انسان ہو یا جانور ، گھر ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے۔ زیرنظر مضمون میں گھر کی تعمیر اور اسلامی نقطۂ نظر کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 2:10 PM IST | Dr. Umm Kulthum | Mumbai
انسان ہو یا جانور ، گھر ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے۔ زیرنظر مضمون میں گھر کی تعمیر اور اسلامی نقطۂ نظر کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔
گھر زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ گھر مقامِ رہائش ہی نہیں ایک جائے پناہ بھی ہے جو موسم کی سختیوں اور دیگر خطرات سے حفاظت کرتا ہے۔ تمام جاندار بشمول حشرات الارض، جنگلی درندے، چرندپرند اپنے لئے ایک آشیانہ، ایک مکان، ایک گھرتعمیر کرتے ہیں جہاں وہ آزادی سے رہ سکیں اور آرام و سکون حاصل کرسکیں۔
ہر جانور اپنے خالق رب کریم کی عطا کردہ دانش اور رہنمائی کے مطابق اپنے لئے گھر تعمیر کرتا ہے جو اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہوتا ہے۔ ’بیا‘ کا گھونسلا، مکڑی کا جالا، شہد کی مکھیوں کا چھتہ، چیونٹیوں کے زیرزمین بِل، سب اپنی نوعیت کے لحاظ سے فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ مکڑی خود کو اپنے گھر میں محفوظ اور مطمئن خیال کرتی ہے اگرچہ اس کے گھر کی کمزوری کی گواہی اس کے مالک و خالق رب نے خود دی ہے: ’’اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
(العنکبوت:۴۱)
رب کریم نے ہر جانور کی فطرت میں گھر بنانے کا داعیہ رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی درخت کی ٹہنیوں پر اپنا گھر تعمیر کرتا ہے، کوئی اس کی کھوہ میں۔ کوئی پہاڑوں کے غاروں میں بسیرا کرتا ہے تو کوئی ان کی بلندیوں پر۔ پالتو جانور اپنے گھر خود نہیں بناتے۔ انسان ان کے لئے جو قیام گاہیں بنا دیں وہیں قیام کرلیتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا گھر تمام گھروں سے نرالا ہے۔ یہ ایک گھر ہی نہیں ایک فوڈ فیکٹری ہے، ا سٹورہائوس ہے۔ ہزاروں مکھیوں کو رہائش اور جائے کار مہیا کرنے والی ایک کالونی ہے جس کا نظم و ضبط اپنی مثال آپ ہے۔ شہد کی مکھی نے کسی ماہرتعمیرات سے رہنمائی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عظیم المرتبت خالق کی براہِ راست نگرانی میں اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
’’اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیں، اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ ‘‘ (النحل :۶۸-۶۹)
تمام جانوروں کے گھروں کی بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں :
وہ اپنے گھر راستوں سے ہٹ کر اس طرح بناتے ہیں کہ راہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
وہ ناجائز تجاوزات نہیں کرتے۔
اپنی ضرورت سے بڑا گھر نہیں بناتے۔
ایک دوسرے کی ملکیت کا احترام کرتے ہیں۔ گھر کی ملکیت یا قبضے پر بالعموم ان کے مابین جنگ نہیں ہوتی۔
وہ اپنا گھر خود بناتے ہیں۔ کسی دوسرے کی مدد حاصل نہیں کرتے۔
وہ اپنے گھر کوصاف ستھرا رکھتے ہیں۔
ان خصوصیات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیاری اور فطری خصوصیات ہیں۔
جنت ارضی پر آمد کے ساتھ ہی انسان اپنے لئے موزوں رہائش کی تعمیر وتلاش میں مصروف ہوگیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والا انسان جلد ہی تعمیراتی علوم و فنون میں مہارت بڑھاتا چلا گیا۔ اس عظیم خلاق کی ودیعت کردہ ذہانت اور اہلیت کی بنیاد پر نئی نئی اختراعات کا شوقین غاروں اور گھاس پھوس کے جھونپڑوں سے نکل کر عظیم الشان محلات، باغات، اہرام اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے لگا۔ ماحول، موسم، فیشن اور وقت کے تقاضوں کے مطابق رہائشی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ مکانوں کی تزئین و آرائش میں مسابقت شروع ہو گئی۔ گھر ایک بنیادی ضرورت تھا مگر اب معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا۔ انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو ایک آرام دہ اور شان دار گھر کے لئے قرار پانے لگی۔ جہاں سے اسے تحفظ حاصل ہو جو اس کی خلوتوں کا پردہ پوش، اس کے وقار اور ذوق کا آئینہ دار ہو!
گھر کی چار دیواری میں ایک شخص کی اپنی سلطنت ہے جہاں کا وہ خود حاکم ہے، اس کو اپنی من مانی کی آزادی ہے۔ گھر کے معاملے میں انسان کی ضرورت کی کوئی حد نہیں۔ کہیں تو ایک مختصر سا گھاس پھونس کا جھوپڑا اس کی تمام ضروریات کیلئے کافی نظرآتا ہے اور کہیں کئی ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض محلات بھی اس کی طمع کی تسکین سے قاصر ہوتے ہیں جن کی تزئین و آرائش اور انتظام و انصرام پر ہی لاکھوں روپے ماہانہ اٹھ جاتے ہیں اور پھر معیار برقرار رکھنے کیلئے مزید لاکھوں درکار ہوتے ہیں۔
انسانی ضروریات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک آراستہ و پیراستہ گھر ان کی تکمیل سے قاصر ہے۔ وہ گردونواح میں ایک پوری بستی کا محتاج ہے، دوسرے انسانوں کے تعاون کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مختلف گھروں کی تعمیرسے ایک ماحول وجود میں آتا ہے۔ ایک ماحولاور ایک معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لئے راحت رساں ہوتے ہیں اور باعث آزار بھی! اچھی بستی اور معاشرہ وہ ہے جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے لئے زیادہ سے زیادہ مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کو دکھ دینے والے نہ ہوں۔ اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول یہی ہے:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ ‘‘
بستیوں کی اس بنیادی ضرورت کے پیشِ نظرایک مہذب معاشرے میں انسانوں کی بودوباش اور تعمیروتشکیل کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کر دیئے جاتے ہیں تاکہ افراد ایک دوسرے کے لئے باعث راحت ہوں۔
اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض میں ایک خوب صورت توازن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کے انفرادی تشخص اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایسے ضوابط اور حدود کا پابند بناتا ہے کہ اس کی یہ خودمختاری کسی دوسرے فرد کے لئے باعث رنج نہ ہو۔ وہ انسان کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لئے اپنے اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہے۔ جواب دہی کا یہ احساس معاشرتی زندگی میں انسانی عمل کو بے لگام نہیں ہونے دیتا۔ اسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے جو صرف اپنے لئے نہیں جیتا بلکہ پورے معاشرے کے لئے خدمت گزار اور راحت رساں ہوتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو معاشرتی قواعد و ضوابط کا پابند بناتا ہے۔ (آئندہ ہفتے پڑھئے: گھروں اور بستیوں کی تعمیر اور اسلامی تعلیمات)