Inquilab Logo

کرناٹک کا ناٹکی اثر جاری ہے سو رہے گا

Updated: May 23, 2023, 10:21 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

بی جے پی کانگریس کی طرح ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ بی جے پی چیزوں کو چھپا کر رکھتی ہے اور میڈیا اس پر اس کی مدد کرتا ہے۔ کانگریس میں تو اگرکوئی چھوٹا یا بڑا لیڈر باغی ہوجاتا ہے تو چاروں طرف شور مچ جاتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

کرناٹک کے چنائو سے پہلے ان کالموں میں ’اپوزیشن کے اتحاد کے بارے میں مخمصہ کیوں؟‘ کے عنوان سے یہ کہا گیا تھا کہ ملک میں وہ صوبے کم تعداد میںہیں، جہاں کانگریس اور بی جے پی براہ راست ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔یہ صورت حال ہندوستان کے اس خطے میں خاص طور پر ہے جسے گائے بیلٹ بھی کہا جاتا ہے۔ دو تین ایسی ریاستیں جیسے اتر پردیش، بہار،ہریانہ اور اس جیسی ریاستوں میں جہاں آبادی بھی بہت ہے، بی جے پی ان جماعتوں کے مقابل ہے جو علاقائی ہیں اورجواپنی طاقت سے کئی گنازیادہ مضبوط ہیں۔ یہی حال جنوب کا بھی ہے ۔مغربی بنگال میں ٹی ایم سی موجود ہے جو بی جے پی کو ہرا بھی چکی ہے۔ ہم نے ان کالموں میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اگر واقعی بی جے پی کے خلاف کوئی اپوزیشن اتحاد بنانا ہے تو ہر سیاسی جماعتوں کو قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلہ میں کانگریس کو شاید زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔ اسے ہر اس ریاست میں جہاں کئی مضبوط علاقائی پارٹی ہے ، اپنی اوقات کو کچھ کم ہی رکھنا ہوگی۔ہمارا یہ بھی خیال تھا کہ جنوب میں تو یہ پوزیشن ہے کہ ڈی ایم کے اور آندھرا میں جگن ریڈی پہلے ہی سے مضبوط ہیں ، لیکن بنگال ، اتر پردیش اور بہار میں کانگریس کو علاقائی پارٹیوںسے دب کر رہنا ہوگا۔یوں بھی ممتا بنرجی اور نتیش کمار جیسے لیڈر تجربہ کار ہیں اور راج پاٹ کے سلسلہ میں وہ راہل گاندھی سے زیادہ بڑے ہیں۔ اس لئے ان کی انائوں کو دھیان میںرکھنا ہوگا۔لیکن کرناٹک کے چنائونے اس صورت حال کو یکسر الٹ دیا ہے۔
 کسی نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ جب کہیں کوئی بر سر اقتدار پارٹی الیکشن ہارتی ہے تو یہ نہیں کہاجاتا کہ فلاں پارٹی ہار گئی یا فلاں پارٹی جیت گئی، بلکہ یہ کہاجاتا ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی ہار گئی۔کیونکہ اس پارٹی کے پاس اقتدار تھا، وسائل تھے، ایڈمنسٹریشن تھا اور عدالتیں بھی کم و بیش اس کی طرفدار رہتی تھیں، اس کی جیت کی اہمیت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور خامیوں کے بعد بھی الیکشن جیت گئی۔ اس وقت جیت کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔کر ناٹک میں کانگریس کی جیت کہ اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ  اچانک یہاںیوں نہیں لگا کہ بی جے پی الیکشن ہاری ہے بلکہ شور یہ زیادہ ہے کہ کانگریس بی جے پی کو دھوبی کے پٹکے کی طرح اٹھا کر پٹک دیا ہے۔ اسی کے بعد یہ ہوا کہ نتیش کمار نے تقریباًیہ اعلان کر دیا کہ کانگریس اپوزیشن اتحاد کی قیادت بھی کر سکتی ہے اور ممتابنرجی نے کہہ دیا ہے کہ کانگریس جہاں کہیں مضبوط ہے وہ اس کی مدد کریں گی  ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اہم بات ہے ۔ کرناٹک چنائو کا دوسرا اور شاید سب سے زیادہ ناٹکی اثر وزیر اعظم نریندر مودی کی ذات پر ہوا ہے۔ ان کالموں کے پڑھنے والوں کویاد ہوگا کہ ہم انہیں شروع سے ہی بی جے پی کے لئے سب سے بڑی امید اورسب سے بڑی ناامیدی کہتے رہے ہیں۔ وہ جب بی جے پی کو ووٹ دلواتے ہیں تب وہ سب سے بڑی امید کی کرن بن جاتے ہیں ۔لیکن جب بی جے پی یہ دیکھتی ہے کہ نریندر مودی اس کے امیدواروں کو جتا نہیں پا رہے ہیں تو وہ سب سے بڑی نا امیدی کا باعث بن جاتے ہیں۔کرناٹک کی ہار نے اس نا امیدی پر مہر ثبت کر دی ہے۔کر ناٹک میں نریندر مودی نے نہ جانے کس حکمت عملی کے تحت الیکشن مہم کی ساری ذمہ داری اپنے ہی سر اوڑھ لی تھی۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی لیڈر کی تصویر بھی اپنی مہم میں شامل نہیں کی تھی۔ انہوں نے ریاست کے سب سے  معمر لنگایت لیڈر یدی یورپا کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ یقیناً نریندر مودی نے بہت محنت کی تھی۔ انہوں نے کئی ریلیاں بھی کی تھیں۔انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ امیت شاہ بی جے پی کے لئے زحمت بن گئے ہیں۔ نڈا اور یوگی وغیرہ تو پہلے سے ہی تضیع اوقات ثابت ہو رہے تھے۔ جب یوگی کے اپنے جلسوں میں بھیڑ کم ہو رہی تھی توکرناٹک میں ان کو سننے کون جاتا۔نریندر مودی ایک بات اور بھول گئے تھے۔ وہ جے شری رام اور ہنومان کی جے کے نعرے لگاتے لگاتے یہ بھول گئے کہ کرناٹک کے لوگوں کو نندنی دودھ اور امول کی اجارہ داری سے زیادہ دلچسپی تھی۔ 
 بی جے پی کانگریس کی طرح ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ بی جے پی چیزوں کو چھپا کر رکھتی ہے اور میڈیا اس پر اس کی مدد کرتا ہے۔ کانگریس میںتو اگرکوئی چھوٹا یا بڑا لیڈر باغی ہوجاتا ہے تو چاروں طرف شور مچ جاتا ہے، اس کی بغاوت کئی کئی روز میڈیا کی شاہ سرخیوں میں موجود رہتی ہے ۔ لیکن بی جے پی میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پارٹی کی نچلی سطح پر کرناٹک کی ہار کابہت برا اثر پڑا ہے ۔یہ ہار انہیں بہت برا شگون دکھائی دے رہا ہے ۔انہیں یہ فکر ہو رہی ہے کہ کیا مودی طرز کے بجائے انہیں کچھ اوربھی چاہئے۔ ظاہر ہے پارٹی خود بھی اسے چھپا رہی ہے اور اس کے لئے اسے میڈیا سے بھی مدد مل رہی ہے۔جہاں تک پارٹی کی اوپری سطح کا تعلق ہے، کسی لیڈر کی یہ مجال نہیں کہ وہ اس کا ہلکا سا بھی کوئی ذکر کر سکے۔ جی ہاںنتن گڈکری جیسے نام نہاد بڑے لیڈروں کی بھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اس پر کچھ کہہ سکیں۔ 
  بی جے پی ہندو اور مسلمان کو اپنے لئے جادو سمجھتی ہے۔ پارٹی نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان میں سے کوئی بھی پارٹی ہائی کمان یعنی مودی وشاہ کے خلاف زبان بھی نہ کھول سکیں۔ پارٹی کے وہ لیڈر جوتعلیم یافتہ یا دانشور تھے یا تو پارٹی سے نکال دیئے گئے یا خود ہی چھوڑ کر چلے گئے۔اس لئے مودی کی ہار سب کے لئے نیا معاملہ ہے۔ سب سے زیادہ غم اس بات کا ہے کہ کرناٹک میں دھرم کا جذبہ ذرا بھی نہیں ملا۔پارٹی کو اس بات کا کوئی شعور نہیں ہے کہ وہ جس سناتن دھرم کو ہندو ازم سمجھتی ہے، اس کا ملک کے جنوب و مشرق میں دور دور تک کوئی چرچا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دو ہی باتیں لے لیجئے ۔بھگوان رام اور گائے۔ کرناٹک میں ان کے لئے احترام ہے، لیکن شمال میں ان کے لئے جو شدت ہے وہ جنوب اور مشرق میں نہیں ہے۔ یہ ملک بنیاد ی طور پر مذہبی وابستگی کا ملک ہے، لیکن ملک کے ہر حصہ میں خاص طورسے یو پی ،بہار میں اور کسی حد تک مہاراشٹر میں انہیں ایک دوسرے کے خلاف اکسانا جتنا آسان ہے ،دوسرے صوبوں میں نہیںہے۔ کرناٹک میں ٹیپو اور حجاب کے معاملوں سے عوام کی لا تعلقی بی جے پی کے لئے بہت سخت امتحان لگ رہی ہے۔کرناٹک میں اس کا ذکر نہیں ہوا، کیونکہ وہاں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ہم سے پوچھئے تو ہم یہی کہیں گے کہ بی جے پی کو مودی کا بدل ڈھونڈنے کے بجائے ان مسائل کو اپنا موضوع بناناچاہئے جن کا تعلق عوام سے ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK