ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ہم نماز پڑھنے آتے ہیں لیکن دل ظالم کو ساتھ نہیں لاتے۔ وہ گھر پر ہوتا ہے یا دکان میں اَٹکا ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کسی اور محفل میں۔ جب تک ہم اسے ساتھ نہیں لائیں گے نماز کیسے ادا ہوگی۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 5:11 PM IST | Qari Muhammad Ashraf Hashmi | Mumbai
ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ہم نماز پڑھنے آتے ہیں لیکن دل ظالم کو ساتھ نہیں لاتے۔ وہ گھر پر ہوتا ہے یا دکان میں اَٹکا ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کسی اور محفل میں۔ جب تک ہم اسے ساتھ نہیں لائیں گے نماز کیسے ادا ہوگی۔
ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ہم نماز پڑھنے آتے ہیں لیکن دل ظالم کو ساتھ نہیں لاتے۔ وہ گھر پر ہوتا ہے یا دکان میں اَٹکا ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کسی اور محفل میں۔ جب تک ہم اسے ساتھ نہیں لائیں گے نماز کیسے ادا ہوگی۔
قرآنِ مجید میں جہاں سُکرٰی (نشہ) کی بات کی گئی ہے وہ چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن بہت عظیم فقرہ ہے اور اس میں نماز کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے:
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہئے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ ‘‘ (النساء: ۴۳)۔ اس آیت پر غور کیجئے یہ بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ آپ کسی کو ملازم رکھتے ہیں۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ تمہیں گھر میں جھاڑو دینا ہوگی۔ وہ بڑے ادب سے جی ہاں میں سر ہلا دیتا ہے۔ آپ کچھ اور کام بتاتے ہیں، وہ سر ہلاتا جاتا ہے اور جی ہاں کہتا جاتا ہے۔ آپ اسے جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ سر ہلاتے جارہے ہو، کیا یہ سب کام کر بھی سکو گے؟
اللہ کہتے ہیں کہ تو جو میرے دروازے پر کھڑا ہوا اتنے وعدے کر رہا ہے، یعنی: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ‘‘ (الفاتحہ ۱:۴)، خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی لئے نماز اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کیلئے ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یعنی اتنے معاہدے میرے ساتھ کرتا چلا جا رہا ہے، کیا سوچ کر کہہ رہا ہے یا ایسے ہی کہے جا رہا ہے۔
یہ بنیادی بات ہے کہ ہم اس کے دروازے پر جائیں تو دل کو ساتھ لے جائیں اور پھر اس محبوب کی تلاش میں نکلیں۔ نماز کی حالت میں بہت سے خیالات آتے ہیں اور ایسے میں اللہ کے خیال کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل ہم تلاش کے اندر مخلص نہیں ہوتے ورنہ تلاش میں مخلص ہونے والا مختلف قسم کے دنیوی جھمیلوں سے نہیں گھبراتا۔
آپ کسی پُرہجوم چوک میں کھڑے ہوں اور کسی دوست کی تلاش میں نکلے ہوں، اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہوں تب بہت سے لوگ آپ کو دیکھ کر سلام کریں گے لیکن آپ نہیں دیکھیں گے۔ وہ بعد میں ملیں گے اور کہیں گے کہ آپ فلاں چوک میں کھڑے تھے، ہم نے بہت ہاتھ ہلایا لیکن آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ آپ نے میری آواز سنی اور میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا۔ واقعتا آپ کے کانوں سے اس کی آواز تو ٹکرا رہی تھی اور آپ اس کے ہاتھ کو دیکھ رہے تھے لیکن کس طرح دیکھ رہے تھے۔ قرآن کہتا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ‘‘ (الحج ۲۲:۴۶)
یہ آنکھیں اندھی نہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوگئے ہیں۔ دل جس کی تلاش کرتا ہے، آنکھیں بھی اسی کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ اس دنیا کے بازار میں آپ اس ایک کی تلاش میں یوں نکلیں کہ ہزاروں گزر جائیں لیکن آپ کی نگاہ میں نہ ٹھہریں، اور جب وہ نظر آئے تو آپ شور مچا دیں کہ ہاں وہی ہے۔ اس انداز میں جب آپ نماز پڑھیں گے تو تخیلات آتے رہیں، انہیں دھکا دے کر کہیں کہ میں تو اسی ایک کی تلاش میں نکلا ہوں۔
انسان کمزور ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خیالات آ بھی جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ دل لگا لینا نقصان دہ ہے۔ آپ کے ہاں مہمان آجائے جو عزیز دوست بھی ہو۔ جب وہ بات کر رہا ہوتو آپ کے بچے آپ سے چمٹ جائیں۔ آپ کبھی اس کی بات سنیں اور کبھی بچوں کو پیار کریں۔ مہمان بات کر رہا ہے اور آپ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے ہیں، تو مہمان اُٹھ کر جانا چاہے گا، کہے گا کہ یہ میری بے عزتی ہے۔ یہ تو بچوں کے ساتھ ہی مصروف ہوگئے ہیں اور میں نے جو بات کی وہ انہوں نے غور سے سنی ہی نہیں۔
اب ایک یہ کیفیت ہے کہ مہمان آیا ہے اور بچے بھی آکر چمٹ گئے ہیں۔ آپ انہیں کہیں کہ بیٹا بات کرلینے دو۔ ادھر سے کوئی دوسرا بچہ آجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیٹے ذرا بیٹھو بات کرلینے دو۔ بچے آرہے ہیں، آپ نے انہیں مارا نہیں یا بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ انھیں ہٹاتے جارہے ہیں اور بات دوست کی سن رہے ہیں۔ دوست اس پر بُرا نہیں منائے گا کہ بچے ہیں، نادان ہیں لیکن وہ تو توجہ کر رہا تھا۔
اگر نماز میں دُنیا کے خیالات اِدھر اُدھر سے آنے لگیں اور باوجود کوشش کے ایسا ہو تو تسلسل کے ساتھ انہیں ہٹاتے رہیں کہ میں اللہ سے بات کر رہا ہوں۔ میں اپنے خدا سے پیار کی بات کر رہا ہوں۔ اگر ہم ادھر منہمک نہ ہوئے تو قابلِ معافی ہیں اور اگر ہم نے ان بچوں سے پیار کرنا شروع کردیا اور مہمان کا خیال نہ کیا، تو وہ کہے گا کہ سارا دن تو ان کے ساتھ رہا ہے اور اب بھی انہی سے سروکار ہے، میرا تو اُس نے خیال ہی نہیں کیا۔ پھر یہ بات ناگوار ہوگی اور مہمان کا ناراض یا خفا ہونا بلاجواز نہیں ہوگا۔
اللہ کے ہاں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ نماز جس شخص کی درست ہوجاتی ہے، اس کا ایمان درست ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی تلاش میں سرگرداں شخص ہی دراصل نماز کا حق ادا کرسکتا ہے ورنہ نماز کا حق ادا ہی نہیں ہوتا، اور جو نماز کا حق ادا کردیتا ہے وہ پھر گناہ کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ گناہ کے راستے پر چل سکے اور جو شخص گناہ کے راستے پر جاتے ہوئے نماز ادا کرتا ہے، کچھ عجب نہیں کہ، رب تعالیٰ اس کی جانب سے نگاہ پھیر لیں۔ اس لئے نماز پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ ادا ہونی چاہئے۔
آپ جانتے ہیں کہ نماز کے اندر جو دعا حکماً لازماً منگوائی گئی ہے وہ صراطِ مستقیم کی دُعا ہے: ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ‘‘ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، اس دُعا کو ہم سے لازماً منگوایا جاتا ہے۔ یہ فقط ایک دعا ہے جو نماز میں مانگی جاتی ہے اور اسی کے لئے فی الواقع ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ میری ملازمت چھوٹ گئی ہے مجھے روزی دے دے، یا مَیں بیمار ہوں مجھے صحت دے دے وغیرہ۔ دراصل ہدایت وہ بنیادی بات ہے جو ہم اللہ سے مانگتے ہیں اور بڑی التجا کر کے مانگتے ہیں۔
ہم کتنے اہتمام سے اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری حمد کرنے آیا ہوں۔ تیرا نام بڑا برکت والا ہے، تیری شان بڑی بلند ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لئے ہیں، تو بڑا مہربان ہے، تو بڑا رحیم ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور تجھ سے سیدھے راستے کی ہدایت چاہتا ہوں۔
جب اندر سے آواز آتی ہے
جب بندہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتا ہے اور دکان پر بیٹھ کر ترازو پکڑ کر ڈنڈی مارنے لگتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے۔ تو‘ نے صبح مجھ سے پوچھا تھا نا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ یہ غلط راستہ ہے، ُتو غلط راستے پر چل نکلا ہے۔ جب ڈنڈی مار کر دو پیسے بچا لیتا ہے تو پھر اسی طرح نمازِظہر میں اللہ سے سیدھا راستہ مانگتا ہے۔ پھر دفتر میں بیٹھا ہے اور کسی نے ۱۰۰؍ کا نوٹ رشوت کے طور پر دے دیا، یا جیب میں ڈال دیا تو دل لرزا کہ یہ رشوت ہے، حرام ہے، یہ سیدھا راستہ نہیں ہے لیکن رکھ لیتا ہے کہ اللہ معاف کردے گا۔ اَسْتَغْفِرُاللہَ پڑھ لیتا ہے۔
عصر کی نماز میں پھر آکر کھڑا ہوتا ہے اور پھر خلوص سے کہتا ہے کہ اللہ سیدھا راستہ کس طرف ہے؟ پھر جب باہر نکلتا ہے تو کسی کی غیبت، کسی پر بہتان، کہیں جھوٹ اور کسی سے زیادتی۔ اندر سے مسلسل آواز آرہی ہے کہ غلط چل رہا ہے، سیدھا راستہ تو اس طرف ہے، تو کس طرف جا رہا ہے؟
اب بتایئے یہ تماشا کب تک رہے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ وہی نماز گندے چیتھڑے کی طرح منہ پر دے ماری جائے گی اور وہ نماز خود کہے گی کہ تجھے خدا اس طرح خراب کرے جیسے تُو نے مجھے خراب کیا ہے۔
اللہ سے تعلق کی کیفیت
جب تک نماز کا حق ادا نہیں ہوگا، نماز اثرانداز نہیں ہوگی۔ اگر ہم نماز کا حق ادا کردیں تو پھر دیکھئے کہ ایک نماز پڑھنے والے کی کیا شان ہے! یقین کیجئے جب حجابات اُٹھ جائیں تو صرف ایک نماز کے اندر کائنات ساری کی ساری ہی بدلتی نظر آئے گی۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔
حضوؐر نمازِ فجر ادا کر مسجد سے نکلے تو حضرت حارثہؓ سے ملاقات ہوگئی۔ پوچھا: حارثہ! صبح کیسی ہوئی؟ اے حارثہ! ایمان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں، تو بتا تیرے ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ کہنے لگے: یارسولؐ اللہ! جنتی جنت کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور دوزخی دوزخ کی طرف، اور میں ہرروز اپنے آپ کو عرشِ معلی کے قریب ہوتا ہوا پاتا ہوں۔ پھر یہ ایمان نصیب ہوتا ہے!
یہ تب ممکن ہے جب وہ فاصلہ صراطِ مستقیم کی طرف طے کرے۔ جب وہ چل ہی اس کے مخالف رہا ہے تو صراطِ مستقیم نصیب ہونے کی بات تو نہ ہوئی۔ عرش کے قریب تو وہ تب ہوتا جب چل ہی اس راستے کی طرف رہا ہو۔ پھر اس راستے پر چلتا رہے اور رب سے برابر ہدایت مانگتا رہے۔ اللہ سے ہدایت و استقامت مانگنی پڑے گی۔
ایک شخص تیرنا نہیں جانتا، اگر کسی تیراک نے اس کا بازو پکڑ لیا ہے تو وہ بار بار کہے گا کہ دیکھو میرا بازو نہ چھوڑ دینا، میں تیرنا نہیں جانتا۔ میں تو محتاج ہوں۔ اگر وہ کہے کہ ٹانگیں سیدھی رکھو تو وہ ٹانگیں سیدھی رکھے گا۔ اگر وہ کہے کہ سمیٹ لو تو سمیٹ لے گا۔ وہ کہے کہ چپ ہو جائو تو چپ ہوجائے گا۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا توپانی میں ڈوب جائیگا۔
لذتِ عبادت تب ملتی ہے
ہم اللہ سے جب سیدھا راستہ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو بازو پکڑ کر سیدھے راستے پر لے جارہا ہے، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کہے کہ ٹانگیں سمیٹ لو تو ہم پھیلا دیں۔ وہ کہے کہ زبان بند کرلو تو ہم کھول دیں ۔ وہ کہے کہ جھوٹ نہ بولو اور ہم جھوٹ بولیں ؟ درحقیقت ہم جس چیز کا اقرار کرتے ہیں عمل اس کے خلاف کرتے ہیں۔ گویا ہم جو کچھ کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر ہم اس کی عظمت کا اعتراف کرتے تو پھر اس کے راستے پر ضرور چلتے۔ پھر ہمیں اس کے راستے پر چلتے ہوئے لطف آتا، اور اس کی طرف بڑھنے میں مزا آتا۔ جب تک یہ کیفیت نہ پیدا ہو، اس وقت تک عبادت کی لذت نصیب نہیں ہوسکتی۔
ہم عبادت رسماً اور عادتاً یعنی بطور عادت کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے عبادت کے طور پر ادا کریں تو یہ سجدہ اللہ کے ہاں بڑا قیمتی ہے۔ ہماری عبادت معیاری ہے یا غیر معیاری، للہیت والی ہے یا اس میں کمی ہے، وہ ہمیں معلوم ہے۔ یہ تو اللہ کی قدردانی ہے۔ وہ واقعتاً قدردان ہے۔ وگرنہ ہماری عبادت کی کیا بساط!۔
خدا دیکھ رہا ہے!
کیا پیاری کیفیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں : ’’عبادت ایسے کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ نہ کرسکو تو یہ تصور کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہاہے۔ ‘‘
یہی تصور غالب آجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ ساری کیفیات بدل جائیں گی۔ یہ تصور بھی ہم دلوں میں نہیں بٹھا سکتے اور نہ غالب آتا ہے۔ اگر کوئی نابینا بھی بادشاہ کے دربار میں ملنے کے لئے آئے، اگرچہ اسے کچھ نظر نہیں آتا، لیکن جب اسے یہ کہا جائے کہ اب بادشاہ تمہارے بالکل سامنے ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے اعضا ڈھیلے پڑجائینگے۔ اس کی گردن ڈھیلی پڑ جائے گی، اس کے قدموں میں فرق آجائے گا اور اس کی آواز دب جائے گی۔ فقط یہ سنتے ہی کہ بادشاہ سامنے ہے، اس پر یہ کیفیت طاری ہوجائے گی۔ ہم نابینا ہی سہی۔ اگر صرف یہ تصور دل میں بٹھا لیں کہ خدا دیکھ رہا ہے تو ہماری عبادت کی کیفیت یکسر بدل جائیگی مگر ہم اس کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر اللہ اپنی عظمت ہمارے دل میں بٹھا دے اور رونے کی توفیق بھی عطا فرما دے تو پھر کیا کہنے!