گزشتہ پچہتر چھہتر برس میں قومی سیاست کو سخت کلامی سے گستاخی تک اور گستاخی سے بدکلامی تک آتے ہوئے سب نے دیکھا ہے، اس کے باوجود کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی اگلی منزل شرمسار کرنے والی ہوگی جس میں لوگ مغلظات پر اُتر آئینگے۔
EPAPER
Updated: September 26, 2023, 1:08 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
گزشتہ پچہتر چھہتر برس میں قومی سیاست کو سخت کلامی سے گستاخی تک اور گستاخی سے بدکلامی تک آتے ہوئے سب نے دیکھا ہے، اس کے باوجود کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی اگلی منزل شرمسار کرنے والی ہوگی جس میں لوگ مغلظات پر اُتر آئینگے۔
گزشتہ پچہتر چھہتر برس میں قومی سیاست کو سخت کلامی سے گستاخی تک اور گستاخی سے بدکلامی تک آتے ہوئے سب نے دیکھا ہے، اس کے باوجود کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی اگلی منزل شرمسار کرنے والی ہوگی جس میں لوگ مغلظات پر اُتر آئینگے۔ ملک کے عوام اُن مغلظات کو ’’لائیو‘‘ سن چکے ہیں جن سے ایک رُکن پارلیمان نے دوسرے رُکن پارلیمان کو نوازا۔ افسوس کہ وہ پورے ملک میں نشر ہوئیں ۔ گالی چاہےکسی کو دی جائے، بہرحال گالی ہوتی ہے۔ بدلتے، اوربدلنے سے زیادہ بگڑتے دَورمیں یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ گالی جس کو دی جاتی ہے وہی ذلت نہیں اُٹھاتا، گالی دینے والا بھی ذلیل ہوتا ہے۔ اس میں ذلت کے بھی مدارج ہیں ۔ جس کو دی جاتی ہے اُس کی سماعت تک گالی کے الفاظ بعد میں پہنچتے ہیں پہلے کسی کی زبان سے ادا ہوتے ہیں اس لئے گالی کھانے والا بعد میں ذلت اُٹھاتا ہے۔ اُس سے پہلے گالی دینے والا ذلیل ہوتا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ یہ فرق مٹتا جارہا ہے۔ وقت کے ساتھ قومی سیاست نے بہت سے تکلفات ختم کردیئے اور بہت سے حجابات اُٹھا دیئے۔ اب سیاست میں الزام تراشی عیب نہیں ہے اور سینہ زوری یا دھاندلی نقص نہیں ہے۔ جب جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے تو جھوٹ پر جھوٹ بولنا بڑا گناہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اب نادم اور شرمسار ہونے کو کردار کی کمزوری تصور کیا جاتا ہے اور معافی مانگ لینے کو بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ سب کچھ اتنی تیزی سے بدل رہا ہے اور ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ اتنی تیزی سے رونما ہورہا ہے کہ حالات کی موجودہ نوعیت سے شدید اختلاف رکھنے والے لوگ چاہیں بھی تو کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ نہ تو کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کر سکتے ہیں نہ ہی غلط کو غلط کہتے ہوئے عوام کو بیدار کرنے کے متحمل ہیں ۔ سماج پر ان حالات کے ممکنہ مضر ترین اثرات، جو ہنوز پردۂ خفا میں ہیں ، خوفزدہ کرنے والے ہیں !
اگلے وقتوں میںکبھی جھوٹ بولا جاتا تھا تو اس کے خلاف ایک جمعیت اکٹھا ہوجاتی تھی کہ یہ جھوٹ ہے۔ لوگ سچ کی تلاش میں نکلتے اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرکے دم لیتے۔تب جھوٹ بولنے والا نادم ہوتا اور دوسروں کی تنبیہ ہوتی تھی جو ’’ضرورت‘‘ پڑنے پر جھوٹ کا راستہ اختیار کرسکتے تھے۔ اس کی وجہ سے سماج میں بُرائیوں کی راہ بھی مسدود ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں چونکہ بہت سی بُرائیاںسیاست کی پیدا کردہ ہیں اور سیاست، سماج پر لازماً اثر انداز ہوتی ہے اسلئے بُرائیوں کے خلاف مزاحمت کم اور کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ممکن تھا کہ اتنی جلدی مزاحمت نہ تو کم ہوتی نہ ہی کمزور ہوتی مگر مشکل یہ ہے کہ اب مزاحمت کو مزاحمت میں تبدیل ہونے کا وقت ملتاہے نہ مہلت، روح فرسا واقعات تو معمول بن گئے ہیں ۔
اس صورتِ حال کا شاید سب سے خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ سماج میں بے حسی بڑھ رہی ہے۔اُن لوگوں کو جانے دیجئے جنہیں ان باتوں سے سروکار نہیں ہے، غیر شعوری طور پر بے حسی کی راہ پر وہ لوگ بھی گامزن ہیں جن کا ان باتوں سے سروکار ہوسکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے احساس پر کسی نہ کسی زاویہ سے روزانہ ضرب لگتی ہے جس کے نتیجے کے طور پر عوام کی چونکنے، بُرا ماننے، افسردہ ہونے اور کسی نہ کسی درجے میں مزاحم ہونے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ اسی لئے اب وقت آگیا ہے کہ سماج سیاست کو بدلے ورنہ سیاست سماج کو کچا کھا جائے گی ۔