Inquilab Logo Happiest Places to Work

کلامِ الٰہی میں قربانی کا حکم اور اس کی حکمت

Updated: June 06, 2025, 4:59 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai

قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

Gratitude for the gift of the mind and soul can only be shown in the form of a person choosing the path of faith and obedience. Photo: INN
ذہن اور نفس کے عطیے کا شکریہ اسی شکل میں ادا ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان و طاعت کی راہ اختیار کرے۔ تصویر: آئی این این

قرآن مجید میں قربانی کے مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں، وہ یہ ہیں :
عبادت کی تمام وہ صورتیں جو انسان نے غیراللہ کے لئے اختیار کی ہیں، دین حق میں وہ سب غیراللہ کے لئے حرام اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے واجب کردی گئیں، مثلاً: 
انسان غیراللہ کے آگے جھکتا اور سجدے کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کیلئے مخصوص کر دیا اور اس کے لئے نماز کی صورت مقرر کر دی۔ 
 انسان غیراللہ کے سامنے مالی نذرانے پیش کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کیلئے خاص کر دیا اور اس کی عملی صورت ’زکوٰۃ‘ مقرر کر دی۔ 
 انسان غیراللہ کے نام پر روزے رکھتا تھا۔ دین حق نے اسے بھی اللہ کیلئے مختص کر دیا اور اس غرض کیلئے رمضان کے روزے فرض کر دیئے۔ 
 انسان غیراللہ کے لئے تیرتھ یاترا کرتا اور استھانوں کے طواف کرتا تھا۔ دین حق نے اس کے لئے ایک بیت اللہ بنایا اور اس کا حج اور طواف فرض کر دیا لہٰذا یہ اعمال حج اور طواف قرار پائے۔ 
 اسی طرح انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک غیراللہ کے لئے قربانی کرتا رہا ہے۔ دین حق نے اسے بھی غیراللہ کے لئے حرام کر دیا اور حکم دیا کہ یہ چیز بھی صرف اللہ کے لئے ہونی چاہئے۔ 
چنانچہ دیکھئے: ایک طرف قرآنِ مجید ’’جسے غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ (البقرہ:۱۷۳) اور’’جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں ) پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ (المائدہ:۳) کو قطعی حرام قرار دیتا ہے، اور دوسری طرف حکم دیتا ہے: ’’اپنے ربّ ہی کے لئے نماز پڑھو اور اسی کیلئے قربانی کرو۔ ‘‘ (الکوثر:۲)
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان سب کا شکریہ اس پر واجب ہے اور یہ شکریہ ہرنعمت کے لئے قربانی اور نذرانہ کی شکل میں ہونا چاہئے۔ ذہن اور نفس کے عطیے کا شکریہ اسی شکل میں ادا ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان و طاعت کی راہ اختیار کرے۔ جسم اور اس کی طاقتوں کا عطیہ یہی شکریہ چاہتا ہے کہ آدمی نماز اور روزے کی شکل میں اسے ادا کرے۔ مال کے عطیے کا شکریہ زکوٰۃ ہی کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے، اور زکوٰۃ بھی اس طرح کہ سیم و زر کی زکوٰۃ اسی سیم و زر سے، زرعی پیداوار کی زکوٰۃ اسی پیداوار میں سے، اور مواشی کی زکوٰۃ انہی مواشی میں سے نکال لی جائے۔ اسی طرح اپنے پیدا کئے ہوئے جانوروں پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قدرت بخشی ہے اور ان سے طرح طرح کے بے شمار فائدے اُٹھانے کا جو موقع اس نے دیا ہے، اس کے شکریے کی بھی یہی صورت ہے کہ انسان ان جانوروں ہی میں سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرے۔ چنانچہ سورئہ حج میں قربانی کی ہدایت فرمانے کے بعد اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ: ’’اسی طرح ہم نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ ‘‘ (الحج :۳۶)
 انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں پر جو اقتدار اور تصرف کا اختیار بخشا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور اس کی حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کرتا رہے، تاکہ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ سب کچھ میرا ہے اور مَیں ہی اس کا خود مختار مالک ہوں۔ اس بالاتری کے اعتراف کی مختلف شکلیں اللہ کے مختلف عطیوں کے معاملے میں رکھی گئی ہیں۔ جانوروں کے معاملے میں اس کی شکل یہ ہے کہ انہیں اللہ کے نام پر قربان کیا جائے۔ چنانچہ اسی سورئہ حج میں اسی سلسلۂ کلام میں آگے چل کر فرمایا گیا: ’’اسی طرح اللہ نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے، تاکہ تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اس ہدایت پر، جو اس نے تمہیں بخشی۔ ‘‘(الحج :۳۷]
یہی تین وجوہ ہیں ، جن کی بنا پر قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام اُمتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے: ’’اور ہر اُمت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ ‘‘ (الحج :۳۴)
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری اُمتوں کے لئے تھا، اسی طرح شریعت محمدی یعنی اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی مقرر کیا گیا:
’’ اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے مَیں سرِاطاعت جھکانے والا ہوں۔ ‘‘ (الانعام:۱۶۲-۱۶۳)
’’پس، اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ ‘‘ (کوثر:۲)
یہ حکمِ عام تھا جو قربانی کے لئے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر یہ واجب ہے، اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں ؟ 
ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا کیونکہ اس نے رسولؐ کو بلاضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔ 
قربانی: سنت رسولؐ
اوّلاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑی کہ فرداً فرداً جس مسلمان کا جب جی چاہے، اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی جانور قربان کردے، بلکہ آپ نے تمام اُمت کے لئے تین دن مقرر فرمادیئے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انہی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کریں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کاحکم دیا گیا۔ ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی، تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کی گئیں، تاکہ انہیں ادا کرنے کے لئے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملے میں بھی تمام مسلمانوں کے لئے ایک مہینہ مقرر کر دیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ 
اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اُس خاص عبادت کا ماحول طاری ہوجاتا ہے، جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں، اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے، جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔ 
یومِ عید کا تعین: ثانیاً، اس کے لئے آنحضور ﷺ نے خاص طور پر ایک یومِ عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں۔ پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں۔ یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے۔ (الانعام:۱۶۳۔ ۱۶۳)
 سنتِ ابراہیمیؑ پر عمل: ثالثاً، اس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا، جس دن تاریخِ اسلام کا سب سے زیادہ زرّیں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا۔ یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لئے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی کرنا چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی کی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعے کی یادگار بھی بن گئی، جو ایمانی زندگی کے اِس منتہاے مقصود، اُس کے اس آئیڈیل اور مثلِ اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انہیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ قربانی کا حکم بجالانے اور عید کا تہوار منانے کے لئے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہوجاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لئے اِس خاص تاریخ کا انتخاب ’بیک کرشمہ ٔ دوکار‘ کا مصداق ہے۔ 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس واقعے کے بعد ہرسال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضوؐر نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے، اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اُس روز کریں، جس روز حضرت ابراہیمؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے۔ اپنی تاریخ کےیادگار واقعات کا ’یوم‘ دنیا کی ہرقوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لئے بھی اُس دن کا انتخاب کرتا ہے، جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔ 
حج کی توسیع: رابعاً، قربانی کے لئے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بُری طرح کھل رہی تھی کہ کفّار نے اُن پر حرم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ سرکار دو عالم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایامِ حج کو مدینے ہی میں ان کے لئے ایامِ عید بنا دیا۔ آپ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ۹؍ ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے، جب کہ حاجی عرفات کے لئے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہرنماز کے بعد تکبیر تشریق کا ورد شروع کریں اور ۱۳؍ ذی الحج تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایامِ تشریق گزارتے ہیں ) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز ۱۰؍ ذی الحج کو، جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانۂ نماز ادا کرکے قربانیاں کریں۔ 
قربانی کی روح: خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےسکھایا، وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کا دوگانۂ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:
’’ مَیں نے یکسو ہوکر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لئے حاضر ہے۔ ‘‘
ان الفاظ پر غور کیجیے۔ ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں، جن کی بنیاد پر قرآنِ مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ 
یہ پانچ نکات جو اُوپر عرض کئے گئے ہیں، انہیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھئے۔ آپ کو ان میں ایک نبی کی خداداد بصیرت اور ہدایت یافتہ حکمت نمایاں نظر آئے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK