Inquilab Logo

کیجریوال کی گرفتاری جمہوریت پر حملہ

Updated: March 26, 2024, 4:37 PM IST | Aakar Patel

مرکز اور ریاستوں کے باہمی تعلقات ہمیشہ سے موضوع بحث رہے ہیں مگر آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اُن میں عدم اعتماد غیر معمولی طور پر بڑھ جائے۔ مگر حالیہ برسو ں میں ایسا ہوا ہے جس کی وجہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

الیکشن سے پہلے دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجریوال کی گرفتاری کو جمہوریت پر حملے کے طور پر ہی دیکھاجائے گا۔ یہ بلا شبہ اسی نوع کا حملہ ہے جو بی جےپی کی وفاقی نظام کے ساتھ بداعتمادی کا بھی عکاس ہے۔ ان برسوں میں اوربالخصوص ان واقعات کے بعد سے جب کہ لسانی بنیاد وں پرریاستوں کی تقسیم عمل میں آئی تھی، اس پارٹی (بی جے پی )کی خواہش رہی ہےکہ وفاقی نظام کو ختم کردیاجا ئے اور ایک قانون ساز ادارےکے حق میں ریاستی نظام کو بھی ترک کردیا جائے چنانچہ پورا ملک او راس کے عوام ایک پارلیمانی نظام کے تحت ہوں جس کاسربراہ ایک ہی لیڈرہو۔ 
آ رایس ایس کےسربراہ گولوالکر نے۱۹۵۶ء میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون کو ان کی کتاب ’ بنچ آف تھاٹس ‘ میں بھی شائع کیا گیا تھا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں : ’’اس کے بعدہمارا موجودہ آئین تشکیل پایا جس کے تحت کئی اکائیوں کو ایک ’ریاست ‘کی شکل دی گئی اور کئی ریاستوں کوایک ’یونین ‘ میں تبدیل کیاگیا۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا آئین تیار کرنے والوں کو کیا اورکس قسم کے حالات درپیش ہوں گے۔ لیکن حالات ایسےہی تھےکہ وہ نظام تشکیل پاتا جس میں ایک ملک، ایک پارلیمنٹ اور ایک مرکزی ایگزیکٹیو کا طریقہ کارگرہوتا اور اسی سے ایک ’بھارت‘ بنتا۔ لیکن اُن لیڈروں کا ذہن اس کی طرف زیادہ مائل تھا کہ ریاستوں کا وفاقی نظام زیادہ قابل عمل ہے جس میں ہر ریاست میں ایک مخصوص لسانی گروپ کو ہر طرح کے اختیارات وحقوق حاصل ہوں اور انہیں منفرد تہذیبی اور لسانی شناخت حاصل ہو۔ ‘‘گولوالکر نے’ دیئر از اے ریمیڈی ‘ اس ضمنی سرخی کے ساتھ اپنا مضمون یہ کہتے ہوئے جاری رکھا تھا کہ ’’اس مرحلے میں یہ سب سے اچھی بات ہوگی کہ ملک کے آئین کے وفاقی ڈھانچے کی بات کو گہرائی میں دفن کردیاجائے تاکہ خودمختار اور نیم خود مختارریاستوں کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے اور یہ ملک ایک ملک کی حیثیت سے رہے، ایک بھارت کی حیثیت سے رہےجس میں لسانی، علاقائی، طبقاتی اور اس طرح کی دیگر کوئی تقسیم نہ رہے۔ آئیں، آئین کو دوبارہ تشکیل دیں، اس کادوبارہ جائزہ لیں تاکہ وحدت پر مبنی حکومتی نظام قائم کیاجاسکے۔ ‘‘
وفاقی آئین کے آرٹیکل ایک کی مخالفت کا دوسرا ذریعہ جو ہمارے سامنے آتا ہے وہ دین دیال اُپادھیائے کی صورت میں ہے۔ بی جےپی کے آئین کے آرٹیکل۳؍ میں اجتماعی انسانیت کو پارٹی کا بنیادی فلسفہ بتایا گیاہے۔ دین دیال اپادھیائے نے ۲۲؍ اپریل سے ۲۵؍ ا پریل ۱۹۶۵ء کے درمیان بامبے میں جو۴؍ لیکچر دئیے تھے انہیں ’اجتماعی انسانیت ‘ کا نام دیاگیا تھا یا ( کہا جا سکتا ہے کہ ان لیکچروں میں اجتماعی انسانیت کا تصور دیاگیاتھا )۔ اسی تصورکو پارٹی نے اپنا بنیادی فلسفہ قراردیا۔ 
ا س کے بعد جو بات ظاہر ہوئی وہ تیسرے لیکچر سے نکل کر سامنے آئی۔ اس کا عنوان تھا ’’آئین اختیاری نہیں ہوسکتا ‘‘۔ اس میں اپادھیائے لکھتے ہیں ’’کیا آئین بھی کچھ بنیادی اور فطری اصولوں کی زد میں نہیں آتا۔ ہم نے آئین تحریر کیاہے لیکن یہ تحریر کردہ آئین ہمارے ملک کی روایات کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ یہ جس قدر ملک کی روایات کے خلاف ہوگا، اسی قدر یہ دھرم کے مقاصد پورا کرنے میں مانع ہوگا۔ اس میں بھارت ماتا کے نظر یہ کو کوئی شناخت نہیں دی گئی ہےجوہماری مقدس مادروطن ہےاورعوام کے دلوں میں اس کیلئے عقیدت ہے۔ آئین کے دیباچے کے پہلےپیرا گراف میں ہے، ’انڈیا جو کہ بھارت ہےریاستوں کا وفاق ہوگا‘، مثال کے طور پر، بہار ماتا، بنگاماتا، پنجاب ماتا، کنڑ ماتا، تمل ماتا، یہ سبھی مل کربھارت ماتا بنائیں گے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ جو صوبےہیں وہ بھارت ماتا کے بازو ہیں، یہ انفرادی ماتائیں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارا آئین ایک ریاست پرمبنی ہونا چاہئے نہ کہ وفاق پر۔ ‘‘
صوبائی یا وفاقی نظام سے جب اتنا بیر ہو تو اس بات پر بھی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ریاستوں میں جو وزرائے اعلیٰ منتخب ہوکر آتے ہیں، انہیں آئینی نہ تسلیم کیاجائے۔ بی جےپی اس حد تک بھی جاسکتی ہے یا کم از کم اس کا وہ جواز پیدا کرسکتی ہےکہ ہم ایک جمہوریت ہیں اور(یہ گنجائش ہےکہ ) یہاں وزرائے اعلیٰ کو بغیر مقدمہ کے جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعدسےوفاقی نظام پر اس نظریاتی حملے کا اظہارکئی شکلوں میں ہوا ہے، مثلاً:
(۱) نظم و نسق کے معاملے میں جو کہ ریاستوں کا دائرۂ عمل ہے، مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کیا گیا۔ 
(۲) جی ایس ٹی کے ذریعہ ریاستوں کا ٹیکس وصول کرنے کا حق سلب کیا گیا، اب اُنہیں مرکزی خزانے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ 
(۳)ایک ملک ایک الیکشن کا مطالبہ جس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ریاستوں پر مرکز کو بالادستی حاصل ہوجائے۔ 
(۴) اپوزیشن کی حکومتوں پر مرکزی حکومت کی کارروائیاں جنہیں ہم نے بنگال، جھارکھنڈ، کرناٹک، تلنگانہ اور دہلی میں دیکھا، یہ کارروائی خواہ گرفتاری کی شکل میں ہو یا ریاستوں کو واجب الادا رقومات کو روک رکھنے کی شکل میں، قارئین مرکزی حکو مت اور حکمراں جماعت کے ان حربوں سے بخوبی واقف ہیں۔ 
یہ سب جمہوریت میں ناپسندیدہ ہے جس سے ریاستو ں کا کچھ اختیار باقی نہیں رہتا اور اگر رہتا ہے تو اس طرح کہ وہ خود کو مرکز کی مرضی و منشاء کے مطابق ڈھال لے۔ اسی لئے اپوزیشن کی ریاستوں اور مرکز میں عدم اعتماد کافی بڑھا ہے۔ ہیمنت سورین، کیجریوال، منیش سسوڈیا، اور دیگر وزراء کے علاوہ کے کویتا۔ ان نامو ں کو سامنے رکھئے اور اس بات پر غور کیجئے کہ کیا ان سے یہ نہیں جھلکتا کہ حکومت اپوزیشن اور جمہوریت کو دبانا چاہتی ہے؟ کیا اس سے یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ حکومت عدلیہ کی اہمیت اور بالادستی کو بھی سرسری دیکھ رہی ہے؟ یا اس سے یہ انکشاف نہیں ہوتا کہ اس کے نزدیک اس کا اپنا مفاد ہی ہر چیز پر سبقت رکھتا ہے۔ ایسے میں کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اب تک ملک میں اکثریت نوازی کی مخالفت کا کوئی پھل نہیں ملا۔ ایمرجنسی میں بھی نہیں۔ سوچئے اِس دور میں جے پرکاش نرائن ہوتے تو کیا ہوتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK