Inquilab Logo Happiest Places to Work

برکت کی دُعا دیتے وقت اس کے معانی و مفاہیم کا بھی خیال رکھیں

Updated: May 31, 2024, 1:37 PM IST | Maulana Ameeruddin Mehr | Mumbai

یہ کلمہ اسلامی شعار اور مسلم ثقافت کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سنجیدگی اور وقار اور کسی قابلِ قدر بات، کامیابی اور حصولِ نعمت کے موقعے پر ہی بولنا چاہئے۔

Whether the words of blessing are for adults or children or for success, sincerity is also essential. Photo: INN
برکت کے کلمات خواہ بڑوں کے لئے ہوں یا بچوں کے لئے یا پھر کامیابی کیلئے، اس میں اخلاص بھی ضروری ہے۔ تصویر : آئی این این

اسلام نے مسلمانوں کو باہمی سلام کرنے‘ دعا دینے اور خیرو بھلائی چاہنے کیلئے جن کلمات کی تعلیم دی ہے ان میں ایک کلمہ برکت ہے۔ یہ کلمہ بھی سلام کی طرح مسلم معاشرے کا شعار، ثقافت اور عام دعائیہ کلمہ ہے۔ لہٰذا ہر خوشی و شادمانی اور کامیابی و کامرانی کے موقعے پر اور عام سلام کرتے وقت یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے، ثنا میں، تشہد (التحیات) میں اور درود ابراہیمی میں دو مرتبہ کہتا ہے۔ 
پھردعائیہ جملوں اور فقروں میں اسے روزانہ متعدد مرتبہ بولا جاتاہے۔ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جاتا ہے۔ کوئی خوشی کا موقع اور تقریب ہوتی ہے تو اپنے بھائی بہن کو اور دوست و احباب کو مبارکباد کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے۔ کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ، یا، اللہ برکت دے کا جملہ بول کر ما فی الضمیرکا اظہار کرتا ہے۔ کسی بچے کی صلاحیت، لیاقت اور ذہانت ظاہر ہوتی ہے تو برکت کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے، نکاح و شادی ہوتی ہے، اولاد ہوتی ہے، حج و عمرہ کی ادائیگی ہوتی ہے یا کوئی اور خیر و بھلائی نصیب ہوتی ہے تو ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا دی جاتی ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں عموماً بہت سی دعائیں اور دعائیہ کلمات غیرشعوری اور غیرارادی طور پر کہے جاتے ہیں اور کہتے وقت ان کے معانی و مفاہیم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے ہی یہ کلمہ بھی بول دیا جاتا ہے۔ پھر شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ آج کل ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اشیاء سے برکت نکل گئی ہے اور بے برکتی رہ گئی ہے۔ اتنے اسباب، وسائل، مال و متاع اور دھن دولت ہونے کے باوجود برکت نہیں رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: قرآن مجید کائنات میں تخلیق کردہ اشیاء سے بھی انسان کو استفادے کی دعوت دیتا ہے

برکت کا نزول کیسے ہو، اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں، جب کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے اور نہ اس کا دائرۂ اثر اور ہمہ گیریت پیش نظر ہوتی ہے؟ صرف رسم کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے۔ نیز یہ دعائیہ کلمہ کہتے وقت دل کا شعور و احساس بھی ناپید ہوتا ہے جب کہ دعا کے لئے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس اور توجہ سے کی جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غافل دل سے کی گئی دعا قبول نہیں فرماتے۔ 
برکت کے لئے چند آداب
برکت کا کلمہ دعائیہ کلمے اور دعا کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اپنی دعائوں میں اس کے معانی و مفاہیم کو دعا کرتے وقت سامنے رکھنا چاہئے اور دعا کی شرائط و آداب کا پوری طرح لحاظ رکھنا چاہئے، چاہے انسان خود اپنے لئے دعا مانگ رہا ہو یا کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لئے دعا کر رہا ہو، ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ 
آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال و افعال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی گھر آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ جسم اور تلفظ موجود ہے لیکن روح معدوم و مفقود ہے۔ ایک رسم ہے جو مبارکباد یا برکت کے کلمات بول کر ادا کی جا رہی ہے۔ برکت کی دعا کرتے وقت اس کے آداب میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے:
ارادہ: دعا کرتے وقت دعا کا ارادہ اور اس کا تصور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور صلحاء اُمت کی دعا کی کیفیت کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ 
اخلاص: جس کام کے لئے دعا کر رہے ہیں، جس بھائی کے لئے دعا مانگ رہے ہیں اس میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیرونی حالت اور الفاظ تو دعائیہ ہوں اور دل میں اس شخص سے یا اس دعا سے اخلاص نہ ہو (دین خیرخواہی کا نام ہے)۔ 
معانی ومفہوم کا لحاظ: دعائیہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کو سامنے رکھنا چاہئے۔ شعور واحساس کے ساتھ دعاہو۔ جب کسی کی برکت کیلئے دعا مانگ رہے ہوں یا مبارکباد دے رہے ہوں تو برکت کے مادی و حسی اور معنوی و روحانی تصور کو مستحضر کرنا چاہئے۔ 
آج ہماری دعائوں کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ صرف طوطے کی طرح چندبول بولے جاتے ہیں اور ان کے معانی پر دل و دماغ کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔ 
دعا کی قبولیت کا یقین: ہر دعا کی قبولیت کے نتیجے میں چار میں سے کوئی ایک صورت ضرور سامنے آتی ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ دعا میں اوپر بیان کردہ شرائط لازماً موجود ہوں۔ اگر شرائط پوری نہ ہوں تو دعا رد کر دی جاتی ہے اور وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا۔ چار صورتیں یہ ہیں : دعا اپنی اصل حالت میں قبول ہوجاتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہی مل جائے۔ دوم یہ کہ دعا کرنے والے سے، اس پر آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ سوم یہ کہ اس دعا پر کوئی اور عطیہ مل جائے اور چہارم یہ کہ اسے آخرت کے لئے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے کیونکہ کوئی بھی دعا جو شرائط و آداب کے ساتھ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی۔ 
دعا کے کلمات: یہ کلمے سادہ، صاف ہوں اور جس زبان میں کی جا رہی ہو اس کی فصاحت و سلاست اور شستہ زبان سے آدمی دعا کرے۔ تُک بندی، قافیہ بندی اور گفتگو میں تکلف نہیں ہونا چاہئے۔ 
دعا، کس کے لئے: دعا صرف جائز، حلال اور مباح چیزوں اور باتوں کے لئے کی جائے۔ اکثر تاجر اور دکان دار، اشیاء کی قیمت اور سامان کی اصلی قیمت بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تجّار کو اس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد اور ترمذی)
حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے روحانی برکت تو چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سے خیروبھلائی ختم ہوجاتی ہے اور ڈھیروں دولت اور کروڑوں روپے موجود ہونے اورزندگی کے عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود زندگی میں سکون و اطمینان، سُکھ و راحت حاصل نہیں ہوتی، آل اولاد میں فرمانبرداری و اطاعت نہیں رہتی، نیکی کے کاموں کی توفیق نہیں ہوتی اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور آخرکار اس سے مادی و ظاہری برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ 
اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے، اس لئے نسبت بھی اسی سے ہو، اسی کی رضا کو پیش نظر رکھا جائے اور دین و ایمان کے عملی تقاضے بھی پورے کئے جائیں تو جہاں انفرادی زندگی میں خدا کی برکات کو محسوس کیا جا سکے گا، وہاں اجتماعی زندگی میں اور اُمت کی سطح پر دیگر برکات و ثمرات کے علاوہ غلبہ و سربلندی بھی میسرآسکے گی۔ ان شاء اللہ!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK