یہ عام مشاہدہ ہے کہ چیزوں کو اچھا یا خراب دیکھ کر سب سے پہلے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نیکوکاروں اور مجرمین کے چہروں کوکس انداز میں بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجئے زیر نظر مضمون۔
EPAPER
Updated: July 05, 2025, 12:53 PM IST | Dr. Muhammad Humayun Yaqoob | Mumbai
یہ عام مشاہدہ ہے کہ چیزوں کو اچھا یا خراب دیکھ کر سب سے پہلے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نیکوکاروں اور مجرمین کے چہروں کوکس انداز میں بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجئے زیر نظر مضمون۔
کہتے ہیں کہ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کا چہرہ اُترا ہوا ہے، کسی کا بگڑا ہوا ہے، کسی کا چہرہ تمتا رہا ہے تو کسی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ کسی کے چہرے کا رنگ سرخ ہے تو کسی کا زرد وغیرہ۔ انسانی چہرے صرف اس دنیا میں ہی بدلتے رنگوں اور کیفیات کے ساتھ نہ ہوں گے بلکہ آخر ت میں بھی اس طرح کے مناظر دکھائی دیں گے۔ اس کی منظرکشی قرآنِ پاک میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔
نیکوکاروں کے چہرے
’’رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامنِ رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حالت میں رہیں گے۔‘‘ (آل عمران:۱۰۷)
یہ بھی فرمایا گیا: ’’’کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے‘‘ (آل عمران: ۱۰۶) کہیں فرمایا گیا کہ ’’کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے اپنی کارگزاری پر خوش ہوں گے۔ ‘‘ (الغاشیہ :۸-۹) اسی طرح ایمان والوں کے چہروں کا حال دنیا میں بھی بیان کیا گیا کہ ’’سجود کے اثرا ت ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ ‘‘ (الفتح :۲۹)
صاحب ِ ایمان لوگوں کے چہروں کا حال قیامت کے روز کیا ہوگا؟ یہ منظر بھی دیکھ لیں :
’’آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گے۔ ‘‘ (المصطففین:۲۴) گویا ایمان داروں کے چہرے ان کی دلی کیفیات کا مظہر ہوں گے۔ اس کا اثر ان کے پُررونق اور چمکتے دمکتے چہروں سے خوب خوب عیاں ہوگا۔
مجرمین کے چہرے
’’جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمت پانے کے بعد تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا۔ اچھا! اس کفرانِ نعمت کے صلے میں عذاب کا مزا چکھو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۰۶)
یعنی کفار و مجرمین کے چہروں سے جہالت و گمراہی کی سیاہی ٹپک رہی ہوگی اور ہیبت و دبدبے کی وجہ سے ان کی رنگت اُڑی جارہی ہوگی۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘ (یونس :۲۷)۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ: ’’اور آپ قیامت کے دن اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا ہے دیکھیں گے کہ اُن کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا تکّبر کرنے والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے؟، (الزمر:۶۰)
عذاب کو دیکھ کر چہرے کے تاثرات
منکرینِ حق جب روزِ قیامت عذاب کو دیکھ لیں گے، انہیں اپنی شامت صاف دکھائی دینے لگے گی اور پھر ان کے چہرے بھی ان کی دلی کیفیت کی چغلی کھا رہے ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے کہ دنیا میں وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز، بڑی بڑی جاگیروں کے مالک، سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ عیش و عشرت میں پلے بڑھے۔ یہی مال و دولت، عیش و عشرت ان کے قبولِ حق کی راہ میں دیوار ثابت ہوا۔ آخرت میں جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی انھیں صاف دکھائی دے گا تو چہرے بھی عجیب منظر پیش کر رہے ہوں گے۔
آیئے ان چہروں کا حال جاننے کے لیے قرآنِ حکیم کی ورق گردانی کیجئے۔ فرمایا گیا: ’’اس دن کتنے ہی چہرے ذلیل و خوار ہوں گے، (اﷲ کو بھول کر دنیاوی) محنت کرنے والے (چند روزہ عیش و آرام کی خاطر سخت) مشقتیں جھیلنے والے۔ ‘‘ (الغاشیہ:۲-۳)
اسی طرح فرمایا گیا:
’’اور کتنے ہی چہرے اُس دن بگڑی ہوئی حالت میں (مایوس اور سیاہ) ہوں گے، یہ گمان کرتے ہوں گے کہ اُن کے ساتھ ایسی سختی کی جائے گی جو اُن کی کمر توڑ دے گی۔ ‘‘ (القیامۃ:۲۴-۲۵)
مزید تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا کہ: ’’پھر جب یہ اس چیز کو قریب دیکھ لیں گے تو ان سب لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے۔ ‘‘ (الملک۶۷:۲۷) یہ حالت ان کی دنیا میں بھی ہوتی تھی۔ جب وہ کلامِ پاک سنتے تھے، بجاے اس کے کہ وہ اس سے نصیحت قبول کریں اُلٹا وہ ان کیلئے گراں ثابت ہوتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا:
’’اور جب ان (کافروں ) پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں (تو) آپ ان کافروں کے چہروں میں ناپسندیدگی (و ناگواری کے آثار) صاف دیکھ سکتے ہیں۔ ‘‘ (الحج :۷۲)
اب آخرت میں محض ان کے چہرے ہی خوف زدہ نہیں ہوں گے بلکہ خوف و ہراس اور ہذیان کی عجیب کیفیت ہوگی جس کا عبرت ناک منظر اس آیت مبارکہ میں دکھائی دیتا ہے کہ:
’’وہ لوگ (میدانِ حشر کی طرف) اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑتے جا رہے ہوں گے اس حال میں کہ ان کی پلکیں بھی نہ جھپکتی ہوں گی اور ان کے دل سکت سے خالی ہو رہے ہوں گے۔ ‘‘ (ابراھیم :۴۳)
دنیا میں منکرین کے چہرے
قرآنِ حکیم منکرین کے چہروں کا حال بھی بیان کرتاہے جو حق کی صدا اور نیکی کی پکار سن کر بگڑنے لگتے ہیں اور قرآن کی باتیں ان کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہیں۔ اس حالت کا جو نقشہ سورئہ حج کی آیت ۷۲ میں کھینچا گیا ہے وہ اُوپر گزر چکا ہے۔ دیگر مقامات پر بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے:’’ ان سے کہو یہ ایک بڑی خبر ہے جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو۔ ‘‘ (صٓ:۶۷-۶۸)
’’آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ‘‘ (المدثر:۴۹) اسی منہ پھیرنے اور حق سے انکار کی سزا تو جہنم ہے جس کا ذکر یوں کیا گیا ہے کہ: ’’اس میں نہیں جھلسے گا مگر وہ انتہائی بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔ ‘‘ (الیل :۱۵-۱۶) ان چہروں کا کچھ بھی عبرت ناک انجام ہوسکتا ہے جیساکہ فرمایا گیا کہ’’اور ہم جب چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں۔ ‘‘(الدھر۷۶:۲۸) آخرت میں ایسے بدبخت چہرے ہی الم ناک اور رُسوا کن عذاب سے دوچار ہوں گے۔
(باقی آئندہ ہفتے)