Inquilab Logo Happiest Places to Work

زبان کا استعمال اور تدریس: مسائل اور حل

Updated: December 13, 2019, 5:51 PM IST | Mohammad Qamar Saleem | Mumbai

ایک اہم مسئلہ اردو کے مقاصد کے تعین کا ہے۔ عام طور پر کسی زبان کو پڑھانے کے چار مقاصد ہیں: سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا۔ ایک مضمون کی حیثیت سے نثر ، نظم، انشا اور قواعد کے الگ الگ مقاصدہوتے ہیں اور ہرمقصد کے عمومی اورخصوصی مقاصد ہوتے ہیں جیسے نثر کی تدریس کے دو مقاصدافہامِ مطالب اور اظہارمافی الضمیرہیں۔ نظم کے تین مقاصد ہیںجن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور استحسان ہیں۔ انشا کے مقاصد بھی تین ہیں جن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور اطلاق ہیں۔

کسی بھی زبان کو پڑھانے کے چار مقاصد ہوتے ہیں۔ جاگرن
کسی بھی زبان کو پڑھانے کے چار مقاصد ہوتے ہیں۔ جاگرن

اُردو زبان کی تدریس میں ہم اپنی زبان کو نہ جانے کیوں ایک اجنبی زبان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ زبانوں کے رسم الخط الگ ضرور ہیں لیکن ان کی بنیادی باتیں الگ نہیں ہو سکتیں۔ جب ہم اسکولوں اور کالجوں میں اردو اساتذہ کو پڑھاتا ہوا دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اُردو زبان، زبان نہیں صرف ایک مضمون ہے۔ اِس ترقی یافتہ دور میں بھی جماعت میںصرف لیکچردے کر اور چند عبارتیں لکھو ا کر کام نہیں چلایا جاسکتا۔
اسکول کے اساتذہ تیار کرنے کے لئے بی ایڈ اور ڈی ایڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تدریس کے مسائل اس وقت ابھر کر سامنے آتے ہیں جب طلبہ اسکولوں میں تدریس کی مشق کے لئے جاتے ہیں اور اردو کے اسباق پڑھاتے ہیں۔اس میں سب سے پہلا مسئلہ طریقۂ تدریس کا ہے۔عام طور سے ہم اپنے طلبہ کو طریقۂ تدریس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے تمہید باندھی جائے یعنی کسی بھی سبق، موضوع یا عنوان کو براہِ رست نہ بتا کر طلبہ کی سابقہ معلومات پر مبنی سوالات و جوابات کی بنا پر سبق کا موضوع یا عنوان بتایا جائے۔ اس کے پیچھے یہ فکر کارفرما ہے کہ طلبہ کو تدریس کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا جائے تاکہ وہ پڑھائے جانے والے سبق میں خاطر خواہ دلچسپی لیں۔اعلانِ سبق کے بعد موزوں آواز، صحیح تلفظ اور درست لب و لہجہ کے ساتھ سبق کی بلند خوانی کی جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ استاد کی بلند خوانی ایسی ہو کہ سبق کا مفہوم خود بہ خود واضح ہو جائے۔ظاہر سی بات ہے بلند خوانی کے ذریعے مفہوم کو واضح کرنے میں استاد کو اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑے گا۔ اس میں مؤثر آواز کے ساتھ ساتھ آوازوںکا اتار چڑھاؤ، لب و لہجہ ، الفاظ کی ادائیگی، تلفظ کی درستگی، حرکات و سکنات، سب کچھ شامل ہے۔ بلند خوانی کے بعد چند مقصدی سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاموش مطالعہ کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ طلبہ انہماک اور یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کر سکیں۔
اس کے بعد ایک اہم مسئلہ عبارت کی تفہیم کا آتا ہے جس میں جملوں یا عبارت کے پیچھے چھپے ہوئے مفہوم کو واضح کرنا ہوتا ہے اور طلبہ کے ذہن کو جھنجھوڑنا ہوتا ہے۔الفاظ کے معنی اخذ کرائے جاتے ہیں تاکہ طالب علم ایک لفظ کے ایک سے زائد استعمالات سے روشناس ہو سکے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ اساتذہ تمہید کے بغیر سبق پڑھانا شروع کر دیتے ہیں، پھر سوالات کے جواب اور الفاظ کے معنی تختۂ سیاہ پر لکھ دیتے ہیں یا لکھوا دیتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس میں طلبہ کا کوئی رول نہیں ہوتا، وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اسکولوں سے نکل کرجب طلبہ جامعات اور کالجوں میں جاتے ہیںتو وہ یہ عادت اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور تعلیم و تدریس میں حصّہ نہیں لیتے بلکہ بیزار بیزار سے نظر آتے ہیں۔ جامعات اور کالجوں میں بھی زبان کے ترسیلی رول کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہاں زبان صرف ادب بن کر رہ جاتی ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کسی بھی جریدے میںا گر کوئی مضمون غالب، اقبال، میر، پریم چند وغیرہ سے ہٹ کر ہوتا ہے تو اس پرزیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ جامعات اور کالجوں میں عام طور سے لیکچر اور بحث و مباحثہ (وہ بھی بہت کم)پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جب یہی طلبہ بی ایڈ یا ڈی ایڈ کرنے آتے ہیںاور ان کو تدریس کے مختلف طریقوں سے روشناس کرایا جاتا ہے تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیںکہ اب تک تو ہم نے ایسا نہیں کیا تھا۔
ایک اہم مسئلہ اردو کے مقاصد کے تعین کا ہے۔ عام طور پر کسی زبان کو پڑھانے کے چار مقاصد ہیں: سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا۔ ایک مضمون کی حیثیت سے نثر ، نظم، انشا اور قواعد کے الگ الگ مقاصدہوتے ہیں اور ہرمقصد کے عمومی اورخصوصی مقاصد ہوتے ہیں جیسے نثر کی تدریس کے دو مقاصدافہامِ مطالب اور اظہارمافی الضمیرہیں۔ نظم کے تین مقاصد ہیںجن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور استحسان ہیں۔ انشا کے مقاصد بھی تین ہیں جن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور اطلاق ہیں۔ اسی طرح قواعد کے بھی تین مقاصد یعنی علم، فہم اور اطلاق ہیں ۔ ہم اردو مضمون کے طلبہ کواس درجہ بندیٔ مقاصد کے ساتھ نہیں پڑھاتے بلکہ عام اور خاص مقاصد سے کام چلاتے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہماری درسی کتابوںہی میں مقاصد کی یہ درجہ بندی نہیں ہے اور مقاصد کا پیش نگاہ رکھنا کیوں ضروری ہیں اس کا بیان نہیں ہے تواس صورت میں طالب علم کس طرح صحیح علم حاصل کریگا اور جب صحیح علم حاصل نہیں ہوگا تو وہ پڑھائے گا کیسے؟ یہاں ضرورت ہے کہ اُردو تدریس کی بنیادی باتوں کو واضح کیا جائے۔
یہ دریافت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نمونے کا سبق ایک طالب علم کیلئے تیار کیا جا رہا ہے یا پوری جماعت کیلئے۔ نفسیاتی اُصول یہ ہے کہ نمونے کا سبق فردِ واحد کو ذہن میں رکھ کر تیارکیا جانا چاہئے کیونکہ ہر طالب علم اپنی انفرادیت لے کر جماعت میں آتا ہے۔ نمونے کا سبق تیار کرتے وقت یا پڑھاتے وقت اس نفسیاتی اصول کو سامنے رکھنا چاہئے کہ جماعت میں بیٹھا ہوا ہر طالب علم دوسرے سے الگ ہے۔ ہمیں اردو کی کتابوں میںکہیں بھی طالب علم کا لفظ نہیں ملتا بلکہ ’طلبہ‘ ملتا ہے۔ کتابوں میں فردِ واحد نہ ہونے کی وجہ سے بھرم پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نمونے کا سبق تیار کرتے وقت طلبہ کی جگہ طالب علم لکھا جائے تاکہ ہر طالب علم کو توجہ کا مرکز بنایا جاسکے۔
ہمارے طلبہ کے ساتھ ایک اور مسئلہ تلفظ کا ہے۔ سند یافتہ ایم اے کا تلفظ بھی اتنا خراب ہوتا ہے کہ رونا آتا ہے۔ تلفظ کون درست کرائے؟ بی ایڈ، ڈی ایڈ، جامعات یا اسکول کے اساتذہ؟ طالب علم کا تلفظ درست کرنے کا عمل اسکول میں داخلہ لیتے ہی شروع ہو جاتا ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تلفظ کی بنیادی ذمے داری ان اساتذہ کی ہے جو اسکول میں اُردو زبان دانی پڑھاتے ہیں۔ اسکولوں کے یہ اساتذہ بی ایڈ یا ڈی ایڈ کرنے کے بعد ہی پڑھاتے ہیں لیکن بی ایڈمیں آنے سے پہلے یہ طلبہ جامعات سے آتے ہیں۔ جامعات سے آنے کے بعد بھی طلبہ کا تلفظ درست نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ بی ایڈ یا ڈی ایڈ میں تدریسی طریقے بتائے جائیں یا تلفظ درست کرایا جائے؟ عام طور سے طلبہ جیسا تلفظ لے کر آتے ہیں اس تلفظ کے ساتھ ہی وہ اسکول میں پڑھانے جاتے ہیں لہٰذا جب اساتذہ کا تلفظ درست نہیں ہوگا تو وہ طلبا کا تلفظ کیا درست کریں گے۔ ہمیں کسی بھی سطح پر تلفظ کو ایک معمولی غلطی سمجھ کرچھوڑنے کے بجائے کوشش کرنی چاہئے کہ ہر سطح پر طلبہ کا تلفظ درست کیا جائے۔
 ہماری پریشانی یہ ہے کہ اردو میں کوئی جامع تکنیک نہیں ہے جس کی بنیاد پر طریقۂ تدریس کے اصولوں کو واضح کیا جا سکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہم اردو کو دوسری زبانوں کی طرح ترسیل کی زبان نہیں سمجھتے جبکہ زبان کی حیثیت سے ہر زبان کے بنیادی اصول ایک جیسے ہیں۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ ہم نے اُردو کو خالص ادبی زبان بنا دیا ہے۔ ہمیں اردو کی ادبی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس کی ترسیل کے رول کو بھی اہمیت دینی ہوگی تب ہی ہم اردو (تدریس) کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK