Inquilab Logo

کرناٹک : بی جے پی کا گڑھ کہلانے والے خطوں میں کانگریس نے کامیاب سیندھ لگائی

Updated: May 15, 2023, 5:06 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

توقع کے عین مطابق کانگریس پارٹی نے حکومت مخالف لہر، بومئی سرکار کی بدعنوانی، فرقہ پرستی اور مرکزی بی جے پی لیڈر شپ کی جانب سے ریاستی لیڈر شپ پر بھروسہ نہ کرنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کرناٹک اسمبلی میں درکار اکثریت سے کافی زیادہ سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

توقع کے عین مطابق  کانگریس پارٹی نے حکومت مخالف لہر، بومئی سرکار کی بدعنوانی، فرقہ پرستی اور مرکزی بی جے پی لیڈر شپ کی جانب سے ریاستی لیڈر شپ پر بھروسہ نہ کرنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کرناٹک اسمبلی میں درکار اکثریت سے کافی زیادہ سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔ عالم یہ ہےکہ بی جے پی جو وزیر اعظم مودی ، امیت شاہ اور جے پی نڈا کے سہارے الیکشن لڑ رہی تھی ، بری طرح سے شکست سے دوچار ہوئی ہے اورریاست کے تقریباً ہر خطے میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس طرح سے مہاراشٹر میں ودربھ ، مراٹھواڑہ ، شمالی مہاراشٹر ، مغربی مہاراشٹر اور کوکن کے خطے ہیں اسی طرح سے پڑوسی ریاست کرناٹک میں بھی ایسے ہی خطے ہیں جن کے اپنے مسائل ہیں، اپنی پریشانیاں ہیں  اور یہاں مختلف پارٹیوں کا اثر بھی مختلف ہے۔ بی جے پی کے لئے کرناٹک جنوبی ہند کا واحد قلعہ تھا جہاں وہ برسراقتدار تھی ورنہ یہاں کی کسی بھی ریاست میں اس کا اثر  نہایت معمولی ہے۔کرناٹک کےخطوں میں ممبئی /کتور کرناٹک ، سینٹرل کرناٹک ،حیدر آباد/کلیان کرناٹک ،جنوبی کرناٹک ،بنگلور کرناٹک  اور ساحلی کرناٹک شامل ہیں۔ ان سبھی خطوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں جبکہ  یہاں کے حالات دیگر خطوں سے مختلف ہیں۔ ان میں بنگلور کرناٹک خطہ پوری ریاست میں سب سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ مانا جاتا ہے۔  مہاراشٹر سے متصل حیدر آباد کرناٹک اور بامبے کرناٹک کے خطے ہیں۔ حیدر آباد کرناٹک علاقے میں مسلمانوں کی آبادی  اچھی خاصی ہے بلکہ یہاں کے متعدد علاقوں میں مسلم ووٹرس فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس خطے کے اضلاع میںگلبرگہ ، بیدر، رائچور،یادگیر،کوپل اور بیلاری جیسے اہم اضلاع شامل ہیں۔ آزادی سے قبل تک یہ اضلاع نظام آف حیدرآباد کی ریاست میں شامل تھے۔  بامبے کرناٹک کی بات کریں تو یہاں کے اہم اضلاع میں بیلگام ، دھارواڑ،اتر کنڑ،بیجا پور ، باگل کوٹ،گڈگ اور ہاویری شامل ہیں۔ ان خطوں میں ترقیاتی کام اس رفتار سے نہیں ہوئے ہیں جتنے جنوبی کرناٹک میں ہوئے ہیں۔ ساحلی کرناٹک کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خطے کے ووٹرس نے اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے پولنگ کی ہے لیکن ان ووٹرس پر کانگریس کی ۵؍ گیارنٹیوں نے کافی اثر کیابلکہ حکومت مخالف لہر کے بعد اگر کسی فیکٹر نے سب سے زیادہ اثر کیا تو وہ ماہرین کے مطابق کانگریس کے ۵؍ وعدے تھے جو اس نے حکومت بننے کے بعد پہلی ہی کابینہ میٹنگ میں پورا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
  ریاست کے  ۵؍خطوں میں سے ۳؍ خطوں میں یعنی بامبے کرناٹک ، سینٹرل کرناٹک اورجنوبی کرناٹک میں کانگریس نےنہ صرف بہتر مظاہرہ کیا ہے بلکہ یہاں اس نےفیصلہ کن سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔ بامبے اور سینٹرل کرناٹک میں کانگریس ۶۲؍ میںسے ۴۰؍ سیٹیں پر یہ مضـمون لکھے جانے تک  فیصلہ کن پوزیشن میں پہنچ گئی تھی۔ واضح رہے کہ یہ دونوں خطے کرناٹک کی سب سے بڑی آبادی ’لنگایتوں ‘ کا گڑھ ہیں اور یہاں بی جے پی نے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر  بنالیا تھا لیکن کانگریس نے اپنی حکمت عملی اور لنگایتوں کے متعدد اہم لیڈروں جیسے جگدیش شیٹار، لکشمن سوادی اور دیگر کو اپنے ساتھ ملاکر لنگایت ووٹ بینک میں بڑی سیندھ لگائی ۔  جنوبی کرناٹک کی بات کی جائے تو یہ خطہ روایتی طور پر دیوے گوڑا کی پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے لیکن  یہاں پر کانگریس نے زبردست سیندھ لگائی ہے ۔ وہ یہاں ۳۹؍ سیٹوں پر فیصلہ کن پوزیشن میں آچکی تھی جبکہ جے ڈی ایس کو اپنے ہی گڑھ میں صرف ۱۹؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑسکتا ہے۔ جہاں تک ساحلی کرناٹک کی بات ہے تو صرف یہاں بی جے پی کو اپنی ناک بچانے کا موقع ملا ہے کیوں کہ وہ یہاں پر ۱۴؍ سیٹوں پر آگے تھی جبکہ کانگریس کو صرف ۴؍ سیٹیں ملی ہیں۔  یہاں پر بی جے پی کے ووٹ شیئر میں کانگریس سے بھی زیادہ اضافہ درج ہوا ہے۔ کانگریس کو یہاں ۴۲؍ فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ بی جے پی نے ۴۹؍ فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔بنگلور کرناٹک خطہ بھی ایسا ہی ہے جہاں بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے لیکن یہاں پر کانگریس سخت مقابلہ کررہی ہے۔ یہ مضمون لکھے جانے تک یہاں کی صورتحال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی لیکن دونوں ہی پارٹیاں برابر برابر سیٹوں پر آگے چل رہی تھیں۔
  جن ۳؍ خطوں میں کانگریس نے  اپنا پرچم لہرایاہے ان میں سے بامبے  اور سینٹرل کرناٹک خطے لنگایتوں کا گڑھ کہے جاتے ہیں۔ لنگایت سماج ریاست کی آبادی کا ۱۷؍ فیصد سے زائد ہیں اور بنیادی طور پر وہ اسی خطے کے مختلف اضلاع میں آباد ہیں۔ ان کی بڑی آبادی مٹھوں اور مندروں کی عقیدت مند ہے۔ ۲۰۲۱ء میں جب یدی یورپا کو وزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا تھا تب سے ہی لنگایت بی جے پی سے ناراض تھے کیوں کہ یدی یورپا ان کے سب سے بڑے لیڈر ہیں اور انہوں نے ہی جنوبی ہند میں بی جے پی کو داخل ہونے کا موقع فراہم کیا تھا ۔ انہیں پارٹی میں کنارے لگادینے سے  لنگایتوں میں غلط پیغام گیا۔ بومئی حالانکہ لنگایت ہیں لیکن انہوں نے  اس اعتماد کو بحال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے علاوہ جگدیش شیٹار اور لکشمن سوادی  کے بھی پارٹی تبدیل کرنے جو پیغام گیا وہ یہی ہے کہ بی جے پی میں اب برہمنوں کا غلبہ ہو رہا ہے اور لنگایتوں کو کنارے لگایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ حیدر آباد کرناٹک خطے میں دلتوںکی بڑی آبادی نے کانگریس کو ہی ووٹ دیا۔ کانگریس صدر چونکہ اسی خطے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود دلت ہیں، اس کا نقصان بھی بی جے پی کو اٹھانا پڑا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK