جشن ِ میلاد النبی ﷺ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل تعلیم وہی ہے جو معلمِ کائنات ﷺ نے دی تھی ایسی تعلیم جو دل کو منور کرے، عمل کو صالح بنائے اور انسان کو انسانیت کا محافظ بنائے۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 3:12 PM IST | Dr. Muhammad Hussain Mushahid Rizvi | Mumbai
جشن ِ میلاد النبی ﷺ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل تعلیم وہی ہے جو معلمِ کائنات ﷺ نے دی تھی ایسی تعلیم جو دل کو منور کرے، عمل کو صالح بنائے اور انسان کو انسانیت کا محافظ بنائے۔
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی
رسولِ اکرم ﷺ معلمِ کائنات ہیں۔ آپؐ کی بعثت کا ایک بڑا مقصد انسانیت کو تعلیم و تربیت سے سنوارنا اور کامل شخصیت عطا کرنا تھا۔ آپؐ نے قرآن کی روشنی میں نہ صرف علم دیا بلکہ اس علم کو کردار میں ڈھالا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم شخصیت ساز تحریک آپ ﷺ نے برپا کی جس نے صحرا کے بادیہ نشینوں کو تہذیب و تمدن کا امام اور اخلاق و روحانیت کا علمبردار بنا دیا۔
آپ ﷺ کا طریقۂ تعلیم و تربیت یہ تھا کہ ہر شخص کی فطرت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے رہنمائی فرماتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر حلم و بردباری تھی، انہیں صدق و صفا کا پیکر بنادیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں جلال اور سختی تھی آپؐ نے انہیں عدل اور حق گوئی کا کمال عطا کیا یہاں تک کہ وہ الفاروق کہلائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں حیا اور نرم دلی تھی، آپؐ نے انہیں امت کے لئے سخاوت اور عفت کی مثال بنا دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذہانت اور قوتِ قلب کو علم و شجاعت کی صورت میں پروان چڑھایا۔ حضرت بلال ؓکو ایمان کی قوت سے وہ استقامت بخشی کہ سنگلاخ زمین پر بھی ’’اَحد، اَحد‘‘ کی صدا بلند کرتے رہے۔ یہ ہے وہ شخصیت سازی جو شخصیت پر ناز کرے۔ اس نے کمزوروں کو رہنما اور غلاموں کو امام بنا دیا۔
نبویؐ تعلیمات کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپؐ نے تربیت میں نرمی اور حکمت کو بنیاد بنایا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب شرائط بظاہر مسلمانوں کے لئے سخت اور ناانصافی پر مبنی لگیں تو آپؐ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو صبر و حکمت کا درس دیا۔ یہی تربیت تھی کہ وہ صلح چند سال کے اندر اسلام کی سب سے بڑی کامیابی میں بدل گئی۔ اسی طرح طائف کے ظالموں نے آپ ؐ پر پتھر برسائے مگر آپؐ نے بددعا نہ دی بلکہ رب العالمین کے حضور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا فرما جو تیرا دین پہچانیں۔ ‘‘ یہ وہ اعلیٰ ظرفی ہے جو صرف ایک کامل شخصیت ساز ہی دے سکتا ہے۔
آپؐ نے بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت سازی پر بھی خصوصی توجہ دی۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سواری پر بٹھا کر فرمایا: ’’بیٹے! اللہ کو یاد رکھو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ ‘‘ چند جملوں پر مشتمل یہ نصیحت آج بھی ایمان، اعتماد اور توکل کی بنیاد ہے۔
نوجوانوں کو آپ ؐ نے ذمہ داریاں دے کر اعتماد بخشا۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کو کم عمری میں لشکر کا سپہ سالار بنایا تاکہ امت سیکھے کہ قیادت صلاحیت سے ملتی ہے، عمر سے نہیں۔
آپؐ نے شخصیت سازی میں اخوت اور بھائی چارہ کو بھی بنیادی اہمیت دی۔ مدینہ میں آپؐ نے انصار و مہاجرین کو بھائی بھائی بنایا۔ یہ صرف ایک سماجی معاہدہ نہ تھا بلکہ ایک ایسی تربیت تھی جس نے دلوں کو جوڑ دیا۔ مہاجرین اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے اور انصار نے اپنی جائدادیں ان کے ساتھ بانٹ لیں۔ یہ تربیت آج بھی دنیا کو بتاتی ہے کہ جب رشتے ایمان پر قائم ہوں تو دشمنی محبت میں بدل جاتی ہے۔
معلم ِ کائنات ؐ کی شخصیت ساز تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب جو معمولی بات پر نسل در نسل خوں ریز جنگیں کرتے تھے دنیا کے معلم اور رہنما بن گئے۔ وہی لوگ جو لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے تھے، عورتوں کے محافظ اور خیرخواہ بن گئے۔ وہی قوم جو شراب و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی تھی دنیا کی سب سے زیادہ بااخلاق اور مہذب قوم بن گئی۔
آج ڈیڑھ ہزار سال بعد بھی جب دنیا علم تو رکھتی ہے مگر شخصیت سے خالی ہے، جب تعلیم تو عام ہے مگر کردار مفقود ہے، اس وقت جشن ِ میلاد النبی ؐ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل تعلیم وہی ہے جو معلمِ کائناتؐ نے دی تھی، ایسی تعلیم جو دل کو منور کرے، عمل کو صالح بنائے اور انسان کو انسانیت کا محافظ بنائے۔ اگر آج ہم نبوی تعلیم اور اسلوبِ تربیت کو اختیار کر لیں تو ہمارے نوجوان محض ڈگری یافتہ نہیں بلکہ صاحبِ کردار اور قابل قدر رہنما شخصیتیں بن سکتے ہیں۔
یقیناً، رسولؐ اللہ ہی وہ کامل معلم ہیں جن کی تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا اور انسانیت کو حقیقی کردار سازی کا سبق دیا۔ ضرورت سیکھنے اور عمل کرنے کی ہے، کاش ہم سمجھیں، کاش ہم خود کو بدلیں۔