آج امت مسلمہ کو سب سے زیادہ ضرورت اُسی نرمی کی ہے جو دلوں کو جوڑتی ہے، امت کو متحد کرتی ہے، اور معاشرے کو جنت کا نمونہ بناتی ہے۔
جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے، اس کے گرد محبت اور عزت کا دائرہ قائم ہوجاتا ہے۔ تصویر:آئی این این
اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کی تربیت کرتا ہے۔ یہ دین صرف عبادات یا ظاہری عبادت گاہوں تک محدود نہیں، بلکہ انسانی اخلاق، عادات، گفتار اور رویے تک کو درست کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ انہی اخلاق میں ایک بنیادی خلق نرمی یا رفق ہے، جو مومن کے دل کا سب سے حسین زیور ہے۔ نرمی دراصل انسان کی روحانی بلندی، ایمان کی پختگی اور عقل کی بالیدگی کی علامت ہے۔
نرمی سے مراد یہ ہے کہ انسان دوسروں سے بات کرے تو خوش اخلاقی سے کرے، غصہ آئے تو ضبط کرے، کسی کے ساتھ برتاؤ کرے تو حلم و بردباری کے ساتھ کرے۔ سختی، تلخی اور بداخلاقی انسان کو لوگوں کے دلوں سے گرا دیتی ہے، جبکہ نرمی محبت پیدا کرتی ہے، دلوں کو جوڑتی ہے اور سماج میں سکون و اطمینان کو پروان چڑھاتی ہے۔قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا: ’’یہ اللہ کی رحمت ہی ہے کہ آپ ان کےلئے نرم دل ہوگئے، اور اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘(آل عمران:۱۵۹)
یہ آیت نرمی کی حقیقت کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ نبی ﷺ کا نرم دل اور خوش اخلاق ہونا ہی وہ صفت تھی جس نے عرب کے سخت دل لوگوں کے سینوں میں ایمان کی روشنی پیدا کی۔ یہی نرمی تھی جس نے دشمنوں کو دوست بنایا، اور مخالفوں کو اسلام کے قریب کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو بھی فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے سامنے نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا:’’اور دونوں اس سے نرمی کی بات کہنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘ (سورہ طہٰ:۴۴)
یہ تعلیم ظاہر کرتی ہے کہ نرمی کا دائرہ صرف دوستوں اور اہلِ ایمان تک محدود نہیں، بلکہ دشمنوں اور منکروں کے ساتھ بھی نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ نرمی کا کمال یہ ہے کہ وہ پتھر دل کو بھی پگھلا دیتی ہے، اور سخت ترین مخالف کو بھی غور و فکر پر مجبور کرتی ہے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نرم ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ اور ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا:’’نرمی جس چیز میں ہو، وہ اسے زینت بخشتی ہے، اور جس چیز سے نکال دی جائے وہ بدصورت ہوجاتی ہے۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
یہ احادیث بتاتی ہیں کہ نرمی ایک ایسی صفت ہے جو ہر معاملے میں خیر و برکت لاتی ہے ۔خواہ وہ گھر کا ماحول ہو، دفتر کا نظام ہو، یا دین کی دعوت کا میدان۔ نرمی انسان کے اخلاق کو خوبصورت بناتی ہے اور اس کے وقار کو بڑھاتی ہے۔
نرمی کا سب سے بڑا مظہر نبی ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں نظر آتا ہے۔ آپؐ نے طائف کے پتھر مارنے والوں کے لئے بددعا نہیں کی، بلکہ فرمایا:’’ میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا ہوں جو اللہ کی عبادت کریں۔‘‘
یہ وہ نرمی تھی جس نے دشمنوں کے دلوں میں بھی محبت کی آگ جلا دی۔ فتح مکہ کے دن جب تمام دشمن آپؐ کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے، تو آپؐ نے فرمایا:’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘
یہ وہ موقع تھا جہاں بدلہ لینا آسان تھا، مگر آپ ﷺ نے نرمی، درگزر اور محبت کو ترجیح دی۔
نرمی کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دلوں کو قریب کرتی ہے جبکہ سختی لوگوں کو دور کر دیتی ہے۔ جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے، اس کے گرد محبت اور عزت کا دائرہ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کو دوسروں کی نظر میں محبوب بناتی ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو گھروں میں سکون پیدا کرتی ہے، آپسی تعلقات میں پختگی پیدا کرتی ہے اور معاشرے کو امن و محبت کا گہوارہ بناتی ہے۔
اسلامی معاشرے میں اگر نرمی عام ہوجائے تو نفرت، جھگڑے اور بدگمانیاں خود بخود ختم ہو جائیں۔ اگر ہر شخص دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، تو ہمارے گھروں میں راحت، اداروں میں اتفاق اور امت میں وحدت پیدا ہو جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جہاں نرمی ہوگی، وہاں خیر و برکت ہوگی، اور جہاں سختی ہوگی، وہاں خیر نہیں۔‘‘(مسلم)
مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا کہ نرم خوئی سے اس دنیا میں بہت سے کام آسانی سے ہوجاتے ہیں،یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں انجمن اسلام احمد سیلر اُردو ہائی اسکول میں پڑھاتا تھا۔ روزانہ کی ٹرین کی بھیڑ بھاڑ سے طبیعت سخت پریشان ہوچکی تھی۔ کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ نوکری چھوڑ دوں، مگر اللہ بھلا کرے ہمارے عربی کے محترم استاد کفیل سر کا جنہوں نے ہمیشہ ہمت بندھائی اور تسلی دی۔ تقریباً ساڑھے تین سال ہم نے اسی بھاگ دوڑ میں گزارے۔ایک دن اچانک پیشاب کی شدید تکلیف شروع ہوگئی۔ مختلف ڈاکٹروں سے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ کسی خیرخواہ نے مشورہ دیا کہ کھار اسٹیشن(ممبئی) کے قریب ایک ماہر یورولوجسٹ ہیں، اگر ان سے رجوع کیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔
میں اسکول سے آدھے دن کی چھٹی لے کر نکلا، مگر راستے میں تاخیر ہوگئی اور ڈاکٹر صاحب کے جانے کا وقت قریب آگیا۔ جب کلینک پہنچا تو استقبالیہ پر بیٹھے شخص نے سخت لہجے میں کہا:’’اب ڈاکٹر صاحب کے جانے کا وقت ہوگیا ہے، آپ بہت دیر سے آئے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’بھائی، ہم بہت دور سے آئے ہیں۔‘‘اور نالا سوپارہ سے ممبئی سینٹرل تک کے سفر اور ٹرین کی بھیڑ کا حال سنایا، مگر وہ شخص اپنی بات پر اڑا رہا۔اتنے میں کلینک کا ایک اور ملازم جو ساری گفتگو سن رہا تھا، آگے آیا اور اس نے مراٹھی میں اپنے ساتھی سے کہا:’’میں سر سے بات کرتا ہوں۔‘‘وہ اندر گیا اور ڈاکٹر صاحب کو سارا ماجرا سنایا۔ ڈاکٹر نے فوراً کہا:’’انہیں بلا لو۔‘‘
میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس ملازم کا بھی جس نے نرم دلی کا مظاہرہ کیا۔
نرم مزاجی کمزوری نہیں بلکہ قوتِ اخلاق کی علامت ہے۔ سختی سے لوگ جھک سکتے ہیں مگر دل نہیں بدلتے، مگر نرمی سے دل بھی بدل جاتے ہیں اور رشتے بھی جڑ جاتے ہیں۔
آج امت مسلمہ کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہی نرمی ہے، دعوت میں نرمی، اختلاف میں نرمی، اور تعلقات میں نرمی ۔ یہی نرمی وہ روح ہے جو دلوں کو قریب کرتی ہے، امت کو متحد کرتی ہے، اور معاشرے کو جنت کا نمونہ بناتی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں، اداروں، محفلوں، منبر و محراب، اور روزمرہ کی زندگی کے ہر مرحلے میں نرمی کو اپنا شعار بنائیں۔ کیونکہ نرمی وہ صفت ہے جو مؤمن کو محبوب بناتی ہے اور اللہ کی رحمت کو قریب کر دیتی ہے۔