Inquilab Logo

’کشمیر فائلز ‘حقیقت یا پروپیگنڈہ

Updated: March 31, 2022, 11:10 AM IST | Khalid ShaikhKhawjah Hassan Nizami | Mumbai

ایک معمہ یہ بھی ہے کہ سانحہ کے ۳۲؍ سال بعد فلم بنانے والوں کو کشمیری پنڈتوں کی حالت زار کا خیال کیسے آیا اور اس کا کیا مقصد ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ’کشمیر فائلز‘ ایسی واحد فلم ہے جس کا پروموشن ملک کے وزیراعظم کررہے ہیں ۔ گاندھی نگر کی ایک ریلی میں مودی نے اپنے اسٹائل میں سامعین سے سوال کیا کہ آپ لوگوںنے ’کشمیر فائلز‘ فلم دیکھی؟

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے مایوس ہوکر جب عریضہ گزاروں نے اُسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو انہیں امید تھی کہ ۲۸؍ مارچ سے شروع ہونے والے امتحانات کے پیش ِ نظر عدالت اپنا فیصلہ مؤخر کرکے باحجاب طالبات کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے گی۔ اس کی دو وجہیں تھیں۔ جسٹس رامنا کے چیف جسٹس بننے کے بعد عدالت کے جرأتمندانہ فیصلوں میں نظرآنے والی خوش آئند تبدیلیاں ان کے پیشرووں میں مفقود تھی جو مودی کی خوشنودی کے لئے حکومت واکثریت نواز فیصلے دیتے تھے۔ رامنا نے نہ صرف اس روایت کو توڑا بلکہ سابق چیف جسٹس گوگوئی کی اس اختراع پر بھی ضرب لگائی جس میں حکومت کی طرف سے ملنے والے مہر بند لفافوں کی بنیادپر فیصلے کئے جاتے تھے۔ مودی کے دَور میں ایسا پہلی بار ہوا جب جج حضرات نے حکومت کو آنکھیں دکھانا اورجواب طلب کرنا شروع کیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ۱۶؍ مارچ کو جسٹس رامنا نے اشارہ دیا تھا کہ وہ ہولی کی چھٹیوں کے بعد حجاب تنازع پر سماعت کا موقع نکالیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ۲۴؍ مارچ کو جب عریضہ گزاروں کے وکیل نے امتحانات کی بنیاد پر فوری سماعت کی اپیل کی تو عدالت نے ٹکا سا جواب دے کر انکارکردیا کہ حجاب کا امتحان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان حالات میں ہم نہیں سمجھتے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہائی کورٹ سے مختلف ہوگا۔ دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ مؤخرالذکر کے اس مؤقف پر کہ حجاب اسلام کا لازمی جُز نہیں، سپریم کورٹ کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ اگر وہ بھی یہی مؤقف اختیار کرتے ہوئے یونیفارم کے ساتھ مذہبی علامات کے استعمال کو ممنوع قراردیتا ہے تو اس سے یہ پوچھنا ضروری ہوگا کہ کیا اس طرح کی پابندی، بندی، تلک ، پگڑی  اور کڑے پر بھی لگے گی یا  پابندیوں کے لئے صرف مسلمان رہ گئے ہیں؟  عدالت جو بھی فیصلہ کرے مسلمانوں کو اس کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہماری گزارش  مسلمانوں کے ارباب ِ حل وعقد سے بھی ہے۔ گزشتہ ۸؍ برسوں سے مودی اور بی جے پی حکومتوں نے جس طرح مختلف پابندیوں سے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی ہے ، ہمارے اکابرین نے ابھی تک کوئی ایسا لائحہ عمل  اختیار نہیں کیا جو اس ملک میں انہیں باعزت شہری کی زندگی گزارنے کا ذریعہ بن سکے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کا حشر سب کے سامنے ہے لیکن اس کی سزا ہندوستانی مسلمانوں کو آج بھی دی جارہی ہے۔ انہیں آج بھی پاکستان حامی ، ملک دشمن اور غدار ہونے کا طعنہ دیاجاتا ہے اور گولی مارو کی دھمکی دی جاتی ہے؟ سچ پوچھئے تو اس کے لئے ہم بھی قصور وار ہیں۔ ہم ایک ہاری ہوئی بازی لڑ رہے ہیں، اسے جیتنے کے لئے جس جدوجہد، محنت ، لگن ،مستقل مزاجی اور بصیرت کی ضرورت ہے وہ ہمارے اندر نہیں  پائی جاتی  ہے۔ہمارے  اندر وہ اسلامی اسپرٹ نہیں جو ہمارے اسلاف کا حصہ تھی۔ ہم ساری دنیا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں، مارے کاٹے جارہے ہیں لیکن سدھرنے پر آمادہ نہیں۔ یہ رویہ شکست خوردہ اور زوال آمادہ قوم کا  ہوسکتا ہے ، زندہ اور غیورقوموں کا نہیں۔ مسلم خاندان میں پیدا ہونے کے ناطے ہم  صرف پیدائشی مسلمان بن کر رہ گئے۔ اسلام سے ہمارا اعتقادی وجذباتی تعلق باقی ہے لیکن عملی تعلق تقریباً  ختم ہوچکا ہے۔ مسلمانوں میں اسلاف کی اسلامی اسپرٹ اور کردار   پیدا کرنے کا کام  علماء کرام اور فقہائے عظام کا ہے جس کی شاہ کلید  ’اجتہاد‘ ہے۔ س تعلق سے یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے کہ اجتہاد ، اسلامی احکام میں ترمیم وتنسیخ کا نہیں، بدلے ہوئے حالات میں شرعی احکام کی ازسرِ نو تطبیق کا نام ہے بشرطیکہ ہم اپنے فقہی ومسلکی اختلاف بھلاکر امت مرحومہ میں زندگی پھونکنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ ایک دوسرا مسئلہ جو ملک میں تہلکہ مچائے ہوئے ہے ، ۱۱؍ مارچ سے تھیٹروں میں ریلیز کی گئی کشمیری پنڈتوں کے انخلا پر بنائی گئی  فلم ’کشمیر فائلز‘ ہے ۔ اس فلم کے بارے میں  متضاد رائے ہیں۔ ایک گروپ کا دعویٰ ہے کہ فلم سچے واقعات پر مبنی ہے ۔ دوسرا گروپ اسے جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے پُر بتاتا ہے۔ فلم دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ فلم میں جس بے رحمی اور غیرانسانی طریقے سے پنڈتوں کے قتل اور خواتین کی آبروریزی کے مناظر پیش کئے گئے ، ان سے کسی کا بھی خون کَھول سکتا ہے،آنکھیں نم ہوسکتی ہیں اور جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تھیٹر میں جے شری رام کے نعرے لگائے گئےاورمسلمانوں کو بُرا کہا گیا۔ حد یہ ہوئی ویڈیو میں  ایک شخص کو فلم ختم ہونے کے بعد ناظرین سے خطاب کرتے ہوئے مسلم عورتوںکی آبروریزی پر اکسایاگیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی فلم جو ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دیتی ہے، اسے سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت کیسے دی؟ ظاہر ہے فلم اور اسکرپٹ کو حکومت کی منظوری حاصل ہوگی۔اگر یہ سچ ہے تو سنسربورڈ سے پوچھا جانا چاہئے کہ کیا وہ گجرات فسادات پر اس طرح  کی  فلم کی  نمائش کی اجازت دے گا؟   ایک معمہ  یہ بھی ہے کہ  سانحہ کے ۳۲؍ سال بعد فلم بنانے والوں  کو کشمیر ی پنڈتوں کی حالت  زار کا خیال کیسے آیا  اوراس کا کیا مقصد ہے؟ ہم سمجھتے ہیں ’کشمیر فائلز‘ ایسی واحد فلم ہے جس کا پروموشن ملک  کے وزیراعظم کررہے ہیں۔ گاندھی نگر کی ایک ریلی میں مودی نے اپنے اسٹائل میں سامعین سے سوال کیا کہ آپ لوگوںنے ’کشمیر فائلز‘ فلم دیکھی؟ اگرنہیں تو اسے ضرور دیکھئے تاکہ سچ سامنے آئے۔ اس کے بعد حسبِ عادت ڈینگ مارتے ہوئے وہ جھوٹ پر اترآئے اورکہا کہ اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ کانگریس راج میں کس طرح دہشت گردی کو بڑھاوا دیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت دہلی میں بی جے پی حامی وی پی سنگھ کی حکومت تھی اور کشمیر میں بی جے پی لیڈر جگموہن کی سربراہی میں گورنر راج قائم تھا۔ ہمیں حیرت اس پر بھی ہے کہ پنڈتوں کی ہمدردی میں گھڑیالی آنسو بہانے والے  مودی نے اپنے ۸؍ سالہ دور میں اور ان سے پہلے واجپئی نے اپنے چھ سالہ دور میں  ان کی بازآبادکاری کیلئے کیا کیا اور ان سوالات پر حکومت اور ہندوتوا وادیوں کی بولتی  کیو ں بند ہوجاتی ہے ؟  فلم میں جس سچائی پر پردہ ڈالا گیا، وہ یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء کی پرآشوب دہائی میں جن پنڈتوں نے کشمیر میںرہنے کو ترجیح دی، ان کی حفاظت کشمیری مسلموں نے کی۔ جموں کشمیر میں آج بھی کشمیری پنڈت  بڑی تعداد میں آبادہیں اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ کشمیر ہی نہیں عالمی سطح پر دہشت گردوں کا سب سے بڑا مسلمان رہے ہیں۔حرفِ آخر کے طورپر ہم خفیہ ایجنسی  RAW کے سابق چیف اے ایس دُلت کہ اس بیان پر کرتے ہیں کہ کشمیر فائلز ایک پروپیگنڈہ فلم ہے  اور وہ پروپیگنڈہ فلم دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK