ماہ رمضان کی آخری شب یعنی چاند رات کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ دیگر اہم راتوں کی، مگر افسوس کہ اس شب کو اکثر بازاروں وغیرہ کی نذر کردیا جاتا ہے ۔اِس مضمون میں لیلۃ الجائزہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے
عید کی چاند رات کو بھی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ عبادت میں گزرے
رمضان المبارک کے بابرکت اور مقدس مہینے کے اختتام پر آنے والی رات ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی شب ِعیدالفطر آتی ہے جوکہ چاند رات کے نام سے معروف ہے، یہ رات خصوصی برکتوں، رحمتوں، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے۔ اس رات میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخی اور فیاض ہو کر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، مگر یہ کم نصیبی کی بات ہے کہ لوگ عموماً اس سے غافل رہتے ہیں اور یوں اس عظیم رات کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہوئے بدنصیبی کا سبب بنتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں اس رات یعنی شب عید کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) سے پکارا گیا ہے، جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیت سے عبادت کرنے والوں کیلئے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ماہِ مبارک میں اپنی عبادات اور روزوں سے اس ماہ مقدس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لئے برحق بنایا، جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور یوں اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوار اور انعامات کے حق دار ٹھہرے۔
’’لیلۃ الجائزہ‘‘ پر فرشتوں میں بھی خوشی کی دھوم مچی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرما کر دریافت فرماتا ہے: ’’اس مزدور کی اجرت کیا ہے، جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری جزا اور اُجرت ملنی چاہئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو! تم گواہ رہو، میں نے امت محمد ﷺ کے روزے داروں کو اجرت دے دی، یعنی روزے داروں کو بخش دیا۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی شب عید (لیلۃ الجائزہ) کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ امام الانبیاء حضرت محمدﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں: (۱) پہلی یہ کہ اِس اُمت کے (روزے دار کے) منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (۲) دوسری یہ کہ اس کے (روزے دار کے) لئے مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ (۳) جنت ہر روز ان کیلئے آراستہ کی جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر میری طرف آئیں۔ (۴) اس میں سرکش شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں، اور (۵) رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓکرام نے عرض کیا ’’کیا یہ شب ِ مغفرت ’’شب ِ قدر‘‘ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ (اللہ کا) دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزار،بیہقی)
لیلۃ الجائزہ (شب عیدالفطر) کی رات خاص طور پر عبادت میں مشغول رہنے کی رات ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’جو شخص ثواب کی نیت (یقین) کرکے دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) میں جاگے (اور عبادت میں مشغول رہے) اس کا دل اس دن نہ مرے گا (مُردہ نہ ہوگا) جس دن سب کے دل مرجائیں گے (یعنی فتنہ و فساد کے وقت اور قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک دن میں بھی یہ دل محفوظ رہے گا)۔ (ابن ماجہ)
ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کیلئے) جاگا اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی۔ وہ پانچ راتیں یہ ہیں: (۱) لیلۃ الترویہ (۸؍ ذی الحجہ کی رات)۔ (۲) لیلۃ العرفہ (۹؍ ذی الحجہ کی رات)۔ (۳) لیلۃ النحر (۱۰؍ذی الحجہ یعنی عیدالاضحی کی رات)۔ (۴) لیلۃ الجائزہ یعنی عیدالفطر کی رات، اور (۵) شب برأت (۱۵؍ شعبان کی رات) (ترغیب و ترہیب)
یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ہمارے اسلافؒ ان راتوں کی قدر فرماتے اور ان میں عبادت، ذکر و اذکار اور دعا و مناجات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔ فقہاء نے بھی عیدین کی راتوں میں جاگنا مستحب لکھا ہے۔
لیلۃ الجائزہ اللہ رب العزت کے خصوصی فضل و کرم کی بڑی عظمت و فضیلت والی رات ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کی اُمت کو عطا کیا گیا خصوصی تحفہ ہے جس کی اس کے بندوں کو بے حد قدر کرنی چاہئے اور اس مبارک شب کے قیمتی اور بابرکت لمحات کو خرافات میں ضائع کرنے کے بجائے توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر و اذکار، نوافل اور دعائوں میں بسر کیا جائے۔
عموماً لوگ اس رات میں شب بیداری کرکے عبادات کا کوئی اہتمام نہیں کرتے بلکہ اس رات کو سیرو تفریح، ہوٹلوں میں کھانے پینے اور بازاروں میں خریداری کی نذر کردیتے ہیں، یہ بڑی محرومی کی بات ہے۔ اللہ پاک، ایسی محرومی سے ہماری حفاظت فرمائے، آمین