Inquilab Logo

رمضان کا پیغام اور رمضان کے بعد کی زندگی

Updated: April 19, 2024, 6:32 PM IST | Mufti Muhammad Rashid Diskawi | Mumbai

تقویٰ، تعلق باللہ، اخلاص اور انفاق فی سبیل اللہ جیسے اعمال ماہِ رمضان میں شباب پر تھے، شریعت کی یہ ترغیبات ہم سے تقاضا کر رہی ہیں کہ ہم رمضان کے بعد بھی اپنی زندگی اسی نہج پر گزاریں۔

Mosques filled with worshipers in Ramadan should remain populated throughout the year. Photo: INN
رمضان میں مصلیان سے بھری ہوئی مساجد سال بھر آباد رہنی چاہئیں۔ تصویر : آئی این این

اللہ رب العزت کی جانب سے دنیا اور آخرت میں انسان کے عمل کے مختلف خوبصورت اور حوصلہ افزا معاوضوں کواس عمل کا ثواب کہتے ہیں، مثلاً: جب نماز کو اس کے مختلف مسائل کی پابندی کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے تو بدلے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے گناہوں سے رکنے اور رزق میں برکت ہونے جیسے انعام دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان ماہِ رمضان کو اس کے درست شرعی مسائل اور آداب کی رعایت سے بسر کرتا ہے تو دنیا میں اس کا ثواب یہ ہے کہ اس کے کردار میں تقویٰ آتا چلا جاتا ہے اور آخرت میں اللہ کی جانب سے وہ خصوصی اجر کا حقدار ہو جاتا ہے۔ 
یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ جب ’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۳) کا وعدہ موجود ہے، یعنی رمضان میں از خود یہ قوت پائی جاتی ہے کہ اس سے آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے اعمال درست ہو جاتے ہیں تو پھر آدمی کو رمضان کے بعد کی زندگی کو سیکھنے اور اپنے اعمال کی درستی کی محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 
سمجھ لیا جائے کہ قرآن و حدیث کے ایسے وعدوں کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ مثلاً : رمضان کے بعد فرشتے روزہ دار کو زبردستی بازو سے کھینچ کر جوئے کے اڈے سے اُٹھاکر نماز کے لئے کھڑا کر دیں گے۔ اور نہ ہی یہ ایسی سادہ بات ہے کہ جب ایک مہینہ روزانہ بار بار کچھ اعمال کو کیا جائے گا تو جسم کو ان کی عادت ہو جائے گی، اور تقویٰ محض یہ بھی نہیں کہ پانچ وقت مسجد میں جانے کی عادت ہو جائے۔ اس سلسلے میں پہلے تقویٰ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ کیا ہے۔ 
دراصل تقویٰ تو قلب و روح کی پاکیزگی اور درستی کا ایک قدرتی نظام ہے۔ اس نظام میں ہر عبادت کے ذریعے اللہ پاک بندے کے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا فرماتے ہیں جس سے اس کے لئے وہ وہ کام کرنا آسان ہو جاتا ہے جنہیں عموماً سوچا بھی نہیں جا سکتا، چنانچہ رمضان کے روزوں سے بھی آدمی کے اندر دو ایسی صلاحیتیں قوت پاتی ہیں جو آدمی کو نیکی پر چلانے کے لئے کمان کی ڈوری کا کام کرتی ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ وہ صلاحیتیں کیا ہیں ؟
(۱) رمضان میں شیاطین کے قید ہونے سے انسان میں گناہ سے بیزاری اور نیکی کا شوق بڑھتا ہے۔ اور پورے معاشرے میں جو ایک خاص ماحول اس ماہ مبارک میں بن جاتا ہے، اس میں ان جذبات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ دیگر الفاظ میں رمضان انسان میں فرشتوں جیسی صِفَت کو ترقی دیتا ہے۔ فرشتوں کی اس صفت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ’’اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (التحریم :۶) اس سے آدمی کیلئے اللہ کی اطاعت میں لگناقطعاًبوجھ نہیں رہ جاتا اور گناہوں سے بچنا بھی مشکل محسوس نہیں ہوتا۔ 
(۲) اگر کسی کے دل پر اللہ کی جانب سے پردے نہ پڑ گئے ہوں توہر انسان کے دل میں نیکی سامنے آنے پر اس کے لئے رغبت، اور برائی سامنے آنے پر اس سے بچنے کی یاددہانی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ یہ یاددہانی براہِ راست الہام کے ذریعے ہو، کسی فرشتے کی پکار پر ہو، یا خود اپنے ہی ضمیر کی بے چینی سے ہو، ہوتی ضرور ہے۔ مثلاً: حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ:
ترجمہ: ’’جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے، کیونکہ سچ اطمینان (کا باعث) ہے اور جھوٹ بے چینی (کا باعث) ہے۔ ‘‘(سنن الترمذی، الرقم: ۲۵۱۸)

یہ بھی پڑھئے: ’’میں تم لوگوں میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری سنت‘‘

اس کے بعد کسی کا دل اس یاد دہانی کو جلد قبول کر لیتا ہے، کسی کا کچھ دیر سے، کوئی اس یاد دہانی کے مطابق اپنے اعمال فوراً درست کر لیتا ہے، کوئی کچھ دیر سے۔ رمضان، دل کو اتنا حساس کر دیتا ہے کہ جب اللہ کا حکم سامنے آئے تو یہ فوراً اعضاء کو اس کی تعمیل کے لئے آمادہ کرتا ہے اور جب کوئی پر کشش گناہ سامنے آ جائے تو یہ دل فوراً اعضاء کو اس سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے، جیسا کہ پرہیز گاروں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:
’’جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، انہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا بھی ہے تو وہ (اللہ کو)یاد کرلیتے ہیں، چنانچہ اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ ‘‘(الاعراف: ۲۰۱) 
اب رمضان المبارک کے ذریعے اللہ حکیم کے اس تربیتی پروگرام کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک زنگ آلود اور خستہ حال مشین کو اگر دوبارہ صاف ستھرا اور قابلِ استعمال بنا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب وہ از خود تمام کام کرنے لگے گی، بلکہ کاریگر کو ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے اور جن کاموں کے لئے اس مشین کو تیار کیا گیا ہے، وہ کام اسی کو اس مشین سے لینے ہوں گے، بشرطیکہ اسے پتا ہو کہ یہ مشین کن امور کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اور اگر مشین کی کسی ضرورت، مثلاً: آئل کی تبدیلی، پانی کی کمی، شارٹ سرکٹ وغیرہ کی صورت میں کوئی میٹر یا الارم متنبہ کرے تو یہ ضرورتیں کاریگر کو ہی متوجہ ہو کر پوری کرنی ہوں گی۔ اسی طرح رمضان کے ذریعہ ہمارے قلب و روح کی ایک تربیت درج بالا دو صلاحیتوں کی صورت میں کر دی گئی ہے، اب یہ ہمارا کام ہے کہ رمضان کے بعد جب بھی دل میں نیکی کیلئے رغبت اور بدی کے خلاف کھٹکا پیدا ہو تو ہم پورے شعور سے متوجہ ہوں۔ اور اپنے جسم سے درست سمت میں وہ کام لیں جن کے لئے رمضان میں اسے تیار کیا گیا ہے۔ رمضان کا بنیادی ہدف انسان میں تقویٰ کی صفت کو پیدا کرنا اور اسے بڑھانا ہے۔ 

تقویٰ : تقویٰ: جس کے انعام کا وعدہ رمضان کے روزوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے، مؤمن کے کردار کے ہر پہلو کو سنوارنے اور اس کی حفاظت کرنے والی شے ہے۔ البتہ! اس کردار کے کچھ شعبے ایسے ہیں جن کی تقویت میں ان روزوں کا خاص اور براہِ راست اثر ہے، اور یہ شعبے پھر مؤمن کی باقی زندگی کو بالواسطہ متأثر کرتے ہیں۔ اب ہم ان شاء اللہ! ذیل میں ان شعبوں کے بارے میں مختصر تعارف حاصل کریں گے، تاکہ انہیں بعد از رمضان نظر انداز نہ کیا جائے۔ 
تعلق مع اللہ : کہتے ہیں جس چیز کے لئے جان، مال اور وقت لگتا ہے اس کی اہمیت اور محبت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ مسلسل پورا ماہ جن مشقوں اور مشقتوں سے مسلمان گزرتا ہے، یہ اس کی اللہ کی ذات سے محبت و تعلق کو بہت زیادہ قوی تر کر دیتی ہیں۔ اب رمضان کے بعد بھی اس تعلق کو ہمہ وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے اور ذاتی خواہشات سے اس کو بچاتے رہنے کی ضرورت ہے، یعنی ہم ہر معاملے میں اللہ رب العزت کی منشا کو ترجیح دیں گے، اگرچہ بظاہر اپنا نقصان ہوتا ہوا نظر آئے اور اس کے دین کو سنت طریقے پر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں لانے کی کوشش کریں گے۔ 
اخلاص: اخلاص کا معنی ہے کسی شے کو ہر دوسری شے کی آمیزش سے پاک کر دینا۔ اصطلاحاً : امام راغب اصفہانیؒ نے اخلاص کی تعریف فرمائی ہے کہ: اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی)کے علاوہ ہر ایک کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی)سے بری ہو جائے۔ اخلاص تمام اعمال کی بنیاد ہے، اس کے بغیر کوئی عمل میزان تک نہیں پہنچ سکتا۔ 
 دیکھئے!کیسے ایک مسلمان کو صرف اللہ پاک کی رِضا کے لئے مخلِص ہو جانے کی مشق سے گزارا جاتا ہے؛ اور یہی کیفیت غیررمضان کا تقاضا بن جاتی ہے، یعنی : اب جو بھی کام کیا جائے، محض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی غرض سے ہی کیا جائے۔ اور جب بھی کسی کام کے کرنے میں کوئی اور غرض سامنے آئے، ہم فوراً چوکنا ہو کر اپنی اصلاحِ نیت کی کوشش میں لگ جائیں۔ ہم ہر کام میں سے عدم اخلاص کی درج بالا تینوں وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ باقی ان شاء اللہ جب آدمی اخلاص کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ پاک بڑی رہنمائی فرماتے ہیں۔ 
عبادات : اس سالانہ تربیتی پروگرام میں مؤمنین کی کامیابی کے لئے اللہ رب العزت نے ایک دلچسپ اُسلوب اختیار فرمایا ہے۔ اللہ جل جلالہ نے مسلمان کو نیکیوں پر لانے اور گناہوں سے ہٹانے کے لئے ان سے متعلق ایسے امور کو بنیاد بنایا ہے جو عموماًبہت چھوٹے سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہ کہ نیکیوں کی تربیت کے لئے مسلمان کو ایسے امور پر کھڑا کیا ہے جو فرض نوعیت کے نہیں، اور بعض گناہوں کی شدت کے پیش نظر اسے جائز اور حلال امور سے بھی روک دیا ہے، مثلاً:
  آپ جانتے ہیں کہ دین میں نماز کی کتنی اہمیت بتلائی گئی ہے، چنانچہ اس کی قبیل سے تراویح کی نماز، جو کہ فرض درجہ کی نہیں، کو بہت اہمیت اور حیثیت دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ پابندی لگا دی کہ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے متوجہ ہو کرغور سے سنو۔ اس طرح عبادتِ نماز کے ساتھ ایک قلبی لگاؤ پیدا کر دیا۔ بات صرف اتنی ہی نہیں، بلکہ نماز کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں ایسا بتلایا ہے جیسے جسم پر سرہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، الرقم: ۸۱۳) 
 لہٰذا جسے پورا ماہ روزانہ اس عبادت میں سے گزرتے ہوئے نماز کا شوق ہو گیا ہو اور رکوع و سجود کی لذت سے وہ آشنا ہو گیا ہو اور پھر رمضان گزرتے ہی وہ اس سے لاپروائی برتنے لگے تو اپناہی نقصان اور اپنی ہی کم بختی ہے۔ 
انفاق فی سبیل اللہ : اسی طرح دین نے رمضان المبارک میں صدقۃ الفطر یعنی فطرانہ متعارف کرایا۔ یہ صدقہ صاحبِ حیثیت افراد پر، نمازِ عید الفطر سے پہلے پہلے، مستحقین کو ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ رمضان کی برکت سے پیدا ہونے والی اس مبارک کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے رمضان کے بعد والی زندگی میں بھی حتی المقدور اللہ کے راستے میں اللہ کی مخلوق پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ 
اَخلاق اور حسنِ معاشرت: زیرِ مطالعہ یہی اسلوبِ تربیت ایک مسلمان کے انفرادی اَخلاق کی تعمیر اور اجتماعی حسنِ معاشرت میں بھی کارفرما ہے۔ ایک بہت چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ عام دنوں کی طرح رمضان میں بھی لوگوں کے گھر اور کاروبار کی ذمہ داریوں کے اوقاتِ کار مختلف ہی ہوتے ہیں، پھر بھی اس ماہ میں روزانہ گھر کے تمام افراد اکٹھے ایک دستر خوان پر موجود ہوتے ہیں تو کیا اس ترتیب کو اپنی عمومی زندگی میں لاگو کرنے سے ہر کنبے کے افراد میں باہمی محبت اور تعلق میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوگا؟! 
 شریعتِ حَسَنہ کی یہ چھوٹی چھوٹی ترغیبات ہم سے تقاضا کر رہی ہیں کہ ہم رمضان کے بعد بھی اپنی زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت کی روشنی میں ان صفات کے مطابق ڈھالیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK