Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلام اور شریعت ِاسلامی کا اصل موضوع انسان اور اس کی فطرت ہے

Updated: March 01, 2024, 3:04 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

شرع اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل کا متوازن اور مناسب حل پیش کرتا ہو۔

Worship is related to God and the servant, in which bowing the head without understanding is a sign of true consent and obedience. Photo: INN
عبادات کا تعلق خدا اور بندےسے ہے جس میں بغیر سمجھے سر جھکا دینا ہی حقیقی رضاجوئی اور فرمانبرداری کی علامت ہے۔ تصویر : آئی این این


اسلام کی دو وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اس کو دوسرے تمام الہامی اور غیرالہامی مذاہب کے خودسا ختہ جدید و قدیم نظام ہائے زندگی سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان خصوصیات کا سمجھنا از حد ضروری ہے۔ 
فقہ اسلامی کی جامعیت
  پہلی بات یہ ہے کہ اسلام ایک ہمہ گیر اور جامع دستور ہے جس سے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ باہر نہیں ہے۔ شخصی اور عائلی مسائل، معاشیات، سیاسیات، تعزیری اور فوجداری، جنگی اور دفاعی احکام، خارجہ اور داخلہ پالیسی، بین الاقوامی روابط و سلامتی کے قوانین، ریاستی نظام اور ریاست و فرد کے باہمی روابط، اخلاقی ہدایات، عصری مصالح اور عرف و رواج کی رعایت اور ان ضرورتوں کا حل … قانون کے یہ سارے شعبے، ان شعبوں کی تفصیلات اور اس سلسلے میں بنیادی اصول و قواعد اس نے اس خوبی سے پیش کردیئے ہیں اور ان کو باہم اتنا مربوط اور متوازن رکھا ہے کہ ان پر ادنیٰ نگاہ رکھنے والا بھی یہ ماننے کو تیار نہ ہوگا کہ اسلام محض خلوت اور نجی زندگی کا دین ہے، جلوت اور اجتماعی مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ 
اسلامی قانون کی ابدیت
  دوسری بات یہ ہے کہ اس کی افادیت کسی خاص زمانہ اور عہد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ انسانی مسائل کو حل کرنے کی اس کی صلاحیت اور افادیت ابدی اور لافانی ہے۔ وقت کے بدلتے ہوئے حالات اور سماج کی تغیر پزیر روش اس کے مضبوط قانونی حصار کو کوئی زک نہیں پہنچا سکتی۔ اس نے جس طرح آج سے پندرہ سو سال پہلے تشنہ لب اور پیاسی انسانیت کو امن و سکون کا ساحل دیا تھا اور مردم خوروں اور خوں آشاموں کو انسانیت کا پاسبان اور نگہبان بنا کر کھڑا کیا تھا، آج بھی کرسکتا ہے۔ (بیشک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ آل عمران:۱۹)
 یہ اسلام کا دعویٰ اور ایک طویل تاریخ ہے جو اس کی مکمل تصدیق کرتی ہے۔ کم از کم مسلسل گیارہ بارہ سو برسوں تک اس قانون نے دنیا کے ایک عظیم ترین خطہ پر حکومت کی ہے، بے شمار تمدنی اور علمی انقلابات اور سیاسی اور فکری تبدیلیاں دیکھی ہیں، متمدن سے متمدن اور وحشی سے وحشی قوموں کو اپنے دامن میں پناہ دی ہے، علم و تحقیق اور صنعت و ایجاد کی مزاحمت کیا معنی، اس کی امامت کی ہے اور تہذیب کو پروان چڑھایا ہے۔ اس دور میں اہل مغرب کا خیال ہے کہ اب اسلام فرسودہ ہوچکا ہے اور وہ نئی زندگی کا ساتھ نہیں دے سکتا، اگر اس کو باقی رکھنا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کی طرح اپنا دائرۂ اختیار محدود کرلے اور زندگی کے انفرادی اور عباداتی رسوم سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے۔ 
تغیر پزیر اسباب و وسائل، نہ کہ انسانی فطرت
 پھر اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اب حالات بدل چکے ہیں، صنعتی انقلاب اور یورپ سے اٹھنے والی علم و تحقیق کی نئی لہر نے زندگی کی قدریں یکسر تبدیل کردی ہیں۔ اسلام اس وقت آیا جب انسانی تہذیب ناپختہ اور بچپن کی حالت میں تھی، اب تمدن اپنے شباب پر اور دنیا علم و سائنس کے لحاظ سے اوج کمال پر ہے۔ 
  اس بات کو عموماً بڑی قوت اور ناقابل ردّ دلیل کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے حالانکہ یہ محض ایک مغالطہ اور سطحی قسم کا استدلال ہے، دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ جو چیز بدلتی رہی اور بدل رہی ہے وہ کیا ہے؟ کیا انسان کی فطرت بدل گئی ہے؟ اس کے تقاضے تبدیل ہوگئے ہیں ؟ یا محض اسباب و وسائل میں تغیر رونما ہوا ہے اور ذرائع زندگی میں فراوانی آئی ہے؟ اس نکتہ پر جب کوئی شخص غور کرے گا تو اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہے گا کہ شروع سے آج تک دنیا میں جو تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ان کا تعلق محض اسباب و وسائل کی دنیا سے ہے۔ 
  مثال کے طور پر اپنے حقوق، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوشش انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔ یہی چیز ہے جو دشمن کے خلاف دفاع کا محرک بنتی ہے۔ ایک زمانہ میں لوگ اس کے لئے لکڑیوں اور پتھروں کا استعمال کرتے تھے، پھر جب شعور بالغ ہوا اور انسان لوہے کو پگھلا کر مختلف صورتوں میں ڈھالنے پر قادر ہوگیا تو اسی مقصد کے لئے تیر و شمشیر سے کام لیا جانے لگا۔ اسی طرح انسان کا جذبۂ انتقام عقل کی رہنمائی میں مختلف مرحلے طے کرتے ہوئے ان ہلاکت خیز ایجادات تک پہنچ گیا جن کی زد میں آج پوری کائنات اور ساری انسانیت ہے۔ یہاں ہتھیاروں اور اس کی نوعیت میں یقیناً غیرمعمولی تبدیلی عمل میں آئی ہے مگر ظاہر ہے کہ اس کے پس پردہ جو انسانی فطرت کارفرما ہے وہ آج بھی وہی ہے جو کل تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ 
  میں نے یہ محض ایک مثال دی ہے ورنہ جس چیز کے بارے میں چاہیں آپ اس انداز میں تجزیہ کرلیں، آپ محسوس کریں گے کہ تغیر پزیر اسباب ہیں، انسان کی فطرت اپنی جگہ قائم ہے اور اس کو زمانہ کی کہنگی اور وقت کا تیزروسفر بہت یا کچھ نہیں متاثر کرپایا ہے۔ اب یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسلام اور شریعت اسلامی کا اصل موضوع اسباب و وسائل نہیں بلکہ انسان اور اس کی فطرت ہے، تلوار اور نیوکلیر ہتھیار اس کا اصل موضوع بحث نہیں بلکہ وہ انسان کے جذبہ ٔ مدافعت کی ایک معتدل رہنمائی کرتا ہے، اس کی ضرورت اس وقت بھی ہے جب آدمی جنگ کے لئے تلوار استعمال کرتا ہو اور اس وقت بھی ہے جب جدید ترین اسلحہ کو کام میں لائے، بلکہ وسائل جس قدر بڑھتے جائیں گے اسی نسبت سے انسان اپنے امن و سلامتی کیلئے اس کی ہدایات اور رہنمائیوں کا زیادہ ضرورتمند ہوتا جائیگا۔ 
شریعت کی مصلحت سے ہم آہنگی
  اسلامی قانون کی اس ابدیت اور افادیت کا اصل رمز یہ ہے کہ وہ مصلحتوں اور انسانی ضرورتوں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور اسے قبول کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا کوئی حکم نہیں جو عقل و مصلحت کے خلاف اور حکمت و انسانی ضرورت کے منافی ہو۔ قانون شریعت میں بعض مسائل ایسے ضرور ہیں جن کی حکمتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، ایسے مسائل کو اسلامی قانون کے ماہرین ’’تعبدی امور‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ عبادات کے مسائل عام طور پر ’’تعبدی‘‘ ہیں اس لئے کہ ان کا تعلق خدا اور بندےسے ہے جس میں بغیر سمجھے سر جھکا دینا ہی حقیقی رضاجوئی اور فرمانبرداری کی علامت ہے، لیکن یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ مسائل عقل و مصلحت کے بھی خلاف ہیں۔ یہ خلاف عقل نہیں ہیں، یہ ’’ماورائے عقل‘‘ ہیں جن کی حقیقت تک ہماری عقل نارسا نہیں پہنچ پاتی۔ 
اسلامی قانون جامد نہیں 
 چونکہ بعض مسائل میں انسانی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق مصلحتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اس لئے فقہ اسلامی میں ایسی لچک موجود ہے کہ نودریافت شدہ وسائل ِ زندگی، بدلتے ہوئے عرف اور زندگی کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ میں تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے عہد سے ہم آہنگ کیا جاسکے اور یہ سب کتاب و سنت کے حدود اربعہ میں ہو۔ حافظ ابن قیم ؒ نے اپنی گراں قدر تالیف ’’اعلام الموقعین‘‘ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب قائم کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عرف و عادت، حالات و مقاصد اور زمان و مکان میں تبدیلی کی بناء پر مسائل میں اختلاف اور تبدیلی کا بیان…یہ بڑی مفید اور اہم بحث ہے جس سے ناواقفیت کی وجہ سے غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔ شریعت کی اساس اور بنیاد حکمتوں اور مصلحتوں پر ہے اور اسلام سراپا رحمت اور سراپا مصلحت ہے، لہٰذا جب کوئی حکم عدل کے دائرہ سے نکل کر ظلم و زیادتی، رحمت کی حدوں سے گزر کر زحمت، مصلحت کی جگہ خرابی اور کارآمد ہونے کے بجائے بے کار قرار پائے تو وہ شرعی حکم نہیں ہوگا۔ ‘‘
 جدید مسائل کا فقہی حل اور دنیا کے بدلتے ہوئے نظام پر اسلامی قانون کا انطباق ان مسائل میں سے ہے جس کو اس دور کا اہم ترین بنیادی مسئلہ کہا جاسکتا ہے اور شرعِ اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل کا متوازن اور مناسب حل پیش کرتا ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK