Inquilab Logo

کرناٹک الیکشن:کیا واقعی دن بدلنے والے ہیں؟

Updated: May 22, 2023, 4:06 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

اسمبلی انتخابات کی اس ناکامی نے بہت چالاکی سے تیار کی گئی اس شبیہ کی قلعی بھی کھول دی ہے کہ بی جےپی ناقابل تسخیر ہے

Congress has also tamed its own internal turmoil admirably
کانگریس نے اپنے اندرونی انتشار پر بھی خوش اسلوبی سے قابو پا لیا ہے

وزیراعظم مودی کامسلسل ۶؍ دنوں تک کرناٹک میں  قیام،  ۱۹؍ ریلیوں سے خطاب، وزارت عظمیٰ کے وقار کو بالائے طاق رکھتےہوئے ۶؍روڈ شو میں شرکت، انتخابی ضابطہ ٔ اخلاق کو نظر انداز کرتے ہوئےجے بجرنگ بلی کے نعروں کا سہارا،دی کیرالا اسٹوری جیسی جھوٹ اور پروپیگنڈہ پر مبنی نفرت پھیلانے والی فلم کی تائید اور انتخابی مقصد کیلئے اس کے استعمال نیز انتخابی مہم میں پوری کابینہ اور وزرائے اعلیٰ کی فوج کو اتاردینے کے باوجود کرناٹک میں بی جےپی جس طرح ہاری ہے،اس نے خود بی جےپی کی مرکزی قیادت کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ حکومت مخالف لہر سے بچنے کیلئے اس نےسٹنگ ایم ایل ایز کا ٹکٹ کاٹ کر نئے چہروں کو اتارنے کا وہ فارمولہ بھی آزمایا جو گجرات میں کارگر ثابت ہوا  تھا مگر جنوبی ہند میں بڑی مشکل سے تیار کیاگیا اپنا قلعہ وہ نہیں بچا سکی۔ کرناٹک کے نتائج نے زعفرانی پارٹی کو جو نقصان پہنچایاہے، وہ نقصان  ۲۰۱۴ء کے بعد اب تک کسی اسمبلی الیکشن  نے نہیں پہنچایا۔ میڈیا نے بھلے ہی نتائج میں بی جےپی کی ناکامی کودیکھتے ہوئے فوراً ٹھیکرا پارٹی صدر جے پی نڈا کے سر پھوڑنے کی کوشش کی ہو اور ان کی تصویر استعمال کرنی شروع کردی ہو مگر ہر کسی نےبلکہ بی جےپی کے کارکنان نے بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ کرناٹک کے عوام نےمودی کو مسترد کیا ہے۔اس ناکامی نے بہت چالاکی سے تیار کی گئی اس شبیہ کی قلعی بھی کھول دی ہے کہ بی جےپی ناقابل تسخیر ہے۔
  اس سے جہاں عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد بڑھا ہے اور وہ ان ریاستوں کی فہرست شیئر کررہاہے جن میں گزشتہ چند برسوں میں بی جےپی ہاری ہے وہیں اپوزیشن پارٹیوں کی بھی ہمت بندھی ہے۔خود بی جےپی کی حالت یہ ہےکہ پارٹی کو ابھی سے۲۰۲۴ء کی فکر ستانے لگی ہے۔ تمام ریاستی اکائیوں کو سرگرم ہوجانے کی ہدایت دے دی گئی ہے۔ اراکین پارلیمان کو اپنے حلقوں میں وقت گزارنے اور’ترقیاتی‘کاموں کا جائزہ لینے کے احکامات صادر ہوگئے ہیں۔ ۳۰؍ مئی سے ۳۰؍ جون تک پورے ملک میں عوامی رابطہ مہم چلانے کافیصلہ کیاگیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کو پھر سرگرم کردیاگیا ہے تاکہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کے طور پر  کچھ اقلیتی ووٹروں کو بھی رام کیاجائے۔ پارٹی کی ریاستی اکائیوں سے تمام اراکین پارلیمان کے رپورٹ کارڈ منگالئے گئے ہیں۔ کرناٹک کی شکل میں جنوبی ہند سے ٹکا سا جواب ملنے کےبعد یہ امید بھی کافور ہوچکی ہے کہ ۲۰۲۴ء میں شمالی ہند میں پارلیمانی سیٹوںکے نقصان کی بھرپائی جنوبی ہند سے  ہوسکتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ساری توجہ شمالی ہندکی ریاستوں پر ہی مرکوز رکھنے کافیصلہ کیا گیاہے۔ باگیشور دھام والے خود ساختہ بابا کے ذریعہ جہاں بہار میں اپنے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے وہیں ملک میں سب سے زیادہ پارلیمانی سیٹوں والی  ریاست اتر پردیش میں وزیراعظم مودی نے ابھی سے سرگرم ہونے کافیصلہ کرلیا ہے۔ کچھ اس طرح کے پروگرام ترتیب دیئے جارہے ہیں کہ ہر ماہ ریاست کے کسی نہ کسی پارلیمانی حلقے میں وزیراعظم مودی کاکم از کم ایک پروگرام ضرور ہو اور وقتاً فوقتاً بڑی بڑی ریلیاں بھی ہوتی رہیں۔ یہ اوراس طرح کے دیگر فیصلے اس بات کا مظہر ہیں کہ بی جےپی خود بھی گھبرائی ہوئی ہے۔ ابھی کل تک ۲۰۲۴ء کی جس جیت کو یقینی سمجھا جارہاتھا وہ اب اندیشوں میں گھر چکی ہے۔ یہ الگ بات ہےکہ وہ آخری لمحے تک ڈٹے رہنے کی حکمت عملی میں یقین رکھتی ہے۔
 ایسے میں اگر اپوزیشن کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اس کی امید جاگی ہے تو بے جا نہیں ہے،کرناٹک میں کی گئی اپنی تقریر میں سونیا گاندھی  نے یہ جملہ یوں ہی نہیںکہاتھا کہ ’’دن بدلنے والے ہیں۔‘‘اس کی معنویت کو ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات کے پس منظر میں سمجھا جانا چاہئے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ۲۰۱۹ء میں جن ریاستوں میں  بی جےپی نے اسمبلی الیکشن میں بہت اچھی کارکردگی  کا مظاہرہ نہیں کیا تھا وہاں بھی  پارلیمانی الیکشن میں اس نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ مغربی بنگال اس کی ایک مثال ہے۔ خود کرناٹک میں اس نے اسمبلی کی سیٹیں تو ۲۲۴؍ میں سے ۱۰۴؍ ہی جیتی تھیں مگر پارلیمانی سیٹیں  ۲۸؍ میں سے ۲۵؍ جیت لی تھیں۔یہ جہاں پلوامہ کا اثر تھا وہیںاس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسمبلی الیکشن میں مودی بھلے ہی اپنے نام پر ووٹ مانگتے ہیں مگر وزیراعلیٰ کسی اور کو بنناہوتا ہے جبکہ پارلیمانی الیکشن میں جب وہ ووٹ مانگتےہیں تو اپنے لئے مانگتے ہیں اوران کی مقبولیت گھٹنے کے بعدبھی ملک کے کسی بھی لیڈر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اڈانی سےمتعلق ہنڈن برگ کی رپورٹ، پلوامہ حملے کے تعلق سے  ستیہ پال ملک کے انکشافات اور کسانوںکے احتجاج سے لے کر جنتر منتر پر جاری پہلوانوں کے احتجاج تک بہت کچھ بدل چکاہے۔ ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘کے نعرہ کی قلعی اترچکی ہے۔ کانگریس کو شاہی خاندان سے تعبیر دینے والی پارٹی کی حرکتیں عوام کے سامنے ہیں کہ وہ کس طرح اراکین اسمبلی کوخریدتی ہے،کیسے سیاسی پارٹیوںکو ملنے والا ۹۰؍فیصد چندہ اکیلے ہی ہضم کر جاتی ہے اور کس طرح اس کا غرور آسمان کو چھو رہا ہے کہ وہ نہ کسانوں پرگاڑی چڑھائی جانے کے بعد اشیش مشرا سے استعفیٰ لیتی ہے، نہ پہلوانوں کے ساتھ دست درازی کے ملزم برج بھوشن سنگھ کیخلاف کارروائی کرتی ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن اگر اتحاد کا مظاہرہ کرے  اور ایک امیدوار کے مقابلے ایک امیدوار کے اس فارمولے کو عملی جامہ پہنائے جس پر گفتگو ہورہی ہے تو بعید نہیں کہ ۲۰۲۴ء کے بعد واقعی دن بدل جائیں۔اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد کے تعلق سے ممتا بنرجی نے جس طرح لچک کا مظاہرہ کیا ہے، وہ خوش آئند ہے۔ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد کیلئے ضروری ہے کہ ذاتی اور پارٹی کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کرقومی اور عوامی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ کرناٹک کے انتخابی  نتائج میں یہ پیغام بہت واضح ہے کہ اگر بی جےپی کا کلیدی ووٹ بینک نہیں گھٹتا تب بھی بی جےپی مخالف ووٹ اگر یک سو ہوجائیں تو نتائج بدل سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK