Inquilab Logo

یوم محنت اور اہل محنت

Updated: May 01, 2022, 2:02 AM IST | Mumbai

یکم مئی عالمی یوم محنت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس مختصر کالم میں عالمی سطح پر مزدوروں کی صورت حال پر مختصر تبصرہ بھی ممکن نہیں ہے

Labour Day
یوم محنت

 یکم مئی عالمی یوم محنت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس مختصر کالم میں عالمی سطح پر مزدوروں کی صورت حال پر مختصر تبصرہ بھی ممکن نہیں ہے اس لئے اس موضوع کو وطن عزیز پر مرکوز رکھنا ہی بہتر ہوگا۔ ہمارے یہاں مزدوروں کی حالت بہت سوں کی نگاہ سے اوجھل تھی مگر کورونا کے دور میں لاک ڈاؤن کے سبب مہاجر مزدوروں کی وطن واپسی شروع ہوئی اور ہزارہا مزدور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکل کر پیدل سفر پر مجبور ہوئے تو ہر خاص و عام نے مزدوروں کی حالت کو بچشم خود دیکھ لیا۔ کل تک نظرانداز کی جانے والی یہ مخلوق اچانک لوگوں کی توجہ اور ہمدردی کا مرکز بن گئی۔ اس کے بعد سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مزدوروں کے بارے میں جانتا نہیں ہے۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
  کچھ نہیں، ڈھاک کے تین پات۔ حکومت نے آن لائن ڈیٹا جمع کرنے کا سلسلہ شروع تو کیا ہے مگرنہ تو ان کی رہائش، صحت، بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات کی کوئی ضمانت دی گئی ہے نہ ہی ان کی اقل ترین اجرت کیلئے کوئی قانون بنایا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر سوشل سیکوریٹی کے نام پر کچھ نہیں ہے۔ اگر غفلت کا یہی حال رہا اور دس سال بعد بھی مزدوروں کی یہی کیفیت رہی جو آج ہے تو حیرت نہیں ہوگی۔ یہا ںایک وضاحت ضروری ہے۔ جب ہم مزدور کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یومیہ اجرت پر محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں اور بچے بھی مگر علم معاشیات میں مزدور یا لیبر کی تعریف وسیع ہے۔ ہر اس شخص کو مزدور یا لیبر کہتے ہیں جو کام کرنے کی عمر میں ہے خواہ اس کے پاس کام ہو یا نہ ہو، خواہ وہ تپتی دھوپ میں بیگاری کرتا ہو یا دفتر میں سر کھپاتا ہو۔ اس نقطۂ نظر سے ہندوستانی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ دور میں مزید پریشان کن تصویر ابھرتی ہے۔ مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کی جانب سے پبلک سیکٹر میں ریزرویشن کے مطالبہ سے لے کر ریزرویشن کو پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نافذ کرنے کی مانگ تک، عوامی طبقات میں جو بے چینی پائی جارہی ہے وہ تشویشناک ہے۔ حالیہ برسوں میں اہل محنت کی شمولیت کا فیصد بھی کم ہوا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اگر اعدادوشمار یہ بتائیں کہ کام کے خواہشمند ہی کم ہورہے ہیں تو یہ زیادہ تشویش کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کام کی تلاش سے تھک کر یا بددل ہوکر انہوں نے کام کی تلاش ختم کردی۔ 
 ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھی ہوئی تو ہے مگر اس میں بھی جو اشارے موجود ہیں وہ مایوسی کے غالب آنے کی کیفیت بیان کررہے ہیں۔ یعنی جو لوگ کام کی تلاش سے مایوس ہوگئے وہ تو شمار میں نہیں ہیں مگر جو مایوس نہیں ہوئے اور اب بھی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں وہ بھی کام حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ صورت حال تو اور بھی فکرمند کرنے والی ہے کہ بے روزگاری ان لوگوں میں زیادہ ہے جو نوجوان اور تعلیم یافتہ ہیں۔ یومیہ اُجرت پر محنت مزدوری کرنے والے دیہی علاقوں کے وہ لوگ جو کام نہ ملنے کی وجہ سے ’’منریگا‘‘ میں نام لکھواتے ہیں ان کی تعداد بھی بڑھی ہے جس سے دیہی روزگار کی دگرگوں صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ کسی بھی زاویئے سے صورتحال کو سمجھنا چاہیں، کوئی اُمید افزاء خبر آپ کا انتظار کرتی ہوئی نہیں ملے گی اس لئے آج یوم ِ محنت پر اہل محنت کی محرومی کا جائزہ لینا، اپنا محاسبہ کرنا اور مستقبل کیلئے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنانا لازمی ہے۔  n

Labour Day Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK