اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے اور اس امتحان میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ہم زندگی کے ہر شعبے میں ایک کامل نمونہ کی پیروی کریں۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 4:02 PM IST | Arab Shabana Rizwan | Mumbai
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے اور اس امتحان میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ہم زندگی کے ہر شعبے میں ایک کامل نمونہ کی پیروی کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے اور اس امتحان میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب ہم زندگی کے ہر شعبے میں ایک کامل نمونہ کی پیروی کریں۔ وہ کامل نمونہ ہمیں کسی فلسفی یا بادشاہ میں نہیں بلکہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں ملتا ہے۔
انسانیت نے اگر کسی ہستی کو کامل رہنما پایا ہے، تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولؐ کو اسلئےمبعوث فرمایا کہ انسانیت کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی راہوں پر ڈال دے۔ قرآن مجید کا اعلان ہے: ’’بے شک رسولؐ اللہ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘ (الاحزاب:۲۱) یہ اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ کامیابی اور فلاح کا واحد راستہ آپؐ کی سیرت کی پیروی ہے۔
نبیؐ کریم کی حیاتِ طیبہ کا ہر گوشہ روشنی کا مینار ہے۔ گھریلو زندگی میں آپؐ نے محبت، بردباری اور صبر کے ایسے اصول سکھائے جو آج بھی ہر گھر کو جنت بنا سکتے ہیں ۔ میدانِ جنگ میں شجاعت و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کی، مگر ساتھ ہی دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و رحمت کا مظاہرہ فرمایا۔ سیاست و حکومت کے میدان میں انصاف کو اس طرح قائم کیا کہ دنیا آج بھی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
یہ بھی پڑھئے:آپؐ کی انقلابی تعلیمات کے نتیجہ میں دنیا میں فکری انقلاب آیا
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اعلان فرمایا: ’’ اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو رسول ﷺ کی پیروی کرو۔ ‘‘ (آل عمران:۳۱) اس آیت سے واضح ہو گیا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ محض زبان کا کلمہ نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت نبیؐ کی اتباع ہے۔ آپؐ نے خود فرمایا: ’’جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں ۔ ‘‘ یہ فرمان ہمیں باور کراتا ہے کہ حقیقی بندگی وہی ہے جو رسولؐ اللہ کی سنت کے مطابق ہو۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے۔ ‘‘ (النساء: ۸۰) یہ حقیقت نہایت اہم ہے کہ قرآن مجید میں بہت سے احکامات اجمالی طور پر بیان کئے گئے ہیں اور ان کی تفصیلات رسول ﷺ کی سنت میں ہیں ۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج، یہ سب عبادات ہمیں رسولؐ اللہ کی عملی زندگی سے سیکھنے کو ملے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ وہ قرآن پر تو عمل کرے گا مگر سنت کو نہیں مانے گا تو دراصل وہ اللہ کے حکم کو ہی رد کر رہا ہے۔
آپؐ کی سیرت کا سب سے روشن پہلو اخلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود آپؐکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ۔ ‘‘ (القلم:۴) آج دنیا اسلام کے پیغام کو اخلاق کے ذریعے ہی زیادہ قبول کرتی ہے۔ اگر مسلمان نبیؐ کریم کے اخلاق کو اپنالیں تو اسلام کی روشنی چاروں طرف پھیل جائے۔ رسولؐ اللہ نہ صرف اخلاقِ عظیم کے مالک تھے بلکہ سراپا رحمت بھی تھے۔ قرآن میں فرمایا گیا: ’’اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔ ‘‘ (الانبیاء: ۱۰۷)۔ آپؐ کی رحمت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت بلکہ کائنات کے لئے ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر دشمن بے بس کھڑے تھے، مگر آپؐ نے سب کو معاف کر دیا اور فرمایا: ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، سب آزاد ہو۔ ‘‘ یہ ہے وہ عظیم الشان رحمت جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔
عدل و انصاف بھی آپؐ کی سیرت کا لازمی جزو تھا۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔ ‘‘ (سورہ النحل:۹۰)
نبیؐ کریم کی معافی اور حلم کی مثال طائف کے واقعے سے ملتی ہے۔ وہاں لوگوں نے پتھر مار مار کر آپؐ کو لہو لہان کر دیا۔ ایسے میں فرشتہ حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ یا رسولؐ اللہ اگر آپؐ اجازت دیں تو اس قوم کو ہلاک کر دیا جائے مگر آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں ، شاید ان کی نسل سے اللہ کا کوئی سچا بندہ پیدا ہو۔ ‘‘ یہ ہے وہ عظیم ظرف، تحمل اور برداشت جو صرف نبیؐ کریم کے اخلاق میں ممکن ہے۔
آج امت ِ مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس نے سیرتِ نبویؐ کو چھوڑ دیا ہے اور اسوۂ حسنہ سے غفلت برت رہے ہیں ۔ ہم نے نعرے تو نبیؐ کے نام پر بلند کئے مگر آپؐ کی سنتوں کو بھلا دیا۔ ہم نے قرآن پڑھا مگر اس کے عملی پیکرؐ کو اپنانا بھول گئے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ سیرتِ طیبہ کو اپنی زندگی کا جزو بنا لیں ۔ یہ وہ چراغِ ہدایت ہے جو نہ صرف دنیا کے اندھیروں کو دور کرتا ہے بلکہ آخرت کی راہوں کو بھی منور کر دیتا ہے۔ n