Inquilab Logo Happiest Places to Work

ووٹ کی حفاظت کیجئے

Updated: August 25, 2025, 5:15 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اس وقت ملک عزیز میں حزب مخالف کی طرف سے حکمراں جماعت پر ووٹ چوری کا الزام لگایا جارہا ہے، دوسری جانب ملک کے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے نام غائب ہیں، یہ بڑی خطرناک بات ہے؛ اس لئے اس وقت تمام انصاف پسند ہندوستانیوں اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیں۔

In the current situation, it is the duty of all Muslims to cooperate with the voice raised by the country`s opposition parties against "vote thieves" and against the government officials who support them. Photo: INN
موجودہ حالات میں ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے ’’ووٹ چوروں‘‘ کے خلاف اور ان کا ساتھ دینے والے سرکاری افسروں کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے، تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس میں تعاون کریں۔ تصویر: آئی این این

جن گناہوں کی قرآن وحدیث میں بہت مذمت کی گئی ہے اور جن کو لوگوں کے عرف میں بھی بہت مذموم سمجھا جاتا ہے ان میں ایک چوری ہے۔ اصل میں چوری مالک کی اجازت کے بغیر ایسے مال کے چھپا کر لینے کو کہتے ہیں، جس کو اس نے حفاظت میں رکھا ہو، مثلاً اپنے کمرے میں یا اپنے صندوق میں رکھا ہو۔ اسلام میں اس سنگین جرم کی سزا بھی بہت سخت ہے یہاں تک کہ قرآن مجید میں چوری کرنے والے کیلئے بطور سزا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔ (مائدہ:۳۸)
حقیقت میں تو چوری کا تعلق مال کے لینے سے ہے، مگر بے جا طور پر چھپا کر کوئی چیز حاصل کرنے اور اپنی ذمہ داری میں کوتاہی برتنے کو بھی ’’چوری‘‘ کہا جاتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص بغیر دعوت کے کسی دعوت میں شریک ہو جائے، وہ آیا چور بن کر واپس ہوا یا غارت گر بن کر: دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا (ابو داؤد حدیث‌ نمبر: ۳۷۴۱) اسی طرح آپ ؐ نے نماز کی چوری کا ذکر فرمایا، اگر کوئی شخص نماز ادا کرے، اس کے ظاہری افعال کو انجام دے لیکن صحیح طریقہ پر رکوع اور سجدہ نہ کرے، تو‌ وہ بدترین چوری ہے۔ (سنن دارمی عن ابی قتادہ، حدیث نمبر: ۱۳۶۷) گویا اس نے اللہ تعالیٰ کے حق میں سے چوری کی ہے۔ ایسی چوریوں پر اگرچہ شرعی سزا نافذ نہیں ہوگی لیکن یہ بھی ایک سنگین جرم ہےاور اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔ 
 اسی طرح اگر کوئی مال اس طرح محفوظ نہ کیا گیا جیسے مثلاً کوئی چیز بغیر قفل کے عوامی جگہ پر چھوڑ دی گئی، اور کسی نے اس کو بلا اجازت استعمال کر لیا، تو یہ بھی چوری کے دائرہ میں آتا ہے، جیسے بجلی کی چوری، ظاہر ہے بجلی کسی کمرے یا صندوق میں بند کر کے نہیں رکھی جاتی؛ لیکن اگر کوئی شخص غیر مجاز طریقہ پر استعمال کرے اور اس کا بل ادا نہ کرے تو یہ بھی چوری میں شامل ہے۔ اسی طرح اگر حکومت کو اپنی آمدنی کے بارے میں صحیح معلومات فراہم نہیں کی گئی، حکومت نے منصفانہ طور پر اس کی آمدنی میں جو ٹیکس رکھا ہے، اس کو ادا نہیں کیا گیا، اپنی دولت کو چھپایا اور غلط بیانی سے کام لیا تو یہ بھی ٹیکس کی چوری ہے اور اس پر بھی انسان اللہ کے پاس جوابدہ ہو سکتا ہے۔ چوری کی بعض اور صورتیں بھی ہمارے سماج میں پائی جاتی ہیں، جن کا مال سے براہ راست تعلق نہیں ہے ؛ مگر عرف میں ان کو چوری کہا جاتا ہے، جیسے امتحان میں کوئی امیدوار کتاب دیکھ کر پرچہ لکھے، یا کسی دوسرے کی مدد سے لکھے تو یہ بھی چوری کہلاتی ہے۔ اسی طرح چوری کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق تصنیف وتالیف اور علمی سرمایہ سے ہے، کسی کی کتاب دوسرا شخص اپنے نام سے چھاپ لے، کسی کے مضمون کو اس کا حوالہ دیے بغیر اپنے نام سے شائع کر لے، کسی کی تحقیق کو اس کا ذکر کئے بغیر اپنی طرف منسوب کر لے، یا اپنی تحقیق کی حیثیت سے پیش کرے، یہ سب علمی سرقہ کی مختلف شکلیں ہیں اور یہ پہلے بھی پیش آتی رہی ہیں۔ یہ اور اس طرح کی چوری کی بہت سی صورتیں ہیں، جس پر اگرچہ چوری کی شرعی سزا نافذ نہیں کی جا سکتی مگر یہ ہے بہت شرمناک اور مذموم جو جھوٹ اور دھوکہ کے گناہ کو شامل ہے۔ 
 موجودہ دور میں چوری کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، جس کا نقصان مال و زر کی چوری سے بھی بڑھ کر ہے، اور وہ ہے ووٹ کی چوری۔ یہ چوری چھوٹے موٹے غریب و مفلس اور ان پڑھ لوگ نہیں کرتے بلکہ پڑھے لکھے، ذی حیثیت، مالدار اور سماج میں اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کرتے ہیں اور اکثر اوقات اس چوری کا مقصد ہوتا ہے نا جائز طریقہ پر کسی عہدے کو ہتھیا لینا، جو اس کا اصل مستحق تھا اس کو اس سے محروم کر دینا، اور بے جا طریقہ پر اقتدار کی کرسی پر مسلط ہو جانا۔ جن ممالک میں آمرانہ نظام قائم ہے یا بادشاہت کا دور دورہ ہے، وہاں تو یہ چوری کھلے عام ہوتی ہے ؛ کیونکہ اس کو قانون اور دستور کا حصہ بنا‌ لیا گیا ہے، نہ کوئی زبان ہے جو اسے ٹوک سکے اور نہ کوئی قلم ہے جو اسے روک سکے؛ لیکن وہ ممالک جو جمہوریت اور سیکولرزم کا نعرہ لگاتے ہیں، اور یہ نظریہ ان کے دستور کا حصہ ہے، وہاں بھی مختلف طریقوں پر کہیں چھپ کر کہیں زور زبردستی سے اور کہیں دھوکہ دہی کے ذریعہ اس عمل کو انجام دیا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ پورا ملک ووٹ چوری کے نعرے سے گونج رہا ہے۔ موجودہ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے اقتدار کی حرص میں ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی ہے۔ جو نام نہیں تھے انہیں شامل کیا گیا ہے، جو نام‌ شامل تھے انہیں بلا وجہ نکال دیا گیا ہے، اور دیدہ دلیری یہ ہے کہ جو لوگ اس کے مرتکب ہیں، وہ ووٹر لسٹ کی فہرست اور ووٹنگ کی الیکٹرانک رپورٹ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں بجا طور پر پورے ملک میں کہرام برپا ہے، اللہ کرے اس کا کچھ بہتر نتیجہ سامنے آئے۔ 
اگر ہم شرعی نقطۂ نظر سے غور کریں تو بعض اعمال کی حیثیت مقصود کی ہوتی ہے، قرآن وحدیث میں متعین طور پر ان کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نماز و روزہ، حج و زکوٰۃ وغیرہ لیکن بعض اعمال مقصود نہیں ہوتے، ان کی حیثیت ذریعہ اور وسیلہ کی ہوتی ہے، تو جو عمل جس بات کا ذریعہ ہو، جو حکم اس کا ہوگا، وہی حکم اس ذریعہ کا بھی ہے، جیسے چلنا ایک عمل ہے، اگر انسان اس لئے چلے کہ اسے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد پہنچتا ہے، تو اس کا یہ چلنا بھی عبادت کے درجہ میں ہے، اوراسے ہر قدم پر نیکی ملے گی۔ حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے، (مسلم) اور اگر کوئی شخص شراب پینے کی نیت سے چلے اور اس کا قدم شراب خانہ کی طرف بڑھ رہا ہو، تو صرف اس کا شراب پینا ہی گناہ نہیں ہے بلکہ شراب خانہ کی طرف جانا بھی گناہ ہے۔ اس لئے جس عمل کے بارے میں شریعت میں جائز و ناجائز یا پسندیدہ و ناپسندیدہ ہونے کا حکم صریحاً موجود نہیں ہو، دیکھنا چاہئے کہ وہ کس بات کا ذریعہ بنتا ہے، ایسی بات کا جو شریعت میں پسندیدہ ہے یا ایسی بات کا جو شرعاً ناپسندیدہ ہے ؟
ووٹ کا حق حاصل کرنا اور موقع پر اس حق کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں اور بُرے لوگوں کو اقتدار سے دُور رکھیں اور یہ ایک شرعی فریضہ ہے کہ جو شخص جس ذمہ داری کا اہل ہے، اس کو وہ ذمہ داری سونپی جائے: ’’امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔ ‘‘ (النساء:۵۸) اور یہ بھی ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو اس مقام پر پہنچنے نہ دیا جائے، جہاں وہ دوسروں کے ساتھ ظلم ونا انصافی کا ارتکاب کر سکتا ہے: ’’اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کر رہے ہیں ‘‘ (سورہ ھود: ۱۱۳) اس لئے مسلمانوں کو نہ صرف ایک قومی فریضہ ؛ بلکہ ایک دینی فریضہ کی حیثیت سے بھی اس عمل کو دیکھنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ صد فیصد مسلمانوں کے نام بلکہ تمام شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں ۔ 
ہندوستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اور مسلم مخالف طاقتوں نے چوطرفہ حملہ شروع کر دیا ہے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کے جتنے ہتھیار ہو سکتے ہیں وہ سب آزمائے جا رہے ہیں، فسادات کرائے جاتے ہیں، ہجوم کے ذریعہ قتل کی وارداتیں پیش آرہی ہیں ، ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں مگر اُن پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جار ہی ہے، سوشل میڈیا کی ایک فوج شب وروز جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام کر رہی ہے، غرض مختلف جہتوں سے اسلام، مسلمان اور مسلم تاریخ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان سب کے پیچھے اصل میں جو طاقت کام کر رہی ہے، وہ ہے اقتدار کی طاقت اور ہندوستان جیسے ملک میں طاقت کا سرچشمہ ووٹ ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس لئے ہمارے لئے مدافعت کا سب سے بڑا ہتھیار حق رائے دہی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج کرائیں کہ ووٹ ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ 
رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ ظلم کو روکنے، ظالم کا مقابلہ کرنے اور اپنا تحفظ کرنے کیلئے ممکن وسائل سے استفادہ فرمایا ہے۔ مکہ میں اسلام سے پہلے قبائلی نظام قائم تھا، نہ کوئی حکومت تھی، نہ عدالت اور نہ کوئی قانون، ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کی حفاظت کیا کرتا تھا، ظاہر ہے یہ مزاج کہ صرف ہم قبیلہ ہونے کی بنیاد پر کسی شخص کی حمایت کی جائے، اور دوسرے کی مخالفت، اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے ؛ لیکن مکہ کے حالات کی بنیاد پر آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا، اور قدیم نظام کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب نے آپ کی حفاظت فرمائی، یہی وجہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب دشمنان اسلام نے نعوذ باللہ آپ ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا تو طے کیا کہ اس ناشائستہ کام میں ہر قبیلہ کا نمائندہ شریک ہو ؛ تاکہ بنو ہاشم بدلہ نہ لے سکیں، یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے حضور ﷺ کا بائیکاٹ کیا تو بنو ہاشم بھی اس کی زد پر آئے اور آپ کے پشت پناہ رہے۔ 
عربوں میں ایک طریقہ پناہ لینے کا تھا، باہر سے آنے والے لوگ یا کم تعداد کے حامل قبیلہ کے افراد کسی بڑے اور مضبوط قبیلہ کی پناہ میں آجاتے تھے اور اس قبیلہ کے لوگ ان کا تحفظ کیا کرتے تھے، بعض صحابہ ؓنے قریش کی ایذا رسانی سے بچنے کیلئے یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا، جب آپؐ کا بائیکاٹ کر دیا گیا تو آپؐ نے صحابہ ؓ کو اجازت دی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں ؛ چنانچہ بہت سے صحابہؓ نے ہجرت فرمائی۔ حضرت ابو بکرؓ بھی ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے، جب ’’بَرک غِماد‘‘ نامی جگہ پر پہنچے جو مکہ سے ایک دو دن کے فاصلہ پر تھا تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی، یہ ’’قارہ‘‘ نامی قبیلہ کے سردار تھے، اس قبیلہ کا تیر اندازی میں بڑا شہرہ تھا۔ ابن دغنہ نے حضرت ابو بکرؓ سے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے؟
 انہوں نے فرمایا : مجھ کو میری قوم نے نکال دیا ہے ؛ اس لئے میں نکلا ہوں کہ زمین میں گھومتے پھرتے اپنے پروردگار کی عبادت کروں۔ ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ان سے کہا: تم جیسے شخص کو نکالا نہیں جا سکتا، تم تو ناداروں کی مدد کرتے ہو، رشتہ داروں کے ساتھ حُسن سلوک کرتے ہو، لوگوں کے بوجھ اُٹھاتے ہو، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہو، اگر کوئی مصیبت آجائے تو مدد کرتے ہو، تم جیسے شخص کو کیسے نکالا جا سکتا ہے؟ میں تم کو پناہ دیتا ہوں، تم مکہ واپس چلو، اور اپنے شہر میں رہتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرو۔ 
 حضرت ابوبکر صدیقؓ ابن دغنہ کے ساتھ واپس تشریف لے گئے، چند دنوں اس کی پناہ میں رہے اور پھر اس پناہ سے دستبردار ہو گئے۔ (سیرت حلبیہ: ۱؍۴۲۸، عربی ایڈیشن)۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان جس ملک اور جس علاقہ میں رہتا ہو اور جس نظام کے تحت زندگی گزارتا ہو، وہاں اپنے تحفظ کا جو پُر امن ذریعہ میسر ہو، اس کو اختیار کرنا چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے، یہ دین کی نظر میں مطلوب ہے۔ 
حفاظت اور دفاع کے لئے جسمانی طاقت کا استعمال ضروری نہیں ، کوئی بھی ایسی طاقت جس سے مقصود حاصل ہو جائے، خواہ مادی طاقت ہو یا معنوی، یہ سب دفاع کی تیاری میں شامل ہے، اور موقع کے لحاظ سے ان کا استعمال کرنا اسلام میں مطلوب ہے۔ شعر و شاعری کو قرآن نے زیادہ پسند نہیں کیا ہے (الشعراء)کیوں کہ شاعروں کے یہاں مبالغہ، خلاف واقعہ دعوؤں کی کثرت ہوتی ہے؛ اسی لئے مسجد میں اشعار پڑھنے کو فقہاء نے منع کیا ہے؛ لیکن عربوں کے یہاں اشعار کسی بات کو پھیلانے اورپہنچانے کا بہت مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ رسولؐ اللہ نے اسلام کی ترجمانی اور دفاع کے لئے اس سے بھی فائدہ اُٹھایا ہے، بامقصد اشعار کہنے والے شعراء کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے؛ یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اللہ، حضرت حسانؓ (بن ثابت) کیلئے مسجد میں منبر رکھواتے تھے، اور وہ منبر پر کھڑے ہو کر آپؐ کی طرف سے دفاع کے اشعار پڑھا کرتے تھے حالاں کہ صحابہؓ کرام کی نظر میں منبر نبوی کا ایسا تقدس تھا کہ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ان کو منبر پر قدم رکھنے میں تامل ہوتا تھا۔ 
 ہر دَور میں اس دور کے لحاظ سے دشمن سے مقابلہ کا ہتھیار ہوا کرتا ہے۔ جمہوری نظام میں کسی قوم کا حق رائے دہی حاصل کرنا بھی ایک ہتھیار ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکال دیے گئے ہیں ، اور انہیں بغیر دلیل وثبوت کے غیر ملکی قرار دیا جا رہاہے، ملک کے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے نام غائب ہیں ، یہ بڑی خطرناک بات ہے ؛ اس لئے اس وقت تمام انصاف پسند ہندوستانیوں اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی نام ووٹر لسٹ میں آنے سے رہ نہ جائے۔ موجودہ حالات میں ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے ’’ووٹ چوروں ‘‘ کے خلاف اور ان کا ساتھ دینے والے سرکاری افسروں کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے، تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس میں تعاون کریں، ووٹ چوری کو روکنے کی بھرپور کوشش کریں اور ووٹ چوروں کو کٹہرے میں کھڑا کریں، یہ جمہوریت میں ظالم حکومتوں سے لڑائی کا ہتھیار اور اپنی مدافعت کی سب سے مؤثر تدبیر ہے !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK