• Sun, 07 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایسے ہوتے تھے نبی ٔ آخر الزماں ؐ کے پاکیزہ شب و روز

Updated: October 03, 2025, 3:25 PM IST | Abdul Haseeb Bhatkar | Mumbai

 اے نبی لوگوں سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، وہ بڑا معاف کرنے والااور رحیم ہے۔ [سورۃ آل عمران ۳۱]

A beautiful night view of Medina, with the Quba Mosque and surrounding areas visible. Photo: INN
مدینہ منورہ میں رات کا حسین منظر جس میں مسجد قبا اور اطراف کے علاقے نظر آرہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لیے پیروی کا بہترین نمونہ ہے۔ [سورۃ الاحزاب ۲۱]
 اے نبی لوگوں سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، وہ بڑا معاف کرنے والااور رحیم ہے۔ [سورۃ آل عمران ۳۱]
  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی چوبیس گھنٹے کے ہر لمحے میں انسان کی روحانی و جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے جس طرح آکسیجن انسان کے لئے ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ آج انسان دنیا میں کامیابی کے لئے ’کامیاب عادات‘ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ حالانکہ پوری انسانیت کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی نبیؐ اکرم کی ذات اقدس کی روزمرہ کی زندگی کو سمجھنے اور عمل میں لانے میں پوشیدہ ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے: ’’تمہارے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘ نبیؐ اکرم کے معمولات کو اپنے قول و عمل میں ڈھال کر ساری انسانیت کے سامنے پیش کرنا، ہماری ذمہ داری ہے۔ دنیا میں جتنی بھی عبقری شخصیات رہی ہیں ، ان کی بائیوگرافی آپ پڑھیں تو زندگی کا کوئی نہ کوئی گوشہ تشنہ رہ جاتا ہے لیکن نبیؐ اکرم کی ذات اقدس ہی ایسی ہے جو زندگی کے تمام گوشوں میں اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بن کر لوگوں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ صحابہ کرام، نبیؐ اکرم کی پیروی اور اتباع کے بڑے حریص ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، مسکرانا، لباس غرض ہر عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو بہو پیروی ہوتا، اگر کوئی عمل اس کے مطابق نہ ہوتا تو کہتے لوگو، یہ میرا عمل ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ہے۔ 
 جب واضح ہوگیا کہ نبیؐ کریم کے معمولات کو اپنانے ہی میں خیر ہے تو یہ جاننا ضروری ہوجاتا ہے یا اس کا اعادہ ضروری قرار پاتا ہے کہ آپؐ کے معمولات کیا تھے۔ اس کا آغاز ہم عشاء کی نماز سے کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:آپؐ کی انقلابی تعلیمات کے نتیجہ میں دنیا میں فکری انقلاب آیا

جب آپؐ عشاء کی نماز ادا فرما لیتے تو اپنے گھر والوں میں جس کے پاس قیام کی باری ہوتی وہاں تشریف لاتے اور چار رکعت ادا فرماتے، اس کے بعد بستر پر تشریف لے جاتے۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں : ’’آپؐ جب بستر پر آتے تو ایک کونا پکڑ کر جھاڑتے تھے تاکہ کوئی کیڑا یا موذی جانور ہو تو نکل جائے۔ ‘‘ [تفسیرابن کثیر سورۃ الفلق و الناس] آپؐ سونے سے پہلے مختلف دعائیں پڑھتے تھے خصوصی طور پرمعوذتین۔ دعاؤں کو پڑھنے کے بعد اپنے ہاتھوں پر پھونک کر پورے جسم پر ملتے، حتیٰ کہ مرض الموت سے قریب جب آپؐ کو کافی نقاہت تھی تب سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں : ’’میں نے معوذتین کو پڑھا اور نبیؐ اکرم کے ہاتھوں پر پھونک کر آپؐ کے بدن مبارک پر پھیرا۔ ‘‘ [تفسیرابن کثیر سورۃ الفلق و الناس]۔ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ اگر کوئی بندہ اس طرح کی دعاؤں کے حصار میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتہ متعین کرتا ہے جو اس کی ہر کروٹ پر مغفرت کی دعا مانگتا ہے۔ 
 یہ طرز عمل ہمارے سونے کو بھی عبادت بنا دیتا ہے۔ آپؐ سونے کے لئے سیدھے ہاتھ کا تکیہ بناتے تھے اور اسی رُخ پر سوتے تھے۔ ا طباء کہتے ہیں کہ ایسا سونے سے انسان کے دل کے اندر کا روٹیشن مناسب رہتا ہے۔ نبیؐ کریم کبھی منہ کے بل نہیں سوتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے ایسا لیٹنا جہنمیوں کا طریقہ ہے۔ آپؐ چت نہیں لیٹتے تھے جو ہمارے ہاضمے کے لئے نقصان دہ ہے۔ نبیؐ اکرم عشاء کے بعد کسی مجلس کو منعقد کرنے، کام کرنے یا باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے سوائے تین کاموں کے: علم کی باتیں یا علمی مجلس، شب زِفاف، کوئی اہم ترین بات یعنی لوگوں کے درمیان مصالحت کرانا۔ آج کے معاشرہ میں عموماً رات کے وقت غیر ضروری یا فحش باتیں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے کہ انسان کا ایموشنل گراف (جذباتیت) رات میں بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اوقات میں سورہ فلق پڑھ کر پناہ مانگی گئی ہے کہ قرآن میں ہے کہ’’ رات کی سیاہی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔ ‘‘ سیرت کی کتابوں میں ایک معمول یہ بھی ملتا ہے کہ عشاء کے بعد جب آپؐ گھر میں داخل ہوتے تو مسواک فرماتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔ نظافت و طہارت آپؐ کی روزمرہ کی زندگی کا اہم معمول تھا۔ 
 نیند یا سونے کے عمل کی بابت نبیؐ اکرم فرماتے تھے: ’’ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ ‘‘ رات میں سو کر اٹھنے کے معمول کو سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ ؐ کب جاگتے تھے، وہ فرماتی ہیں ، ’’ آپؐ اس وقت بیدار ہوتے جب مرغ کی آواز سن لیتے تھے، ‘‘ یعنی تہائی رات کے وقت اگر ہم ایشیا کی سردیوں اور گرمیوں کو تین حصوں میں تقسیم کریں تو رات کی آخری تہائی سردیوں میں تقریباً تین بجے اور گرمیوں میں تقریبا دو بجے شروع ہو جاتی ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرکارؐ دو عالم ہمارے ملک کے حساب کے مطابق سردیوں میں تین بجے اور گرمیوں میں دو بجے بیدار ہو جایا کرتے تھے۔ ایک روایت میں سیدنا عائشہؓ فرماتی ہیں ’’آپؐ رات کا پہلا حصہ سو لیتے، تھوڑی دیر کے بعد اٹھتے اور وضو کرنے سے پہلے اپنی انکھوں کو دونوں ہاتھوں سے ملتے تھے۔ ‘‘ 
 واضح رہنا چاہئے کہ نیند کا خمار دور کرنے کیلئے یہ بہترین طریقہ ہے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ’’ نبی اکرمؐ اس کے بعد باہر نکلتے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف کرتے اور سورہ آلِ عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرماتے، پھر وضو کر کے نماز کی ادائیگی شروع فرماتے۔ ‘‘ سیدنا عائشہؓ فرماتی ہیں ’’آپؐ تہجد کی نماز دو دو رکعت کر کے ادا فرماتے، کبھی ایک ساتھ چار رکعت بھی ادا فرمائی۔ (بعض روایات میں ایک ساتھ آٹھ رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کا بھی ذکر ملتا ہے)۔ ان رکعتوں کی خوبی کا کیا کہنا، میں اسے بیان نہیں کر سکتی، اتنے خوبصورت اور اطمینان کے ساتھ کہ بعض اوقات ایک ہی رکعت میں سورہ بقرہ و آلِ عمران تلاوت فرما لیتے اور اسی اطمینان کے ساتھ رکوع، سجدہ اور جلسہ کرتے تھے۔ ‘‘ 
  دوسری روایتوں میں آپؐ کی نماز تہجد کی کیفیات کا ذکر اسی طرح آتا ہے کہ کبھی ایک ہی آیت پر آپؐ پوری رات گزار دیتے، نماز میں قرآن کی تلاوت کے وقت اس قدر گریہ طاری ہوتا کہ سینہ ٔ مبارک سے ویسی آواز آتی جیسی ہانڈی میں اُبال کے وقت آتی ہے۔ اس طرح رات کا آخری پہر گزرتا تھا۔ نبیؐ اکرم نے فرمایا: ’’ جب انسان سوتا ہے تو شیطان تین گرہیں لگاتا ہے: وہ اٹھتا ہے اور ذکر باری کرتا ہے تو پہلی گرہ کھلتی ہے، جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھلتی ہے اور جب نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ کھلتی ہے اور انسان ہشاش بشاش ہو کر صبح کرتا ہے۔ ‘‘
  یہ آپؐ کے جاگنے کا عمل تھا جو بالائی سطور میں درج کیا گیا۔ سائنسی نقطۂ نظر سے ہر روز کے بننے والے نئے ہارمونز کیلئے یہ طریقہ بہت اہم ہے جو اسی وقت جنریٹ ہوتے ہیں۔

 نماز فجر اور تہجد کے درمیان دو معمولات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملتے ہیں۔ پہلا معمول یہ ہوتا کہ آپؐ ازواجِ مطہرات کو دین کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ آپ ؐ ہمیں بہت سے انبیاء کے واقعات اور قصے سناتے اور بہت سی قرآنی آیات کی تفسیر امہات المومنین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتی تھیں، آپؐ اسے بتایا کرتے تھے۔ ‘‘ اور یہ اسی کی برکتیں ہیں کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دو ہزار ( ۲۰۰۰) سے زائد احادیث مروی ہیں ۔ 
 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے تھے۔ (بخاری ۴۱۷) اور بعض روایتوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپؐ فجر کی سنت نماز ادا کرنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ کر آرام کر لیتے تھے۔ (بخاری ۱۱۲۳) رات کے طویل قیام کی وجہ سے یہ سنت مختصر ہوتی تاکہ فجر کی فرض نماز میں طویل تلاوت ِقرآن ہوسکے۔ فجر کی نماز میں آپؐ ۶۰؍ سے ۱۰۰؍ آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری ۵۹۹) فجر کی نماز کے بعد نبیؐ اکرم اس وقت تک مسجد سے باہر نہ نکلتے جب تک سورج طلوع نہ ہوتا۔ (السلسۃ الصحیحۃ ۴۷۳) اس وقفے میں آپؐکے تین کام بیان کئے جاتے ہیں ؛ آپؐ ذکر و اذکار فرماتے تھے۔ صحابہ اپنے خواب کو بیان کرتے تو آپ ؐخواب کی تعبیر بتاتے یا خود اپنا خواب بتاتے یا رات میں آئی ہوئی وحی کو بیان کرتے، زمانہ جاہلیت کی باتوں کو یاد کرتے اور کبھی کبھی تبسم بھی فرماتے تھے۔ حضرت جابرؓفرماتے ہیں کہ آپ ؐ جس جگہ نماز فجر پڑھتے طلوع آفتاب تک وہیں تشریف فرما رہتے تھے، سورج طلوع ہو جاتا تب آپؐ وہاں سے اٹھتے۔ 
  دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے۔ اس نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی اور اس کے بعد طلوع آفتاب تک ذکر و اذکار کرتا رہا پھر اس نے دو رکعت ادا کی تو اسے ایک نفلی حج اور عمرے جیسا ثواب ملتا ہے۔ ‘‘ (ترمذی ۵۸۶)
 ایک دفعہ اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاسے فرمایا : ’’فاطمہ صبح کے وقت میں نہ سویا کرو، اللہ نے صبح کے وقت میں برکت رکھی ہے۔ ‘‘ کعب بن مالک، بلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع کی توبہ کی قبولیت کی اطلاع رات کو آگئی تھی لیکن فجر کے بعد یہ اطلاع دی گئی، اور تعبیر خواب کے سلسلے میں بخاری میں ایک باب قائم کیا گیا ہے (بخاری ۷۰۴۷) کہ صبح کی نماز کے بعد خواب کی تعبیر بیان کرنا کہ خوابوں کی تعبیر ایک بڑا علم ہے۔ 
 آپؐکے بعد اس کے سب سے بڑے ماہر سیدنا ابوبکر ؓ تھے جو آپؐ کے سامنے بیان کیے ہوئے خوابوں کی تعبیر بتاتے تھے اور پوچھتے کہ ا للہ کے رسولؐ میں نے صحیح بتایا یا غلط، آپؐ اس پر کچھ غلطی ہوتی تو تصحیح فرماتے تھے گویا اس پہلو سے بھی صحابہ کرام ؓکی آپ ان اوقات میں تربیت فرماتے اور جیسا کہ عرض کیا گیا یہ آپؐ کا معمول تھا۔ 
 تیسری چیز جس کا علم حضرت جابر ؓ کی روایت سے ہوتا ہے، یہ ہے کہ صحابہ کرام آپؐ سے باتیں کرتے رہتے پھر ایام جاہلیت کا تذکرہ بھی کرتے اور ان باتوں سے ہنستے اور آپ ؐ بھی مسکرارہے ہوتے۔ (مسلم۲۳۲۲)
 چوتھی چیز لوگ برکت کے حصول کیلئے صبح کے وقت اپنے پانی کے برتن لے آتے جس میں پانی ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی برتن لایا جاتا اس میں اپنا دست مبارک ڈالتے، سخت سردیوں میں بھی پانی لایا جاتا تب بھی آپؐ کا یہی معمول ہوتا (مسلم ۲۳۲۴)۔ صحرائی زندگی میں پانی کی قلت سے جو مشکلات ہوتیں اس کے درد کو محسوس کرتے ہوئے آپؐ نے سخت سردی میں بھی ان کی پریشانی کو دور کرنے کے لیے خود تکلیف اٹھائی۔ قارئین کرام، ہم تہائی رات کی برکتوں اور فجر کے بعد یہ سب فیوض اس وقت حاصل کر سکتے ہیں جب ہم رات میں اول وقت میں سونے کا معمول بنائیں۔ دُعا ہے کہ رب العالمین ہمیں نبی اکرمؐ کی پیروی کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین 
 طلوع آفتاب کے فورا بعد آپ ؐ ناشتہ نہیں فرماتے تھے بلکہ کچھ تاخیر سے کرتے تھے اور بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں میں صرف دو وقت کا کھانا ہوتا تھا لیکن بعض روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ؐ صبح کے وقت بھی کچھ نوش فرما لیتے تھے۔ سیدنا عائشہ ؓفرماتی ہیں، آپ ؐ میرے پاس آتے تو دریافت فرماتے کہ کھانے کے لئے کچھ ہے؟ (ابو داؤد ۲۴۵۵)۔ میں کہتی نہیں، تو فرماتے میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاخیر سے گھر جانے کی ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبی اکرمؐ نماز اشراق کے وقت اپنی ازواج مطہرات کو عبادت کا موقع دیتے تھے۔ سیدنا جویریہ ؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشراق کی نماز پڑھنے کے بعد ان کے گھر تشریف لے جاتے۔ (بخاری ۴۲۵)
 کیا ہم بھی اپنی زوجہ یا ازدواج کیلئے ایسی تمنا، فکر اور طرز عمل اختیار کرتے ہیں ؟ اشراق کے بعد سے زوال تک آپؐ کو کوئی لشکر روانہ کرنا ہوتا (ابوداؤد۲۶۰۶)تو ان کو آغاز ہی میں بھیجتے اور خود جانا ہوتا تو اسی وقت جاتے۔ ملاقات کے لئے آپؐکے پاس لوگ پہلے پہر ہی میں آتے تھے۔ گھریلو یا خاندانی تنازعات یا تجارت میں رہنمائی، اہل صفہ کی تربیت غرض عہد نبوی کے مدنی دور میں آپؐ کا معمول نظر آتا ہے کہ اشراق کے وقت سے زوال تک مختلف وفود کی آمد پر اُن کی ضرورت کی تکمیل فرمایا کرتے تھے۔ انہی اوقات میں لوگ اپنے معاشی مسائل کو لے کر آتےتو آپ ؐ مختلف افراد کو الگ الگ مشورہ دیتے۔ 
 دین کو سیکھنے کے لیے مختلف وفود آتے انہیں آپ دین کی باتیں سکھاتے اور جو مہمان آتے ان کی مہمان نوازی فرماتے، معاشی اعتبار سے اگر دیکھیں تو نبوت سے پہلے آپؐ، چند قیرات کے عوض مکہ کے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے، اب بہت سے تجارتی مال کو آپؐ ملک شام اور دیگر ممالک میں لے گئے۔ پروفیسر مولانا محمد یاسین مظہری صدیقی معاش نبوی کے مقالے میں رقم طراز ہیں کہ نبی اکرمؐ کے پاس مدینہ میں ۱۵؍ اونٹنیاں اور کئی بکریاں تھیں جن کا دودھ آپ ؐ اپنے اہل خانہ اور مہمانوں کے لئے پیش کرتے تو وہیں بہت سے انصار صحابہ نے اپنے نخلستان کا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دیا ہوا تھا جہاں سے کھجوریں آتیں اور خیبر کے بعد مستقل آمدنی کا ایک ذریعہ اللہ نے آپ کے لیے پیدا فرما دیا تھا۔ 
 چونکہ نبیؐ اکرم کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کے لئے بالکل یکسو کر دیا تھا اس لیے آپ ؐ نے دنیا کے حوالے سے بہت ہی قناعت پر گزر بسر کی جیسا کہ آپؐ کی دعا ہے کہ’’ اے اللہ! آلِ محمد کو بقدر کفاف رزق عطا فرما۔ ‘‘ اس کے باوجود ایک عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں کئی دنوں تک آپؐ کے گھر میں چولہا نہیں جلا۔ آپ ؐ کے روز مرہ کے معمول میں باغ کی تفریح بھی رہی ہے۔ ایک انصاری صحابی کے باغ میں روزآنہ آپؐ تشریف لے جاتے تھے، اسی طرح آپ کی نماز ظہر کا وقت ہو جاتا۔ 
  نماز ظہر کی پہلی سنتوں کو پڑھنے کی آپؐ نے ترغیب دی ہے اور خود بھی پڑھتے تھے۔ 
 ظہر کی نماز میں آپؐ کتنی تلاوت فرماتے اس ضمن میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ’’ ہم نے نبیؐ اکرم کی ظہر اور عصر کی نماز کا اندازہ لگایا ؛ چنانچہ ظہر کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ ۳۰؍ آیات کے برابر تھا یعنی حم سجدہ کی تلاوت اور دوسری رکعت کا قیام اس کا نصف کے برابر یعنی ۱۵؍ آیات ہوتا اور عصر کی پہلی دو رکعتیں ۱۵؍ آیات کی ہوتیں اور آخری دو رکعتیں پہلی دو رکعتوں کی نصف ہوتیں۔ ‘‘ 
 باہر سے آنے والے وفود عموماً ظہر سے پہلے یا ظہر کے وقت پہنچتے تھے (بخاری ۱۲۳۵) اور وفود کی خواہش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ صحابہ کرام سے بھی ملاقات ہو جائے جیسا کہ ظہر کی نماز کے وقت وفد عبدالقیس کی آمد ہوتی ہے۔ آپؐ اُن کی خدمت میں مشغول ہو گئے جس کی وجہ سے آپؐ کی وہ سنتیں رہ گئیں۔ آپؐ نے وہ سنتیں عصر کے بعد سیدنا ام سلمہ کے یہاں ادا کیں۔ دوپہر کے کھانے سے متعلق سوال پر بن سعد کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے روز نماز کے بعد کھانا اور قیلولہ جمع کرتے تھے۔ (بخاری۶۲۷۶) اس لئے کہ جمعہ اول وقت میں ادا کرتے اور دوسرے دنوں میں کھانا پہلے کھاتے پھر ظہر کی نماز ادا کرتے تھے۔ (فتح الباری)
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت آرام فرماتے تھے جسے قیلولہ کہا جاتا ہے جس کے وقت اور وقفے کے بارے میں نبیؐ اکرم کے خادم خاص سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ’’ آپؐ نے مجھے کچھ کام سے بھیجا اور آپؐ دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ ‘‘ (صحیح الادب المفرد ۸۵۵) اس روایت سے قیلولے کے وقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ دیوار کا اتنا سایہ جس میں بیٹھا جا سکے گویا تو دس گیارہ بجے کا وقت ہوگا یا دو سے تین بجے کے بعد کا اس لیے زیادہ گمان یہ ہے کہ یہ دو سے تین بجے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ دراصل قیلولہ دوپہر میں کسی بھی وقت آرام کرنے کا نام ہے مگر یاد رہے کہ قیلولہ گھنٹوں آرام کرنے کا نام نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر (بخاری ۹۳۷) نے موسم گرما میں ظہر سے پہلے اور جمعہ والے دن جمعہ کے بعد قیلولے کا استدلال کیا ہے کہ نبیؐ اکرم نے فرمایا دوپہر کا آرام کیا کرو، بے شک شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔ مزید فرمایا کہ دوپہر کے وقت آرام سے رات کے قیام (تہجد) میں مدد لو۔ دراصل قیلولہ کچھ منٹ سستانے کا نام ہے جس کے ذریعے انسان تازہ دم ہو جاتا ہے اور دن کے باقی اوقات میں قوت حاصل ہوتی ہے اور رات کے قیام میں بھی مدد ملتی ہے۔ قیلولہ اور عصر کے درمیان بھی بعض وفود سے آپؐ ملاقات فرماتے تھے۔ وفد عبدالقیس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور اس کے علاوہ آپؐ نے مدینہ میں یہودیوں کے بالمقابل جو مارکیٹ قائم کیا تھا اس کی نگرانی اور معائنہ فرماتے تھے۔ ایک روایت میں آپ ؐ نے بازار میں دیکھا کہ بیوپاری غلے کی تجارت کر رہا تھا۔ آپؐ نے اس کے غلے میں ہاتھ ڈالاتو غلہ گیلا تھا تب آپؐ نے فرمایا’’ جو آدمی دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘

دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزمرہ کے اس وقت کے معمول میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپؐ بازار سے اس راستے سے جاتے جہاں عموماً بچے کھیل رہے ہوتے۔ ایک روایت میں ملتا ہے کہ راستے میں بچے آپؐ کو ملے تو آپؐ خود پہل کر کے انہیں سلام کرتے اور چھوٹے بچے کو اٹھا کر اپنے کاندھوں پر بٹھا لیا کرتے تھے۔ کسی بچے کی آنکھوں پر ہتھیلی رکھ کر پوچھتے بتاؤ میں کون ہوں یعنی آپؐ بچوں کے ساتھ بچے بن جایا کرتے تھے جو نہایت شفقت کی علامت ہے۔ 
  عصر سے لے کر مغرب تک کے وقت میں دو معمولات آپ کے ملتے ہیں۔ پہلا صحابہ کرام کو نصیحت فرمانا۔ یہ سلسلہ عموماً عصر کے بعد ہوتا تھا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آپؐ نے عصر کی نماز پڑھائی، خطبہ شروع فرمایا اور قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا ذکر کیا۔ (صحیح الترغیب و التربیب ۲۷۵۱) دوسری روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عصر کے بعد نبی اکرمؐ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے پہاڑ پر دھوپ لگی ہوئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے جو لوگ گزر چکے ہیں ان کی اور تمہاری عمر کا یہی تناسب ہے، جیسے اب دن کا کچھ حصہ باقی ہے لہٰذا اب تمہاری عمر سابقہ لوگوں سے کم ہو گی۔ (مسند احمد ۲، ۱۱۵) اور اسی طرح متعدد واقعات ہیں۔ وعظ و نصیحت سے فارغ ہونے کے بعد آپؐ عصر کے بعد گھریلو اور نجی زندگی میں وقت گزارتے تھے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ’’ نبی اکرمؐ جب عصر کی نماز سے فارغ ہوتے تو اپنی ازواج کے ہاں آتے اور ہر ایک کو برابر وقت دیتے۔ ‘‘ (بخاری ۵۲۱۶) ایک روایت سے پتہ چلتا ہے آپؐ حفصہؓ کے پاس اس دوران زیادہ ٹھہر گئے جتنا آپ ٹھہرتے تھے۔ آپؐ کی ازواجِ مطہرات کو اندازہ تھا کہ وہ ایک زوجہ کے یہاں کتنا ٹھہرتے تھے، اس لئے وہ کہہ رہی ہیں کہ حفصہؓ کے ہاں زیادہ ٹھہرے۔ سیدنا عائشہؓ سے ان کے شاگرداسود نے پوچھا کہ نبی اکرمؐ کی گھر میں کیا مصروفیات ہوتی تھیں (بخاری ۶۷۸) تو سیدنا نےفرمایا ’’ گھر والوں کے کام کاج میں مدد فرماتے اور ان کا ہاتھ بٹاتے۔ اس دوران اپنا کام خود کرتے یعنی اپنے کپڑے سی لیا کرتے تھے اور اپنے جوتے گانٹھ لیا کرتے تھے۔ ‘‘
  دوسری روایت میں آتا ہے کہ’’ آپؐ گھر میں داخل ہوتے تو سلام کہتے اور چہرے پر مسکراہٹ ہوتی۔ ‘‘ ساتھیو! یہ عمل ایسا ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’ جب خاوند بیوی کو دیکھ کے مسکرا دے اور بیوی خاوند کو دیکھ کر مسکرا دے تو اللہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ‘‘ کیا ہمارے گھر والوں کے ساتھ ہمارا طرز عمل بھی ایسا ہی ہے؟ 
 نبی اکرمؐ گھر میں اپنی بیویوں کو محبت بھرے القاب اور ناموں سے پکارتے تھے جیسے سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حمیرہ یعنی جس کا چہرہ سفید بھی ہو اور سرخ بھی ہو۔ یہ محبت کی زبان ہے جس طرح عقل اپنے اظہار کے لئے ایک زبان کا قالب اختیار کرتی ہے ویسے ہی جذبات کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ دور جدید میں اسے لینگویج آف میرج کہتے ہیں، کبھی الفاظ کی شکل اختیار کرتی ہے تو کبھی اشاروں کنایوں میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ 
  نبی اکرمؐ گھر میں دینی و اخلاقی تربیت بھی فرماتے تھے۔ ایک بار سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدنا صفیہؓ کو اشارے سے ٹھنگنی کہا، تو آپؐ نے فوراً ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا’’ عائشہ! تم نے ایسی بات کہی کہ اگر سمندر میں ڈال دی جائے تو وہ زہر آلود ہو جائے۔ ‘‘ نبی اکرمؐ گھر میں ایک خشک زاہد کی طرح نہیں رہتے بلکہ گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھتے تھے۔ ایک روایت میں سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نبی اکرمؐ کی خدمت میں حریرہ لے کر آئی۔ وہاں سوداؓ بھی تھیں، میں نے ان سے کہا کہ آؤ۔ انہوں نے انکار کیا۔ میں نے کہا کھاؤ ورنہ میں تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔ انہوں نے انکار کیا۔ میں نے اپنا ہاتھ حریرہ میں ڈالا اور ان کے چہرے پر مل دیا۔ نبی اکرمؐ ہنسنے لگے۔ آپؐ نے سیدنا سودا ؓ سے فرمایا :تم بھی عائشہؓ کے چہرے پر مل دو، آپؐ نے اپنا گھٹنا نیچے کر لیا تاکہ سودا مجھ سے اپنا بدلہ لے سکیں چنانچہ سوداؓنے رکابی سے حریرہ لے کر میرے چہرے پر مل دیا اور نبی اکرمؐ ہنسنے لگے۔ 
 اسی طرح اپنی لخت جگر سیدنا فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے لئے بھی ایک وقت نکالتے۔ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بڑی محبت فرماتے تھے۔ کبھی بچوں کو اپنی پیٹھ پر سوار کرتے اور کہتے ’’تم دونوں کا اونٹ کیا ہی اچھا ہے اور تم دونوں کیا ہی اچھے سوار ہو۔ ‘‘ اسی طرح آپؐ ایکسٹینڈڈ فیملی کے بچوں کے لئے بھی وقت دیتے۔ روایت میں آتا ہے آپؐ بچوں کو ایک جگہ جمع کرتے پھر آپؐ ایک جگہ بیٹھ کر بچوں کا دوڑ کا مقابلہ کراتے اور دوڑ کیلئے کہتے تو کوئی بچہ آپؐ کے کاندھے پر تو کوئی سر پر تو کوئی سینے سے چمٹ جایا کرتا تھا۔ آج خاندانی زندگی اور بچوں کو کوالٹی ٹائم نہ دینے کے نتیجے میں گھروں سے رونق اٹھ گئی ہے۔ سچ پوچھئے تو نبی اکرمؐ کے طرز عمل میں ہمارے خاندان میں رحمت، مودت اور بچوں کی صحیح نشونما کے لئے کافی نصیحت کا سامان ہے۔ 
 عربوں میں مغرب میں کھانے کا وقت ہوتا تھا، مغرب سے پہلے کا یہ وقت کھانا پکانے کا ہوتا تھا، اس لئے بہت سی روایتوں میں نبی اکرمؐ کا اپنے گھر میں کھانا پکانے میں مدد کا بھی ذکر آتا ہے۔ بخاری میں روایت موجود (بخاری ۶۷۲۰) ہے کہ جب شام کا کھانا پیش کیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے اسے کھا لیا کرو۔ لیکن بعض روایتوں میں نماز مغرب کے بعد اور عشاء سے پہلے کھانا کھا لینے کا ذکر ملتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمؐ کے یہاں شام کا کھانا کھایا پھر عشاء کی نماز تک وہیں بیٹھے رہے۔ (مسلم ۲۰۵۷) مغرب کی اذان ہوتی تو آپؐ مسجد کی طرف چل پڑتے مغرب کی نماز ادا فرمانے۔ نمازِ مغرب میں آپؐ چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ صحابہ کرام سورہ البینہ سے والناس کے درمیان کوئی سورہ کا ذکر کرتے ہیں (نسائی، ۹۸۴) لیکن کبھی کبھار سورہ مرسلات (بخاری ۴۴۲۹) اور طور کا پڑھنا بھی ثابت ہے۔ نبی اکرمؐ مغرب کی نماز کے بعد بالخصوص اہل صفہ کے کھانے کا انتظام فرماتے۔ اہل صفہ کو کچھ صحابہ کے درمیان تقسیم کر دیا کرتے اہل صفہ کی ضروریات کی تکمیل کیلئے آپؐ بہت حساس تھے۔ 
 آپؐ عشاء سے قبل سوجانے کو ناپسند فرماتے تھے۔ غالباً عشاء کی نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ عشاء کی نماز میں آپؐ نے سیدنا معاذؓ کو والشمس اور واللیل اور اعلیٰ جیسی سورہ ہی پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ (مسلم ۱۰۶۸) ایک رات آپؐ نے عشاء کی نماز میں سورہ والتین پڑھی(ابن ماجہ ۸۳۴) اور عشاء کی نماز کو آپؐ تاخیر سے پڑھنے کو پسند فرماتے تھے۔ (بخاری ۵۹۹)نبی اکرمؐ عشاء کی نماز ادا فرمانے کے بعد اپنے گھروں میں جس کے پاس قیام کی باری ہوتی، وہاں آ جاتے۔ (سنن ابوداؤد ۱۳۴۶)
  نبی اکرمؐ کے شب و روز کے معمولات کا ایک مختصر خاکہ میں نے آپ کے سامنے پیش کیا البتہ تین کام ایسے ہیں جنہیں نبی اکرمؐ نے اپنے روز کے معمول میں ان کا خاص اہتمام رکھا۔ نبی اکرمؐ نے اپنے روزانہ کے معمول میں قرآن کا ایک حصہ اور کچھ اذکار کی ایک مقدار متعین کی تھی جس کا آپؐ ناغہ نہیں کرتے تھے جیسا کہ ایک روایت ہے کہ عام طور پر آپؐ عشاء کے بعد نکلنے کو پسند نہیں فرماتے تھے لیکن ایک تنازع کے تصفیہ کے لئے آپؐ کوجانا پڑا، جہاں آپ ؐ تھوڑا تاخیر سے پہنچے، اس وقت آپؐ نے فرمایا کہ میرے کچھ معمولات رہ گئے تھے جن کو پورا کرنے میں مجھے دیر ہو گئی۔ 
  مولانا فاروق خان صاحب کلام نبوت میں لکھتے ہیں کہ حدیث میں وہ عمل جو تھوڑا ہو مگر مستقل ہو اللہ کو پسند ہے اس کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ بندہ ایک نفل عمل کے ذریعے اپنے رب سے ایک تعلق کا اظہار کرتا ہے تو اسے اس کی پابندی کرنی چاہئے اگر وہ اسے چھوڑ دیتا ہے تو دراصل وہ اپنے رب سے ایک رشتے کا اظہار کر کے اسے توڑ دیتا ہے۔ 
  دوسرا معمول جو نبی اکرمؐ کے یہاں پابندی سے ملتا ہے وہ ذکر دوام ہے (مسلم ۸۵۲) یعنی نبی اکرمؐ سو کر اٹھتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت، گھر سے نکلتے وقت، سواری پر، بیت الخلاء میں جاتے وقت، نکلتے وقت، غصہ، خوشی، حتیٰ کہ وظیفہ ٔ زوجیت ادا کرتے وقت بھی دعاؤں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو ہر عمل کو عبادت بنا دیتا ہے اور انسان کے دل کو اللہ کی یاد سے آباد رکھتا ہے۔ یقیناً اللہ کی یاد ہی دلوں کو اطمینان بخشتی ہے اور انسان اپنی نفسانی خواہشات اور شیطانی وساوس سے قلب کو مامون رکھ پاتا ہے۔ 
  تیسرا معمول نبی اکرمؐ کا یہ رہا ہے کہ نظافت و طہارت کا آپؐ حد درجہ اہتمام فرماتے تھے۔ بالوں میں تیل لگانا، جسم کو خوشبو سے معطر رکھنا حتیٰ کہ اپنے منہ اور دانتوں کی طہارت کا اس درجے اہتمام کہ دن کا ابتدائی کام مسواک اور رات میں سوتے وقت مسواک اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری کام بھی مسواک ہی رہا۔ سیدنا عائشہؓ فرماتی ہیں میری گود میں آپؐ کا سر تھا، بخار کی شدت تھی اور زبان سے آپؐ کوکہنے کی ہمت نہیں تھی، میرے بھائی عبدالرحمٰن گھر میں داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپؐ مسواک کرنا چاہتے ہیں ؟ تو آپؐنے اشارے سے ہاں کہا۔ میں نے اپنے دانتوں سے مسواک کو نرم کیا اور آپؐ کو مسواک کرائی۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ؐ کی آواز دھیمی ہوگئی اور آپ ؐ فرمارہے تھے کہ ’’نماز اور اپنی باندیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ‘‘ اخیر کلمات آپؐ کی زبان سے ادا ہو رہے تھے: اللھم رفیق ِالاعلیٰ، اللھم رفیق ِ الاعلیٰ، اللھم رفیق ِالاعلیٰ‘‘ [بخاری ۶۳۴۸] 
 پھر آپؐ کا ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے چلا گیا اور یہ محسوس ہوا کہ آپ ؐ اب دنیا میں نہیں رہے۔ 
 لاکھوں درود و سلام ہو محمدؐ پر اور آپؐ کی آل پر۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ نبی اکرمؐ کے شب و روز کے معمولات کو ہماری زندگی کا حصہ بنائے اور ہماری آخری سانس تک نبی اکرمؐکی پیروی و اتباع کی توفیق نصیب ہمیں نصیب ہو۔ آمین، ثم آمین، یا رب العالمین۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK