Inquilab Logo

کرناٹک، بی جے پی اور کانگریس

Updated: April 01, 2023, 10:27 AM IST | Mumbai

جس کا انتظار تھا اُس کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ اس سال ملک کی جن ریاستوں کو انتخابات کا مرحلہ طے کرنا ہے ان میں سے ایک ہے کرناٹک۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 جس کا انتظار تھا اُس کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ اس سال ملک کی جن ریاستوں کو انتخابات کا مرحلہ طے کرنا ہے ان میں سے ایک ہے کرناٹک۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اس اہم جنوبی ریاست میں ۱۰؍ مئی کو ایک مرحلہ میں الیکشن ہوگا جس کا نتیجہ۱۳؍ مئی کو ظاہر کیا جائیگا۔ اب تک اس ریاست سے ملنے والے اشارے بڑی خوشگوار تبدیلی کی نشاندہی کر رہے ہیں حتیٰ کہ اوپینین پول بھی اس کی توثیق کررہے ہیں، مگر کیا ایسا ہوگا؟ کیا ایسا نہیں ہوگا؟ ان سوالوں پر گھنٹوں گفتگو ہوسکتی ہے مگر جواب ملے گا اُسی تاریخ کو جس کا تعین الیکشن کمیشن نے کردیا ہے یعنی ۱۳؍ مئی۔ اس سے قبل جو بھی کہا سنا جائے گا وہ تجزیہ ہوگا، نتیجہ نہیں۔ 
 بی جے پی کیلئے کرناٹک ’’دکشن کا دوار‘‘ ہے۔ دکشن (جنوبی ہند) وطن عزیز کا وہ حصہ  ہے جہاں بی جے پی بہت زور لگانے کے باوجود اپنے قدم جمانے میں ہنوز ناکام ہے۔ کیرل اسے منہ نہیں لگاتا، تمل ناڈو چھٹکتا ہے جبکہ کرناٹک پنڈ چھڑانے کے درپے رہتا ہے۔ ۲۰۱۸ء کے اسمبلی الیکشن میں کرناٹک نے بی جے پی کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ اسی لئے اس پارٹی کو ’’آپریشن لوٹس‘‘ کا سہارا لینا پڑا تھا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے سبب اس کی حکومت تو بن گئی تھی مگر تقدیر نہیں بنی۔ تقدیر بن گئی ہوتی تو پارٹی کو اُن مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن سے نبرد آزمائی میں اس کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ ’’پے سی ایم‘‘ کہلانے والے بسو راج بومئی کی حکومت بدترین کرپشن کے الزام سے باہر نکل نہیں پارہی ہے، کرپشن ہی کے معاملے میں ایک ایم ایل اے کے بیٹے کا قصہ خوب سرخیوں میں رہا، اقتدار مخالف لہر (اینٹی اِن کمبینسی) مستحکم ہے، سابق وزیر اعلیٰ یدی یورپا کی ناراضگی بھی ہنوز قائم ہے، عوام کے کئی طبقات پر خاصا اثر رکھنے والا ایسا لیڈر ناراض ہو تو سمجھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ مودی اور امیت شاہ کی پارٹی سے کسانوں کا رعیت سَنگھ بھی ناخوش ہے، راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کو یہاں غیرمعمولی رسپانس ملا تھا یہ حقیقت بی جے پی کے اراکین بھی نہیں جھٹلا پاتے، اس کی وجہ سے جو فضا بندی ہوئی ہے اس سے بھی بی جے پی کو نقصان پہنچے گا۔ یاد رہنا چاہئے کہ بھارت جوڑو یاترا کو صرف رعیت سَنگھ نے نہیں بلکہ دلت سنگھرش سمیتی اور دیگر عوامی طبقات نے بھی بھرپور حمایت اور تعاون دیا تھا۔ 
 ایک بات اور بہت اہم ہوئی ہے۔ کانگریس نے اپنے صدر کی حیثیت سے  ملکارجن کھرگے کا انتخاب کیا ہے۔ کھرگے، جو ملک کے قابل احترام اور بزرگ لیڈر ہیں، نہ صرف یہ کہ دلت سماج سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اُن کی آبائی ریاست کوئی اور نہیں، کرناٹک ہے۔ وہ دھرتی پُتر ہیں۔ اس کا قابل ذکر فائدہ کانگریس کو ملنے کی اُمید بے جا نہیں۔ بلاشبہ، کانگریس کے پاس وسائل کی کمی ہے مگر جس کے حق میں  عوام کی آمادگی ہو ، کم وسائل اس کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ راہل گاندھی کا لوک سبھا کی رُکنیت سے برخاست کیا جانا ملک بھر میں الگ نظریہ سے دیکھا گیا ہے۔ عوام نے اسے سیاسی رسہ کشی کا نتیجہ نہیں سمجھا بلکہ ایک رکن پارلیمان کے ساتھ زیادتی کے طور پر دیکھا ہے جسے سچ بولنے کی سزا ملی ہے۔ اگر کانگریس نے راہل کو دی گئی سزا کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل نہیں کی  اور ایک ماہ پورا ہونے کے بعد اُنہیں گرفتار کرلیا گیا تو کانگریس کو کرناٹک کا نتیجہ سونے کی طشتری میں  مل سکتا ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK