا ہوکہ وہ فہرست پر ابھی مزید کام کررہا ہے،پھر اس مہم میں کیا رہ جاتا ہے جسے قابل قبول قراردیاجائے۔ ایس آئی آر سے ووٹروں کے نام کٹ رہے ہیں، رائے دہندگان کی تعداد کم ہورہی ہے،کیا بی جےپی کو اس سے کوئی پریشانی نہیں۔اگر نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟کیا بی جےپی ووٹر مخالف پارٹی ہے ؟ بی جےپی کو اگر اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ زمینی سطح پراس کے اشارے پرہی یہ کام ہورہا ہے۔ اس نے ان ۱۰؍ برسوں میں پوری منصوبہ بندی کی ہوگی کہ ووٹروں کوکیسےچھانٹا جائے اور کیسے جوڑا جائے۔ظاہرہے جب اسے اس مہم سے کوئی پریشانی ہی نہیں ہے تو یہ طے ہےکہ جو ۲۱؍ لاکھ سے زائد نئے ووٹر شامل کئے گئے ہیں،وہ سب اسی کے ووٹر ہیں۔ یہاں شبہ کی گنجائش ہےکہ بی جےپی نے ان تک پہنچ کرانہیں الیکشن کمیشن تک پہنچایا ہوگا۔
یہ مہم سوالات کی زد پرآچکی ہے۔۴؍ نومبرکو ایک بار پھر اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی جہاں الیکشن کمیشن اپنے دفاع میں مزید دلائل دینے کی کوشش کرے گا۔ وہ دلیل دے سکے گا لیکن یہ یقینی ہےکہ ایسی زمینی وجوہات پیش نہیں کرسکے گا جن کی بنیادپر ۶۵؍ لاکھ سے زائد ووٹروں کے نام حذف کئے گئے۔ نئی ووٹر لسٹ میں موجود خامیوں اور تضادات پر اٹھنے والے سوالوں کا بھی اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK