قرآن مجیدکے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہونا چاہئے؟ اس کو ہمیں کیسے پڑھنا چاہئے؟ اس کیلئے قرآن مجید نے ایک ہی لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے تلاوت۔ زیرنظر سطور میں تلاوت کی ۶؍بنیادی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 26, 2024, 12:27 PM IST | Khurram Murad | Mumbai
قرآن مجیدکے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہونا چاہئے؟ اس کو ہمیں کیسے پڑھنا چاہئے؟ اس کیلئے قرآن مجید نے ایک ہی لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے تلاوت۔ زیرنظر سطور میں تلاوت کی ۶؍بنیادی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
قرآن مجید بظاہر ایک عام سی کتاب ہے، انسانوں کی زبان میں لکھی ہوئی، کاغذ پر چھپی ہوئی، دو تختیوں کے درمیان مجلد۔ کسی اور کتاب سے بظاہر کوئی فرق بھی محسوس نہیں ہوتا، لیکن یہ اپنی طرز کی منفرد کتاب ہے، اس کی کوئی مثال ہے، نہ نظیر!
قرآن مجید کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہونا چاہئے؟ اس کو ہمیں کیسے پڑھنا چاہئے؟ اس کے لئے قرآن مجید نے ایک ہی لفظ استعمال کیا ہے اور وہ ہے تلاوت۔ ہم مطالعہ قرآن اور اس طرح کے بہت سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں قرآن کے اتباع میں اسی اصطلاح کو استعمال کررہا ہوں، اگرچہ مطالعہ قرآن کے آداب و شرائط بھی عنوان بنا سکتا تھا۔
تلاوت کا مفہوم
تلاوت کے لفظ سے عام طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آدمی سپارہ اٹھائے، قرآن اٹھائے اور پڑھے، یا نماز میں کھڑا ہو کر تلاوت کرے۔ لیکن تلاوت کا لفظ عربی زبان میں، جس مادے سے نکلا ہے، ت ل و سے، اس کے معنی ہیں پیچھے آنا۔ پڑھنا تو ایک ثانوی عمل ہے۔ آپ غور کریں گے تو دیکھیں گے، پڑھنا تو ایسے ہے کہ ایک حرف کے بعد دوسرا حرف آئے، ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ آئے، ایک آواز کے بعد دوسری آواز آئے۔ اگر حروف کو اُلٹ پلٹ دیں، الفاظ کو اُلٹ پلٹ دیں، جملے اُلٹ پلٹ دیں تو کوئی بات سمجھ میں نہ آئے گی۔ ایک کے بعد دوسرے کا آنا بھی پڑھنے کا اور سمجھنے کا عمل ہے۔ لیکن اس کے معنی کے اندر بڑی وسعت ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ دل و دماغ اس کے پیچھے لگ جائیں، زندگی بھی اس کے پیچھے لگ جائے اور قدم بھی اس کے پیچھے اٹھیں۔ وہی امام ہو، وہی نور ہو، وہی ہدایت ہو، وہی راہ نما ہو۔ آدمی پڑھے تو اُس کا دل بھی اُس کے اندر جذب ہو جائے، آنکھیں بھی اس کے اندر جذب ہو جائیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ، کوئی پہلو تلاوت کے اثر سے خالی نہ رہے۔ تلاوت کے اس عمل سے، جب زبان الفاظ پڑھے گی تو آنکھیں بہنے لگیں گی، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، دل بھی کانپ اٹھے گا، عمل بھی بدل جائے گا اور سوچ میں بھی انقلاب آ جائے گا۔ یہ سب کچھ جب اس کے پیچھے لگ جائیں، تو یہ تلاوت کا عمل ہوگا۔ اس تلاوت کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔
انسان تو ایک بہت نامعلوم سی چیز ہے، ایک زمانہ تھا کہ وہ ناقابل ذکر شے تھا: ’’کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ‘‘ (الدھر : ۱-۲) اگر انسان اپنے آپ کو قرآن کی آغوش میں ڈال دے، سپرد کردے تو وہ اس کو بالکل بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔ اسی چیز کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے کہے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور اُوپر چڑھتا جا، سہولت کے ساتھ، آسانی کے ساتھ۔ لہٰذا اگر اپنے آپ کو قرآن مجید کے سپرد کر دیا جائے تو عظمت و سربلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
تلاوت کی شرائط
تلاوت کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کیلئے کچھ شرائط اور کچھ آداب ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کو مختصراً آپ کے سامنے بیان کروں۔ یوں سمجھئے کہ یہ زاد سفر ہے۔
(۱) اس میں پہلی چیز یہ ایمان ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ کا کلام ہونے پر ایمان تو سب مسلمانوں کا ہے، لیکن اس ایمان کے کچھ مزید عملی تقاضے بھی ہیں جن کے بغیر ایمان ادھورا اور نامکمل ہے۔ اس ایمان کے بغیر یہ کتاب ہدایت اور رہنمائی کا کام نہیں کرتی۔ یہ ایمان سب کے لئے ضروری ہے، رسولؐ کے لئے بھی ایمان رکھنا ضروری ہے: ’’رسول اس ہدایت پر ایمان لائے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے۔ ‘‘ (البقرہ :۲۸۵)
اس تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ بغیر ایمان کے ہدایت کیوں حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ فلسفہ اور منطق کے مسائل ہیں جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ بہرحال پہلی چیز ایمان ہے۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ ایمان کے بعد ہی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے آدمی اس کتاب کیلئے محنت کرنے کو تیار ہوتا ہےاور جو تعلق، شوق اور اضطراب ہونا چاہئے، جو بے چینی ہونی چاہئے، وہ حاصل ہوتی ہے۔
جس کو آدمی اپنا خالق سمجھتا ہو، جس کی رحمت کا اُس کو یقین ہو، جس کی محبت کے اندر وہ غرق ہو، یہی احساس کہ اُسی کا نامہ اور خط میرے پاس آیا ہے، وہ ساری کیفیات پیدا کرتا ہے، جو کہ اس کتاب کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونی چاہئے۔
(۲) دوسری چیز نیت کا اخلاص ہے۔ اس نیت کے علاوہ کہ اللہ سے ہی رہنمائی لینی ہے، اللہ سے قریب ہونا ہے، اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے، کوئی اور نیت قرآن کے بارے میں صحیح نہیں ہوسکتی۔ کوئی اور نیت ہوگی تو وہ گمراہ بھی کر دیگی۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کتابِ ہدایت گمراہ بھی کر دیتی ہے: ’’اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔ ‘‘ (ابراہیم : ۴) ’’اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ ‘‘ (البقرہ :۲۶) تلاوت کے لئے شرائط تو اور بھی ہیں لیکن نیت کا خالص ہونا بنیادی شرط ہے جس پر ایل ایمان کی ازحد توجہ لازمی ہے۔
(۳) تیسری چیز حمد اور شکر ہے۔ اس لئے کہ جو عظیم الشان خزانہ اور نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں تھمائی ہے، ہمارے سپرد کی ہے، اس پر ہمارا دل حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہونا چاہئے: ’’اور وہ کہیں گے کہ تعریف خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا۔ ‘‘ (الاعراف :۴۳)
حمد اور شکر سے ہی سارے دروازے کھلتے ہیں : ’’اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا۔ ‘‘ (ابراہیم :۷) اور جس کو قدر ہی نہ ہو کہ کیا مل رہا ہے، اس کیلئے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دروازے اُسی کیلئے کھلیں گے، اُسی کو ملے گا جس کو قدر ہوگی جو شکر کرے گا۔
(۴) چوتھی چیز یہ اعتماد ہے کہ جو چیز بھی اس کتاب میں ہے، صحیح ہے، وہی میرے لئے نافع ہے، اسی میں میری بھلائی ہے، اسی میں خیر ہے۔ ریب (شک) اور تذبذب، یہ دو مرض کینسر کی طرح کتاب کے ساتھ تعلق کو تباہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی شک یا تذبذب میں مبتلا ہو، تو وہ اس کتاب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ قرآن نے بار بار ایسے لوگوں کی نفی کی ہے، اور اسی لئے آغاز اس طرح کیا ہے کہ لاریب فیہ، اس بات میں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، کوئی شک نہیں ہے۔ جس کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں یا اس کی کسی بھی بات میں ذرا بھی شک ہو، اس کے لئے یہ کتاب ہدایت نہیں ہے۔ جس میں تردد پیدا ہو گیا، وہ بھی اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔
(۵) پانچویں چیز اطاعت ہے، یعنی انسان قرآن کے مطابق اپنے اندر تبدیلی اور تغیر لائے۔ لیکن آدمی جب اطاعت کرے گا تو اس سے گناہ بھی ہوں گے، نافرمانیاں بھی ہوں گی، آدمی پھسل بھی جائے گا، لیکن پہلے سے خود سپردگی کی کیفیت کہ جو یہ کتاب کہے گی، وہ میں کرنے کی کوشش کروں گا، آداب تلاوت میں سے ہے۔ یہ کتاب نکتہ آفرینی یا ذہنی عیاشی کے لئے نہیں ہے۔ یہ کتاب تو شروع سے لے کر آخر تک عمل، کوشش اور محنت و جدوجہد کے لئے آئی ہے۔ یہ کتاب تو آئی ہی اس لئے ہے کہ انسان اس کے پیچھے چلیں، اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں : ’’اے یحییٰ، کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لو۔ ‘‘ (مریم:۱۲) پھر اسی کا چرچا کریں، اسی کے پیچھے چلیں اور قرآن کے مطابق اپنے اندرتبدیلی اور تغیر لائیں۔ یہ اطاعت کا بنیادی تقاضا ہے۔
(۶) چھٹی چیز یہ ہے کہ اس کتاب سے فائدہ اٹھانے میں جوخطرات لاحق ہوں ان سے بچنے کے لئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو۔ شیطا ن تو گھات لگا کر بیٹھے گا۔ اس نے کہا ہے کہ دائیں سے آئوں گا، بائیں سے آئوں گا، آگے سے آئوں گا، پیچھے سے آئوں گا، اور اس طریقے سے، جسے یہ کتاب لے کر آئی ہے، جو لوگ اس پر چلنا چاہیں گے اُن کو ہٹانے کی کوشش کروں گا۔ ایسے میں پھر کون پناہ دے سکتا ہے، کون سہارا دے سکتا ہے، کس کے پاس فصیل اور قلعہ ہے جس میں ہمیں پناہ مل سکتی ہے سوائے اس کے کہ جس نے اس کتاب کو اتارا ہے۔ اس لئے قرآن کہتا ہے کہ جب کتاب پڑھو تو پہلے اللہ کی پناہ مانگ لو: ’’پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔ ‘‘ (النحل :۹۸)
قرآن پڑھنے کے لئے یہ حکم اسی بات کے پیش نظر آیا ہے۔ یہ زندگی کے لئے بڑی نازک اور اہم جستجو اور سفر ہے اور اس سفر میں بڑے خطرات ہیں۔ ان خطرات کا احساس، اُن کا ادراک اور شعور ضروری ہے اور اُن سے بچنے کے لئے تعوذ پڑھنا ناگزیر ہے۔
یہ چھ چیزیں بنیادی لوازمات کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کتاب کے لئے زاد سفر ہیں اور ناگزیر ہیں۔