Inquilab Logo Happiest Places to Work

رب العالمین کا شکر ادا کرتے رہئے

Updated: February 24, 2023, 11:52 AM IST | Naeem Siddiqui | Mumbai

شکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شعور اور ان کی قدر کا احساس اور ان کے ملنے پر ان کا جواب دل اور زبان اور تمام زندگی سے دینے کا جذبہ ہے

Man is surrounded by the blessings of Allah Ta`ala in such a way that there is no other way for him except to adopt an attitude of gratitude.
انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اس طرح گھرا ہوا ہے کہ اس کیلئے شکر کا رویہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں شکر کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا : الشکر نصف الایمان۔
 در حقیقت شکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شعور اور ان کی قدر کا احساس اور ان کے حاصل ہونے پر ان کا جواب دل اور زبان اور تمام زندگی سے دینے کا جذبہ ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اس طرح گھرا ہوا اور لدا پھندا ہے کہ اس کے لئے شکر کا رویہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں۔ دوسرا راستہ کفران اور انکار نعمت کا ہے۔ 
 خدانے انسان کو زندگی دی ، زندگی اعلیٰ ترین درجے کی دی، بہترین جسم دیا،  پُر زورد ماغ دیا ، رزق اور ضروریات زندگی دیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان جیسا نور عطا کیا اور ہدایت کا صراط مستقیم واضح کیا ۔ دوسری چیزوں میں بیوی بچے، خاندان ، مکان، جائیداد ، عزت، شہرت ، طرح طرح کی صلاحیتیں اور قسم قسم کی کامیابیاں سب کچھ اپنی جگہ ۔ انسانی زندگی اور ایمانی زندگی بہت بڑی نعمت ہے ۔ باقی جو کچھ پیش آتا ہے اس میں تکلیفوں اور غموں کا پلڑا خدا کی عنایات کے مقابلے میں کم وزن ہوتا ہے ۔ لہٰذا سخت سے سخت مراحل میں بھی صبر کے ساتھ شکر کرنا واجب ہے۔
 قرآن مجید سے روشنی لیں تو شکر کے متعلق یہ رہنمائی ہے :
 ’’اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم:۷)
 ایک آیت ہے :
 ’’اے آلِ داؤدؑ، عمل کرو شکر کے طریقے پر۔‘‘ (سبا:۱۳)
 ایک اور آیت ہے:
 ’’اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔‘‘ (النمل:۴۰)
 بات صاف ہے کہ شکر کروگے تو آخرت میں پورا پورا سکھ چین حاصل کرو گے ۔امگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے مثالیں لیں تو تمام سیرت نگار بتاتے ہیں کہ حضور پاک ؐدن بھر خدا کی راہ میں تبلیغ ، تدریس ، عبادات اور دیگر کاموں کے بعد رات کو جائے نماز پر کھڑے ہو کر طویل قیام اور طویل سجدوں کے ساتھ خدا کے سامنے سخت گریہ و زاری کرتے ۔ یہ بڑا دردناک منظر ہوتا تھا۔ جناب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ آپﷺ سے سوال کیا کہ آپؐ کے تو اگلے پچھلے سارے امور خدا نے معاف کر دیئے ہیں ، پھر آپؐ اس قدر ذکر و عبادت کیوں کرتے ہیں ؟حضور ﷺ نے جواب دیا: افلا اکونُ عبدًا شکوراًیعنی کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
 حضور پاک ﷺکی تعلیم بھی کیا ہی عجیب شان رکھتی ہے۔ فرمایا :
 لم یشکراللہ من لا یشکرالناس۔ 
   وہ شخص جو انسانوں کا حق شکر ادا نہیں کرتا  وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہو سکتا۔
 ہر انسان پر دوسرے انسانوں کے حقوق ہیں اور  ان کے احسانات ہیں۔ ان کی طرف سے حسن سلوک کی کئی صورتیں ہوتی ہیں ۔ معاشرے کے ادارے اس کی اور اس کے بچوں کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ قوم کا خزانہ اس کے کئی معاملات ہیں دوست گیری کرتا ہے یا علا توں کو اسباب سہولت بہم پہنچاتا ہے، ان وجوہ سے بے شمار انسانوں کے لئے ہمارے اندر جاذبہ تشکر اور رویۂ  خدمت کار فرما ہونا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس چھوٹے دائرے کے احسانات کا حق تشکر ادا نہیں کر سکتا تو وہ خدا کی عنایات کے اس بڑے دائرے کا کیسے جذبہ ٔ  تشکر پیش کر سکے گا جس کی عطاؤں میں سے سورج کی روشنی اور ہوا اور پانی اور سوچنے اور بولنے کی قوت کا حساب ہی ہم پر بہت زیادہ آتا ہے۔ 
 پس سچا شکر اس طرح اداہوتا ہے کہ ساری زندگی شکر کے جذبے اور رویے سے بھر جائے۔
 اہل علم نے کتاب و سنت ہی کی روشنی میں شکر کے تین پہلو واضح کئے ہیں:
 ایک ہے دل کا شکر، یعنی دل میں کسی احسان اور عنایت کا احساس و شعور موجود ہو۔
 دوسرا ہے زبان کا شکر ، یعنی احسان کرنے والے کا آدمی شکریہ ادا کرے اور اس کی  تعریف کرے ، اور
 تیسرا ہے تمام جسمانی قوتوں کا شکر۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی ساری قو توں سے ایسی خدمات انجام دے کہ شکر کا حق ادا ہوجائے۔
  رسول  الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت سے خدا کا شکر ادا کرنے کے جو طریقے واضح ہو جاتے ہیں وہ یہ ہیں :
 ۱) انسان خدا کی رحمتوں اور احسانات و عنایات کو سمجھے اور ان میں غور و فکر کرے۔
 ۲)اسے خدا نے جو قوتیں اور نعمتیں دی ہوں مثلاً دماغ کی قوت، بدن کی قوت ، بینائی کی قوت ، علم کی قوت ، قلم کی قوت ، دولت کی قوت،  اقتدار کی قوت  وغیرہ ان سب کو اس کی مرضی کے مطابق اس کے بتائے ہوئے مقاصد میں استعمال کرے۔
 ۳)خدا نے شکر کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لئے ایک نقشۂ ہدایت اور ایک نظام شریعت اپنے انبیاءؑ کے ذریعے بھیجا ہے، اس پر پوری طرح کاربند ہو۔ اس سلسلے میں جو کام بھی وہ انجام دے گا وہ صدقہ اور عبادت اور شکر قرار پائے گا ۔ 
 جو شخص ان تین باتوں سے ہٹ جائے اس نے گویا دین حق اور جادۂ شکر کو چھوڑ دیا ۔
 آئیے ، ہم اپنا محاسبہ کریں کہ رب العالمین نے ہمیں جو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، کیا ہم کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرتے ہیں؟ ہمارا حال تو یہ ہے گویا یہ ہمارا حق تھا !   جبکہ نہ ہماری نمازیں اخلاص والی ہیں نہ ہماری زندگی پر اس کا کوئی عکس نظر آتا ہے۔ 
 خاتمۂ کلام ہم نبی کریم ﷺ کی سکھائی ہوئی ۲؍ دعاؤں  پر کرتے ہیں جو ہر روز نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں:
 اللَّهُم أَعِنِّي عَلىٰ ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسْنِ عِبَادتِكَ۔
 اے اللہ ! آپ مجھے اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہترین طریقہ پر عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
 اور دوسری مشہور دعا ، دعائے قنوت ہے جو وتر میں پڑھی جاتی ہے۔ اس لمبی دعا کا ایک جملہ ہے:
 وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ ۔
 یعنی ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تجھ سے سرکشی نہیں کرتے۔
 رب العالمین ہم سب کو اپنا شکرگزار بندہ بنائے۔ آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK