منافقوں نے ہمیشہ سے بھلائی کے کاموں میںرخنہ ڈالا ہے۔ جبکہ اسلام نے ظاہری طور پر بھی راستے کی رکاوٹ کو دور کرنے کی فضیلت بیان کی ہے اور مسلمانوں کو اس عمل کیلئے ابھارا ہے۔
EPAPER
Updated: February 16, 2024, 1:02 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
منافقوں نے ہمیشہ سے بھلائی کے کاموں میںرخنہ ڈالا ہے۔ جبکہ اسلام نے ظاہری طور پر بھی راستے کی رکاوٹ کو دور کرنے کی فضیلت بیان کی ہے اور مسلمانوں کو اس عمل کیلئے ابھارا ہے۔
فطری طور پر انسان بھلائی کے کاموں کو انجام دےکر خوش ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے ہر صحیح العقل آدمی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی درجے میں بھلائی کا کام کرے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے ذاتی کاموں میں اس قدر مشغول ہوتا ہے کہ وہ بلا واسطہ بھلائی اور رفاہی کاموں میں شریک نہیں ہوپاتا۔ اس قبیل کے افراد میں سے کچھ لوگ اپنے دل میں ایک درد اور کسک محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بھلائی کے کاموں میں شرکت کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ ان جیسے افراد کے لئے شریعت اسلامیہ کی رہنمائی یہ ہے کہ وہ بساط بھر کوشش کریں اور اس درمیان بھلائی کے کاموں کو انجام دینے والوں کی اخلاقی، مالی یا جو مناسب ہو معاونت کریں، اس سے بالواسطہ نہ سہی بلا واسطہ ہی سہی نیکی اور بھلائی کے کاموں میں شرکت ہوجائےگی اور فطری تقاضے کی تسکین بھی ہو جائے گی۔ بھلائی کے کاموں میں معاونت کا حکم قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘ (المائدہ:۲)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان فطری تقاضے کے مطابق بھلائی کے کاموں میں حصہ تو لینا چاہتا ہے لیکن وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے؛ ایسے لوگوں کے اطمینان کے لئے شریعت نے یہ رہنمائی کی ہے کہ اگر انسان خود کچھ نہیں کر سکتا ہے تو وہ ایسے افراد کی طرف صاحب ِضرورت کی رہنمائی کر دے جو صاحب وسعت ہو۔ ذیل کی حدیث میں اس تعلق سے حوصلہ افزا رہنمائی ملتی ہے:
” سیدنا ابومسعود ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میری سواری تھک کر، چلنے سے عاجز ہو گئی ہے، کوئی سواری مجھے عنایت فرمائیے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: میرے پاس اس وقت کوئی سواری نہیں ہے۔ ایک شخص نے کہا: یارسولؐ اللہ! میں ایک شخص کو بتاتا ہوں (کہ اگر اس کے پاس یہ چلا جائے) تو اس کو سواری دے دے گا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کار خیر کو بتائے تو جتنا ثواب کرنے والے کو ملے گا اتنا ہی ثواب بتانے والے کو بھی ملے گا۔ “ (مشكوة المصابيح/ کتاب العلم:۲۰۹) اس حدیث کی روشنی میں وہ لوگ اپنی اصلاح کر سکتے ہیں جو مجبور محض کا رونا رو کر بھلائی کے کاموں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو وسائل اور طاقت کے باوجود بھلائی کے کاموں میں شرکت نہیں کرتے، مزید یہ کہ یہ لوگ بھلائی کا کام انجام دینے والوں کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ منافقوں کی خصلت ہے کیونکہ منافقوں نے ہمیشہ سے بھلائی کے کاموں میں رخنہ ڈالا ہے۔ جبکہ اسلام نے ظاہری طور پر بھی راستے کی رکاوٹ کو دور کرنے کی فضیلت بیان کی ہے اور مسلمانوں کو اس عمل کیلئے ابھارا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کسی راستہ میں چلا جارہا تھا کہ اس نے کانٹوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی دیکھی تو اس کو ہٹا دیا پس اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو بخش دیا۔ (بخاری) اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ راستے کی رکاوٹ دور کرنے میں بھی بڑا اجر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اولاً ہمیں از خود بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اور ثانیاً اگر ہم معقول عذر کی وجہ سے ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں تو ان لوگوں کا تعاون کرنا چاہئے جو انسانیت کی بھلائی کیلئے کام کر رہے ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ ‘‘ (المائدہ:۴۸)