• Sat, 07 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی!

Updated: December 06, 2024, 4:32 PM IST | Sumayya Ramadan | Mumbai

دل کو چھو لینے والی اس سچی روداد کا پہلا حصہ نذرِ قارئین ہے۔ یہ ِاِس روداد کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو آئندہ جمعہ کو اسی صفحہ پر ضرور ملاحظہ فرمائیں۔

The reality of prayer is known only to those who pray! Photo: INN
نماز کی حقیقت، نماز پڑھنے والوں کو ہی معلوم ہوتی ہے!۔ تصویر : آئی این این

قرآن مجید تو عمل ہی کے لئے اُترا ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفرِزندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت بسانا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے ، کتنی جدائیاں ختم ہوئیں ، کتنے گھر تباہ ہوتے ہوتے سلامتی کے گھر بنے ، یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی رہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے ، اس سلسلے میں ایک بہن کا اپناتجربہ اُسی کے الفاظ میں بیان کررہی ہوں :
 ’’مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب مؤذن نماز فجر کے لئے اذان دیتا تو میں غافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں ، مَیں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میں ہوتے تھے ، ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن اس کا قلق رہتا۔ میں نے کئی بار صبح سویرے نماز کیلئے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عملی صورت اختیار نہ کی۔ ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ پھر میں نے بہن سمیہ رمضان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا اور ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے مجھے ذیل کے ارشاد الٰہی کو بار بار دہرانے کی تاکید کی: ’’جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو ، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ ‘‘ (الشعرا ء: ۲۱۸-۲۱۹) 

یہ بھی پڑھئے:نوجوانوں میں شدت پسندی کا بڑھتا رجحان

چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو بار بار دہراتی رہتی اور میں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے اسی طرح دل میں بھی پیوست ہوجائے۔ بالآخر وہ وقت آگیا ، فیصلہ کن وقت ، آیت کے مطابق حرکت اور عمل کرنے کا لمحہ ، اُدھر مؤذن نے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کے کلمات ادا کئے ، اِدھر میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کر دیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی ، شیطان میرے لئے نیند کو خوشگوار بناکر پیش کر رہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بناکر دکھا رہا تھا۔ اُدھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ ، اب مؤذن میرے رسولِ محترم کا ذکر کر رہا تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کو بیان کر رہا تھا ، اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ۔ اس کے بعد مؤذن مجھ سے مخاطب ہوکر نماز کیلئے بلا رہا تھا ، حیّ علی الصلاۃ ، حیّ علی الصلاۃ۔ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے حیّ علی الفلاح۔ مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات اور جس آیت کو بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا ، مجھے نماز کے لئے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے دھل چکی تھی۔ میں نے اللہ رحمٰن کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے بیدار ہوتے ہی میں یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے ، بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اُس کے قرب کا احساس ہوا تو میں وضو کیلئے لپکی۔ نماز فجر ادا کرنے کیلئے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ 
 یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی ، کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ کا شکر ہے ، وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے ، میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میں اپنی سُستی و کاہلی کے سبب اب تک صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی تھی۔ میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں بروقت ادا کرنے کی توفیق دے۔ 

یہ بھی پڑھئے:محبت ِ الٰہی اور محبت ِ رسولؐ پر مبنی زندگی اور اس کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں؟

میں نماز پڑھ کے بیٹھی تھی، اور گزشتہ زندگی کے بیتے ہوئے شب و روز کی یہ فلم میرے ذہن کی اسکرین پر چل رہی تھی کہ یکایک اپنے خاوند کے خراٹوں سے چونک پڑی۔ مناظر دھندلا گئے۔ میرارفیق ِزندگی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اُسے جگائوں، اُسے نماز کیلئے بیدار کروں اور اپنا قصہ بھی سنائوں۔ میں نے اُسے اُس کا نام لے کر نہیں جگایا، جیساکہ میرامعمول تھا بلکہ میں نے آج اس کے کندھوں پر جھک کر قدرے بلند آواز سے یہ آیت پڑھی:
(ترجمہ): ’’جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ ‘‘ (الشعراء:۲۱۹۔ ۲۱۸) یہ آیت سن کر میرے خاوند اُٹھے، وضو کیا، نماز پڑھی اور پھر آکر میرے پاس بیٹھ گئے اور کہنے لگے :آج کی صبح کتنی مبارک اور کس قدر حسین ہے کہ آج مجھے تم سے قرآن سننے کا موقع ملا، میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: خوش قسمتی تو میری ہے کہ میں نے آج مؤذن کی اذان پر بیدار ہوکر قرآن کی آیت پر عمل کیا ہے، خوش قسمت تو میں ہوں کہ میں نے آج تمہیں پہلی بار نمازِ فجر پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر میرے شوہر کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھا۔ اُنہوں نے کہا: میں تمہیں ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔ 
 کل گھر واپس آتے ہوئے میں اپنی گاڑی میں نصب ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ وہ سوئی قرآن چینل پر آکر رک گئی۔ میں نے چاہا کہ اس اسٹیشن سے سوئی کو ہٹا دوں مگر میں ایسا نہ کرسکا کیونکہ ٹریفک پولیس نے مجھے گاڑی روکنے کے لئے اشارہ کیا تھا۔ گاڑی جب دوبارہ چلائی تو قرآن چینل سے اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب تھا۔ جی ہاں، مجھے اُس وقت یہی احساس ہوا کہ اللہ مجھ سے خطاب کر رہا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا کہہ رہا تھا:
 (ترجمہ): ’’ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیساکہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ‘‘ (الزمر ۳۹: ۶۷)
 قرآن کریم کے اس ارشاد نے میرے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیا۔ میں سمندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا، میں نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دیکھا اور پھر سمندر کی جانب دیکھا۔ اس فرق نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سمندر تو کچھ بھی نہیں، اللہ کے ہاتھ میں تو پوری زمین ہے، اللہ کس قدر بڑا ہے؟ میں نے فوراً یہ آیت یاد کرلی، مجھے محسوس ہوا گویا یہ آیت میرے دل میں ہے اور میرا دل اسی کی وجہ سے دھڑک رہا ہے۔ مجھے اپنے پورے جسم میں ایک سکون و حلاوت کا ادراک ہوا، اور میرے پروردگار کا فضل مجھ پر آج اس وقت پورا ہوا جب تم نے قرآن مجید کی آیت پڑھ کر جگایا۔ مجھے تم نے نہیں بلکہ میرے اللہ نے جگایا ہے، نماز فجر ادا کرنے کے لئے۔ 
 یہ روداد سن کر میں نے کہا: مجھے بھی میرے رب نے ہی آیت کریمہ کے ذریعے جگایا ہے۔ میرے اور تمہارے عمل سے یہ آیت زندہ و متحرک ہوئی ہے۔ میرے شوہر نے کہا: میری عمر ۴۰؍ سال سے زائد ہے۔ قرآن میرے گھر میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں قرآن پڑھتا نہیں ہوں۔ میں پڑھتا ہوں، بہت سی سورتیں اور آیتیں حفظ بھی کرلی ہیں مگر میرے اور قرآن کریم کے درمیان ایک رکاوٹ تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا: جی ہاں، یہ رکاوٹ تھی قرآن کے مطابق عمل نہ کرنے کی، قرآن کے مطابق حرکت نہ کرنے کی۔ حضور پاک نبی اکرم ﷺ تو زمین پر چلتا پھرتا قرآن تھے۔ 
 ’’ہم بھی زمین پر چلتے تھے مگر قرآن کے ساتھ نہیں ‘‘ میں نے یہ کہا اور زار و قطار رونے لگی۔ میرے خاوند کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، وہ یک دم اُٹھے اور بچوں کے کمرے کی جانب بڑھے۔ اُنہوں نے کمرے کی بتیاں روشن کیں پھر بجھا دیں۔ چند بار ایسا کیا توبچے نیند سے بیدار ہوگئے۔ اُنہوں نے زور سے اللہ اکبر کہا۔ بچے حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے رفیق زندگی نے بچوں سے کہا: جانتے ہو ہمیں کون ملنے آیا ہے؟ اور ہمیں اب دیکھ رہا ہے؟ اللہ تم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، ان کے والد بڑی ہی میٹھی آواز میں پڑھ رہے تھے: ’’جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ ‘‘ پھر اُنہوں نے اعلان کیا: ’’آج گھر میں نماز پڑھ لو، کل سے ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھنے جایا کریں گے۔ ‘‘ میرے شوہر بچوں کو نماز پڑھتا دیکھتے رہے۔ سب نے نماز پڑھ لی تو ان کا دل مطمئن ہوا۔ پھر ان کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا: ’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیّہ پر (فائز) تھے۔ ‘‘ (مریم:۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔ ‘‘ یہ دہراتے ہوئے انہوں نے دعا کی: ’’یااللہ! مجھ سے راضی ہوجا، مجھے معاف فرما دے، مجھ پر رحم کر۔ ‘‘ پھر مجھ سے کہنے لگے: آج سے تم بچوں کی نگرانی کرو گی اور انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو گی۔ میں نے کہا: یہ میری بات نہیں سنتے، انہیں نماز کا پابند بنانے میں مجھے کافی محنت کرنا پڑے گی۔ میرے خاوند نے مجھے مشورہ دیا کہ تم انہیں اس آیت سے متحرک کرو: ’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیّہ پر (فائز) تھے۔ ‘‘ میں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کا تہیہ کرلیا، میں نے ایک بڑا چارٹ لیا اور یہ آیت جلی خط میں اس پر لکھ دی۔ 
 ہم میں سے ہر ایک اس امر کا محتاج ہے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور دل پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹا دے، دلوں پر لگی مہروں کو کھرچ کھرچ کر پھینک دے۔ دلوں پر غفلت کے پڑے ہوئے پردوں کی وجہ سے ہم سمجھے بغیر قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں۔ ہم نہ تو اُس کی آیتوں پر غور کرتے ہیں، نہ ہی عمل کرتے ہیں۔ ہماری یہ دعوت صرف مسلمان عورتوں کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے! ہم قرآن کا مطالعہ روحِ محمدؐ اور ارواحِ صحابہؓ کے ساتھ کریں۔ وہی جذبہ، وہی ولولہ جو آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ میں تھا، ہمارے اندر آجائے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت یہ عہد کریں کہ یہ نورانی آیات سطور و صفحات سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ہمیں بلا رہی ہیں، پکار رہی ہیں۔ یہ آیتیں خالق و مالک کی وحدانیت کا اعلان کر رہی ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ قرآن جس بات کا ہمیں حکم دے گا ہم اس کی تعمیل کریں گے اور جس بات سے روکے گا اس سے رک جائیں گے، ان شاء اللہ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK