اس کتاب [قرآن حکیم] کا لانے والا، ذاتی طور پر کس قسم کے اخلاق کا انسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں قرآن مجید نے دوسری رائج الوقت کتابوں کی طرح، اپنے لانے والے کی تعریف کے پُل نہیں باندھے نہ آپؐ کی تعریف کو ایک مستقل موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 3:38 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai
اس کتاب [قرآن حکیم] کا لانے والا، ذاتی طور پر کس قسم کے اخلاق کا انسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں قرآن مجید نے دوسری رائج الوقت کتابوں کی طرح، اپنے لانے والے کی تعریف کے پُل نہیں باندھے نہ آپؐ کی تعریف کو ایک مستقل موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔
اس کتاب [قرآن حکیم] کا لانے والا، ذاتی طور پر کس قسم کے اخلاق کا انسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں قرآن مجید نے دوسری رائج الوقت کتابوں کی طرح، اپنے لانے والے کی تعریف کے پُل نہیں باندھے نہ آپؐ کی تعریف کو ایک مستقل موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ البتہ آمدِ سخن میں محض اشارتاً‘ آنحضرتؐ کی اخلاقی خصوصیات ظاہر کی ہیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس وجودِ مسعودؐ میں کمالِ انسانیت کے بہترین خصائص موجود تھے۔
(۱) اعلیٰ اخلاق: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا، اخلاق کے نہایت بلند مقام پر تھا:
’’اور اے محمدؐ! بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں۔ ‘‘ (القلم:۴)
(۲) عزمِ راسخ :قرآن بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا، ایک ایسا راسخ العزم، مستقیم الارادہ اور اللہ پر ہر حال میں بھروسا رکھنے والا انسان ہے کہ جس وقت اس کی ساری قوم اسے مٹا دینے پر آمادہ ہوگئی تھی اور وہ صرف ایک مددگار کے ساتھ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوا تھا، اُس سخت مصیبت میں بھی اُس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عزم پر قائم رہا۔
’’یاد کرو جب کافروں نے انہیں (وطن مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘ (التوبہ :۴۰)
(۳) فراخ حوصلہ: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا، ایک نہایت فراخ حوصلہ اور فیاض انسان تھا جس نے اپنے بدترین دشمنوں کے لئے بھی بخشش کی دُعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ کو اسے اپنا یہ قطعی فیصلہ سنا دینا پڑا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں بخشے گا:
’’چاہے آپ ان کے لئے معافی مانگیں چاہے نہ مانگیں، اگر آپ ستّربار بھی ان کے لئےمعافی مانگیں گے تب بھی اللہ ان کو معاف نہ کرے گا۔ ‘‘ (التوبہ:۸۰)
(۴) نـرم خـو: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کا مزاج نہایت نرم تھا۔ وہ کبھی کسی کے ساتھ درشتی سے پیش نہیں آتا تھا اور اسی لئے دنیا اس کی گرویدہ ہوگئی تھی: ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے ساتھ نرم ہو ورنہ اگر آپ زبان کے تیز اور دل کے سخت ہوتے تو یہ سب آپ کے گردوپیش سے چَھٹ کر الگ ہوجاتے۔ ‘‘ (آل عمران :۱۵۹)
یہ بھی پڑھئے:معلم ِ کائنات ﷺ اور شخصیت سازی
(۵) دعوت کی تڑپ: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا، بندگانِ خدا کو راہِ راست پر لانے کی سچی تڑپ دل میں رکھتا تھا اور ان کے گمراہی پر اصرار کرنے سے اُس کی روح کو صدمہ پہنچتا تھا حتیٰ کہ وہ اُن کے غم میں گھلا جاتا تھا:
’’اے محمدؐ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اُن کے پیچھے، رنج و غم میں اپنی جان کھو دیں گے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ ‘‘ (الکہف:۶)
(۶) بھلائی کا دلدادہ: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کو اپنی اُمت سے بے حد محبت تھی، وہ ان کی بھلائی کا شائق اور دلدادہ تھا، اُن کے نقصان میں پڑنے سے کُڑھتا تھا اور ان کے حق میں سراپا شفقت و رحمت تھا:
’’تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک ایسا رسول آیا ہے جسے ہر وہ چیز شاق گزرتی ہے جو تمہیں نقصان پہنچانے والی ہو جو تمہاری فلاح کا حریص ہے اور اہلِ ایمان کے ساتھ نہایت شفیق و رحیم ہے۔ ‘‘ (التوبہ :۱۲۸)
(۷) رحمت ِ عالم: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا صرف اپنی قوم ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام عالم کے لئے اللہ کی رحمت ہے:
’’اے محمدؐ! ہم نے تو آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘ (الانبیاء :۱۰۷)
(۸) زہد و عبادت: وہ بتاتا ہے کہ اس کالانے والا راتوں کو گھنٹوں اللہ کی عبادت کرتا اور خدا کی یاد میں کھڑا رہتا تھا:
’’اے محمدؐ! آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ رات کو تقریباً دو تہائی حصے تک، اور کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی حصے تک نماز میں کھڑے رہتے ہیں۔ ‘‘ (المزمل:۲۰)
(۹) صدق و ثبات: وہ بتاتا ہے کہ اس کا لانے والا ایک سچا انسان تھا۔ نہ کبھی اپنی زندگی میں راہِ حق سے بھٹکا، نہ فاسد خیالات سے متاثر ہوا اور نہ کبھی اُس نے ایک لفظ خواہشِ نفس کی پیروی میں حق کے خلاف زبان سے نکالا:
’’تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے، اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ ‘‘ (النجم:۲-۳)
(۱) اسوۂ کامل: وہ بتاتا ہے کہ اس کے لانے والے کی ذاتِ مبارکہ تمام عالم کیلئے ایک قابلِ تقلید نمونہ تھی اور اس کی پوری زندگی کمالِ اخلاق کا صحیح معیار تھی:’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲ ( کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔ ‘‘(الاحزاب:۲۱)