’اسراف‘ صرف خرچ کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا بلکہ کھانے، سونے اور بولنے کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے یعنی کھانا ضرورت سے زیادہ کھاتا (یا بناتا) رہے ،نیند کی جائز ضرورت سے تجاوز کرے اور غیرضروری طور پر اپنی بات کو طول دے۔
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 2:03 PM IST | Salman Asif Siddiqui | Mumbai
’اسراف‘ صرف خرچ کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا بلکہ کھانے، سونے اور بولنے کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے یعنی کھانا ضرورت سے زیادہ کھاتا (یا بناتا) رہے ،نیند کی جائز ضرورت سے تجاوز کرے اور غیرضروری طور پر اپنی بات کو طول دے۔
سادگی اس فطری ذوق کا عنوان ہے، جس کے نتیجے میں انسان کسی قدر اطمینان اور اعتماد کے ساتھ ویسا دکھائی دیتا ہے جیسا وہ واقعتاً ہوتا ہے۔ سادگی کسی انسان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو کبر، حرص اور نمائش سے خود کو بچانے کی جدوجہد سے حاصل ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’سادگی ایمان کی دلیل ہے۔ ‘ اس کی برکت سے انسان تصنع، بناوٹ اور تکلفات سے خود کو پاک رکھتے ہوئے اپنے احساسِ جمال کی بہ آسانی تسکین کرتا ہے۔
سادگی بامعنی زندگی کی بہت اہم قدر ہے، جس کا مقصد اس مستقل ذمہ داری کو نبھاتے رہنا ہے کہ اپنی ضروریات کو مختصر اور محدود رکھا جائے اور خواہشات کی اندھی تقلید کے بجائے ان کو پرکھتے رہا جائے۔ سادگی کا تعلق انسان کے مزاج سے بھی ہے اور اس کے طرزِ زندگی سے بھی۔ جب انسان سادگی اختیار کرتا ہے تو وہ نہ تو اپنے نام کے ساتھ القابات سننا چاہتا ہے اور نہ اپنی تعریف ہی قبول کرتا ہے۔ ایسا انسان نہ تو کسی سے مرعوب ہوتا ہے اور نہ کسی کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ کسی انسان کی نفاست اور وقار جب مادی سہاروں کے محتاج نہ رہیں تو سادگی جنم لیتی ہے۔ سادگی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت رکھائو اور رچائو ہے، جو انسان میں انکسار اور وضع داری کو فروغ دیتا ہے۔
سادگی کے راستے کی دیواریں اسراف، نمود، تصنع اور تکلّف ہیں :
’اسراف‘ کا مطلب ہے اعتدال یا میانہ روی چھوڑنا اور حد سے بڑھ جانا۔ دورِ حاضر میں اسراف بولنے، کھانے، سونے سے لے کر اپنے اُوپر خرچ کرنے تک، درحقیقت طرزِ زندگی کے بے شمار معاملات میں ہورہا ہے، یعنی لوگ کسی بھی معاملے میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں، جس کا نہ تو کوئی جواز بنتا ہے اور نہ کوئی اجر۔
’نمود‘ سے مراد اپنی مالی حیثیت اور اپنی شان و شوکت کا غیر ضروری دکھاوا یا نمائش ہے۔
’تصنّع‘ کسی بھی غیر ضروری اور غیرفطری طریقۂ کار یا بناوٹی انداز اختیار کرنے کا نام ہے۔
’تکلّف‘ ایک خوب صورت اور معصوم جذبے کے تحت اس بلاجواز اہتمام اور معاملے کا نام ہے، جو غیرضروری مشکل کا باعث بنے۔
اس وقت مسلم معاشرے میں اسراف، نمود، تصنع اور تکلف سے مساجد اور مذہبی اداروں سے لے کر تعلیم یافتہ گھرانوں تک کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی ایک بھی خرابی کا شکار ہوجائے تو وہ آہستہ آہستہ باقی خرابیوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ اسے اپنا یہ خراب عمل بھی اچھا لگنے لگتا ہے اور وہ اس کے حق میں جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ اسراف میں مبتلا لوگوں کے بارے میں قرآن نے خبردار کر دیا کہ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں، انہیں اپنے کرتُوت اسی طرح خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔
(یونس:۱۲)
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مال کے حوالے سے مسلمان کی ذمہ داری صرف جائز کمانا ہی نہیں بلکہ اسے جائز خرچ کرنا بھی ہے۔ غور کیجئے کہ ربّ کریم نے اپنے کلامِ پاک میں انسانوں کو ان کا حق دینے اور فضول خرچی سے بچنے کا حکم ایک ساتھ دیا ہے۔ ان قرآنی آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم اپنا مال درست جگہ اور درست مقصد میں خرچ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو معاشرہ میں دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے:
’’ رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین او ر مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۶-۲۷)
’اسراف‘ کی ایک شکل یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں آرام اور سہولت اپنی جائز حد سے تجاوز کرجائے اور زندگی پُرتعیش ہوجائے۔ قرآن نے اس حوالے سے واضح احکام دیئے ہیں کہ حرام کیا ہے اور اس کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن ’اسراف‘ سے بچنے کا معاملہ انسان کے شعور پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ سیرتِ رسولؐ سے اصول اخذ کرتا رہے اور اپنے معاملات کا خود ہی جائزہ لیتے ہوئے خود کو حد کے اندر رکھنے کے لئے ان اصولوں کا انطباق کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ’نازونعم کی زندگی سے بچنا، کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم کی زندگی نہیں گزارا کرتے۔ ‘ (مسنداحمد، رقم:۲۲۱۰۵) غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاذؓ، رسول ؐ اللہ کے تربیت یافتہ اور قریبی صحابی تھے اور ایک اہم سرکاری منصب پروہاں تعینات کئے گئے تھے۔ تعیشات جس طرح کسی عام انسان کو بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہیں، توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے جلیل القدر صحابی پراثرانداز نہیں ہوسکتی تھیں۔ پھر اعلیٰ منصب کے شایانِ شان وسائلِ تعیش کا مہیا ہوجانا اور ان سے تمتع معاشرے کے لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ بلکہ بہت سے عام لوگوں کے لئے بلاشبہ توقع کے عین مطابق ہوتی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ تعیش اگر حرام نہ بھی ہو تب بھی روحِ بندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے اس سے خود کو بچانے کی کوشش کی جائے۔
خود کو حدکے اندر رکھنے یعنی ’اسراف‘ سے بچنے اور سادگی اختیار کرنے کی ذمہ داری مسلمان پر زندگی کے ہرمعاملے میں ہے۔ ’اسراف‘ صرف خرچ کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا بلکہ کھانے، سونے اور بولنے کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی انسان کھانے کے معاملے میں اس سے زیادہ کھاتا (یا بناتا) رہے جتنی کہ اس کی ضرورت ہے۔ سونے کے معاملے میں اپنی نیند کی جائز ضرورت سے تجاوز کرے۔ بولنے میں غیرضروری طور پر اپنی بات کو طول دے یا ہرمسئلے پر ہرگھڑی کچھ نہ کچھ بولنے کی ضرور کوشش میں رہے، کسی مجلس میں بلاوجہ بولنے اور ہربات پر رائے زنی کی کوشش کرے تو یہ سب اسراف ہی کی صورتیں ہیں۔
مسلم معاشرے میں پائے جانے والے ’اسراف‘ کے دو عمومی اسباب ہیں :
پہلا، اپنے نفس کے مرغوبات کو نہ پہچان سکنا اور بلاسوچے سمجھے اس کی پیروی کرنا ہے۔ یعنی اس کی خوشنودی کے لئے کسی کام کو اس کی اصولی حد سے اس طرح بڑھ کر کرنا کہ اس کے نتیجے میں کسی اور چیز کا اصولی مقام زندگی میں کم ہونے لگے۔
دوسرا، علم نافع اور شعور کی کمی، یعنی اس بات کا تعین ہی نہ کرپانا کہ کسی جائز کام کی انجام دہی کی بھی جائز حد کیا ہوسکتی ہے اور اس حد سے آگے نکل جانے کے کیا نقصانات نفس، معاشرے اور ماحولیات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ ’اسراف‘ کے حوالے سے کس قدر حساس اور محتاط تھے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ ایک دفعہ اپنے بیٹے کے پاس آئے۔ ان کے سامنے پکا ہوا گوشت سجا ہوا تھا۔ انھوں نے یہ دیکھ کر سوال کیا: ’یہ کیا ہے؟‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’مجھے گوشت کھانے کی خواہش تھی تو میں نے خرید لیا۔ ‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’تمہارا جس چیز کو دل چاہے گا تو کیا تم اسے ضرور کھائو گے؟ انسان کے اسراف کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ہروہ چیز کھائے جس کی اس کو چاہت ہو۔ ‘‘(کنزالعمال، رقم: ۳۵۹۱۹)
’اسراف‘ نمود، تصنع اور تکلف کا شکار ہونے کے باعث سادگی لوگوں کے لئے ایک ناگوار معاملہ بن گیا ہے۔ ’انفاق فی سبیل اللہ‘ کا جذبہ اور روح پامال ہورہی ہے۔ انسانی تعلق کی پاکیزگی متاثرہورہی ہے اور اپنائیت کا احساس دشوار تر ہوتاجارہا ہے۔ مسلمانوں کی توانائیاں، وقت، مال اور صلاحیتیں، اسراف، نمود، تصنع اور تکلف میں ضائع ہورہی ہیں اور زندگی پیچیدہ اور بے معنی بنتی جارہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معاملات ریاکاری، حرص، طمع اور حسد کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں جس کا نتیجہ مسلمانوں کی اخلاقی، نفسیاتی اور ایمانی صحت کی خرابی کی شکل میں قدم قدم پر ظاہر ہورہا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اس حوالے سے مسلمانوں کو بہت واضح تنبیہ کی گئی ہے:
’’اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں ) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں ) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ ‘‘ (البقرہ : ۲۶۴)
’اسراف‘ کا شکار ہونے والے انسان کو حُب ِ مال، حُب ِ جاہ، ریاکاری میں مبتلا ہونے اور اخلاص سے محروم ہوجانے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے اور پھر اسے اپنے ’اَسراف‘ پر دوسروں سے تعریفیں سننے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ ریاکاری سے مراد وہ نیکی ہے، جو لوگوں کو دکھانے کےلئے کی جائے۔ حُب ِ مال اور ریاکاری کوئی چھوٹے مسئلے نہیں ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق: ’’مومن کے ایمان کو برباد کرنے اور اس کی تمام نیکیوں کو کھا جانے والے مسائل ہیں۔ ‘‘ (سنن ترمذی، رقم: ۲۳۷۶، صحیح مسلم، رقم: ۴۹۷۲)
سادگی بے بسی اور مجبوری کا سودا یا سمجھوتہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی رضا اور شعور کے ساتھ اختیار کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سادگی کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین