• Sat, 22 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بنی آدم کو جس علم کی ضرورت تھی وہ قرآن مجید جیسی کتابِ اعجازِ علمی ہی میں مل سکتا تھا

Updated: November 21, 2025, 3:08 PM IST | Professor Syed Masood Ahmed | Mumbai

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اس خوبصورتی سے اپنے دلائلِ ہدایت پیش کرتا ہے کہ ہر غیر متعصب ماہر علم بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ لاریب یہ کتاب معجزوں کا معجزہ نیز ہمہ گیر، آفاقی اور ہمہ جہتی معجزہ ہے۔

These aspects and dimensions of the scientific miracle of the Word of God expand the scope of discussions so much that their comprehension is beyond the reach of the human mind. Photo: INN
کلام اللہ کے علمی اعجاز کے یہ پہلو اور جہات اُن مباحث کا دائرہ اتنا وسیع کردیتے ہیں جن کا ادراک انسانی ذہن سے وراء الوراء ہے۔ تصویر:آئی این این

قرآن کریم اللہ رب العالمین اور علّام الغیوب والشہادہ کا کلامِ عالی مقام ہے جس کے عجائب و غرائب کی کوئی شمار و انتہا نہیں اور جس کو اشرف الانبیاء و نبی خاتم محمد مصطفیٰ ﷺ  پر معجزۂ جاوداں ہی بنا کر نازل کیا گیا۔ اس کے اعجاز کی بھی سیکڑو ں جہات ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کا شمار و ادراک انسان کے بَس کی بات نہیں کیونکہ جس نبی امّی پر کلمۂ اقرأ ہی سے نزولِ قرآن کی ابتدا ہوئی ہو اور جس کا نام ہی القرآن ہو، جس کو ربّ کائنات نے فرقان، بُرہان، بیان، نور، بلاغ، حق اور علم و حکمت جیسے کم و بیش پچاس القاب سے نوازا ہو اس کلام کے ادبی، علمی و سائنسی اعجاز کا احاطہ بالیقین ناممکن ہے۔
کلمہ  ٔ اقراء کی معنویت
قرآن مجید کے علمی و سائنسی اعجاز کے مُسکت ثبوت کے لئے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سورہ العلق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل پہلی وحی پر مدبرانہ توضیح ہی کفایت کرتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کلمہ  ٔ اقرأ سے شروع ہونے والی پہلی وحی الٰہی میں دو بار کلمہ ٔ اقرأ کا حکمیہ بیان اور تین بار علم کے مشتقات کا ذکر نیز انسان کی تخلیق میں عَلَق اور خالقِ عَلَق کا خصوصی حوالہ حصولِ علم میں اسمِ ربی کی اہمیت و اَوّلیت کے ساتھ خالقِ کائنات کے کرم کا برملا اشارہ بلکہ اس امر کا درپردہ اشارہ بھی کہ جس کتابِ الٰہی کے نزول کا آغاز ہوا، اس کا نام کلمہ ٔ اقرأ کے مناسب حال ’القرآن‘ ہوگا نیز اس حقیقت کی یاددہانی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جن دو بڑے ذرائع حفاظت و ترسیل ِ علم سے بنی نوع آدم کو نوازا ہے ان میں ایک ذریعہ ’’قلم‘‘ ہے تو دوسرا قلب و لسانِ انبیاء ہے، ایک ذریعہ کسبی ہے تو دوسرا وہبی۔ مزید برآں انسانی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں خورد بینی مرحلہ مسمّٰی بہ ’’اَلْعَلَق‘‘  قرآن کریم کے سائنسی اعجاز کا اشارہ تھا جس کو بیسویں صدی میں کناڈا کے علم جنینیات  (اِمبریالوجی)  کے ماہر سائنسداں کِیتھ مُور (Keith Moore)نے اسی دور کے اعلیٰ تحقیقی پیمانوں پر جانچ کر اعجازِ قرآنی کا منہ بولتا ثبوت فراہم کیا اور کئی سائنسدانوں کے کلمۂ شہادت پڑھنے کا ذریعہ بنا۔
علم (نالج) اور  معلومات (انفارمیشن) کے تعلق سے ابتدا ہی میں یہ عرض کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم و معلومات کی کئی جہات ہیں، مثلاً ایک جہت زمانی ہے تو دوسری مکانی، اسی طرح ایک علم کسبی ہوتا ہے تو دوسرا وہبی، نیز ایک علمِ غیب ہوتاہے تو دوسرا علم شہادہ وغیرہ۔ ان ہر دو متضاد جہات پر مبنی قرآن کے اعجازِ علمی پر بھی بحث کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح علم غیب کے زمانی پردوں مثلاً ’’الٓمٓ غُلِبَتِ الرُّوْمُ‘‘ جیسی پیشین گوئیاں زیر بحث عنوان کا حصہ بن سکتی ہیں تو وقت کے پردوں میں مستور سائنسی ایجادات و انکشافات کے لئے آلاتِ تجربات مثلاً خورد بین کی ایجاد کی ضرورت قرآنی اشارہ ٔ عَلَق کو مؤید و مؤکد کرتی ہے۔ یہ علم مشاہدہ کےزمانی پردہ و حجاب سے عبارت ہے جو کہ مستقبل میں رونما ہونے والا تھا تو دوسری طرف علم وہبی پر مبنی وجود ملائکہ اور وجود جنات کے انکشافِ حقیقت کے لئے بعثت انبیاء کی ضرورت تھی، یہ گویا ایک معنوی حجاب ہے جس کو انبیاء کرام توڑتے ہیں۔کہنا یہ ہے کہ متعددزمانی و مکانی، معنوی و حقیقی، غیبی و شہادتی پردوں کو ہٹا کر کلام اللہ کے علمی و سائنسی اعجاز کی بحث اپنا راستہ بناتی اور استوار کرتی ہے۔ کلام اللہ کے علمی اعجاز کے یہ پہلو اور جہات اُن مباحث کا دائرہ اتنا وسیع کردیتے ہیں جن کا ادراک انسانی ذہن سے وراء الوراء ہے یعنی ان کے دائرہ ہائے کار کے تعدُّد و تنوع ہی کا احاطہ ممکن نہیں، تفصیلِ اعجاز تو دور کی بلکہ بہت دور کی بات ہے۔
سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا کی معنویت
اللہ تعالیٰ نے ا عجازِ قرآن کے ان زمانی و مکانی پہلوؤں کو سورۂ فصلت کی آیت نمبر ۵۳؍ میں کتنے حسین پیرائے میں ذکر فرمایا ہے بالخصوص اس مقام پر پیشین گوئی تک کو اعجاز قرآنی کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ لاریب یہ آیت قرآن کریم کے علمی و سائنسی اعجاز کی کنجی و کسوٹی ہے لہٰذادعویٰ، چیلنج اور پیشین گوئی سے معمور اس معرکۃ الآراء آیت پر ذرا تدبر کی نظر ڈالیں۔ ارشاد ربانی ہے:  ’’ہم ان کو عنقریب آفاق و انفس میں نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ یہ بات ان پر بالکل واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ کا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟‘‘
مذکورہ بالا اِس آیت میں ’’سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا‘‘ کا کلمہ قرآن کے علمی اعجاز کے زمانی پہلو کا حسین استعارہ اور قرآنی پیشین گوئی کا واضح حوالہ ہے، جبکہ فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ اس کے مکانی اعجاز کی دو بڑی جہات کا اشارہ ہے، اور اس پیشین گوئی کو کلامِ معجز میں بیان کرنے کی غرض حَتَّى یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَق میں منکشف کی گئی ہے اور اس کے بعد نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پر خصوصی التفات و تسلی کے لئے اور آپؐ کے بعد امت مسلمہ کے ہر فرد کی تقویت ایمان کے لئے، ربّ کریم نے اپنی محکم شہادت کو زوردار اسلوبِ کلام میں دلیلِ کافی ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ایمان و عرفان بالقرآن کے بارے میں مشیت الٰہی یہ ہے کہ کائنات اور بنی نوع آدم کے تعامل نیز تدبر انسانی کے نتیجہ میں زمانی و مکانی حجابات رفتہ معدوم ہو کر قرآن کے علمی و سائنسی اعجاز کی راہیں مزید استوار ہوں گی لہٰذا فی زمانہ مذکورہ بالا آیت اپنی حقانیت کو ببانگ دہل اس طرح مبرہن کررہی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے بھی پکار اٹھیں کہ لاریب قرآن مجید برحق ہے، معجزۂ جاوداں ہے اور رب کریم کی شہادت ہی بالیقین سب گواہیوں پر بھاری ہے۔
قرآن مجید کے علمی و سائنسی اعجاز کے اصول و مبادی
قرآن مجید کا اصل مقصد خلافت فی الارض کے منصب عالی پر متمکن یعنی بنی نوع آدم کی ہر شعبۂ زندگی میں کامل و مکمل رہنمائی کرناہے جوصاحب عقل و شعور بھی ہے اور حامل اخلاق و اقدار بھی۔ چنانچہ یہ انسانی عقل و ادراک کی اصلاح کرتا ہے، اس کے نفس و روح کی بالیدگی کے سامان کرتا ہے، اس کی حقیقی ترقی اور فوز و فلاح کے حصول کے اصول و مبادی بھی فراہم کرتا ہے، اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہمہ گیر و ہمہ جہتی انقلاب کا بہترین محرک و داعی بھی ہے۔ لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ خلافت ارضی کی گوناگوں ذمہ د اریوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے کے لئے ہی انسان بالقوہ طور پر(Potentially)علم و تمیز کے زیور سے آراستہ کیا گیا۔ البتہ حصولِ علم کی بالقوہ صلاحیت کو عمل میں ڈھالنے کے لئے ہدایت الٰہی ناگزیر تھی جبکہ خلافت ِ ارضی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تکمیل دین کی اورحیات انسانی کی معراج کے حصول کے لئے اس کتاب ہدایت کا علمی معجزہ ہونا بھی منطقی تقاضا تھا۔ بالفاظ دیگر خلافت ارضی کے متنوع چیلنجوں کو برضا و رغبت قبول کرنے کے لئے بنی آدم کو جس علم کی ضرورت تھی وہ کسی کتابِ اعجازِ علمی ہی میں مل سکتا تھا جو ہر شعبۂ علم میں ان کی رہنمائی کرے، ان کی اصلاح کرے، ان کو حقیقی ترقیوں کے بامِ عروج پر لے جائے مگر یہ تبھی ممکن ہوسکتا تھا جبکہ قرآن کریم جیسی کامل و مکمل اور انقلاب آفریں کتاب دنیائے انسانیت کی رہنمائی کرے اور جس میں اعجازِ علمی کی ساری شرائط بدرجہ اتم موجود ہوں۔ چنانچہ قرآن مجید حیاتِ انسانی کا ایک جامع و مکمل نظام پیش کرتا ہے۔  
 قرآن مجید نہ صرف آفاق و انفس کے ہر منفرد موضوع پر کوئی نہ کوئی اعجازی شان کی بات کہتا ہے بلکہ اس کے علمی اعجاز کا ایک اور امتیاز اور عالم انسانیت پر خصوصی احسان یہ بھی ہے کہ اس نے متعدد و متنوع علوم کے سیکڑوں بحر العلوم (Polymaths)اور عباقرہ پیدا کئے۔ وہ اپنے ہر مخاطب کو آیات آفاق و انفس پر غور و تدبر کی بار دعوت دیتا ہے اور مخاطب کے ذہن و قلب کو متنوع علوم کے مسلسل مطالعہ و تجزیہ کا عادی بناتا ہے اور متنوع الجہات موضوعات پر غور و فکر کی تحریک فراہم کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ ’’(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟  (الغاشیہ: ۱۷؍تا۲۰)، اور ’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں ‘‘ (سورہ آل عمران:۱۹۰) جیسی کم و بیش ساڑھے سات سو آیات کے ذریعہ انسانی ذہن و حافظہ کی آبیاری کرتا رہتا ہے اورنہ صرف غور و فکر کے لئے ایسی تحریک (Inspiration)فراہم کرتا ہے بلکہ ایک جامع علمی و فکری تحریک  و انقلاب برپا کردیتا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، قرآن مجید کا یہ لاثانی علمی اعجاز کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی کتاب کو میسر نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم تا قیامت تمام انسانوں کے جملہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین رہنمائی کرنے والی جامع و کامل کتاب ہے، اور اس خوبصورتی سے اپنے دلائلِ ہدایت پیش کرتی ہے کہ ہر غیر متعصب ماہر علم بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ لاریب یہ کتاب معجزوں کا معجزہ نیز ہمہ گیر، آفاقی اور ہمہ جہتی معجزہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK