• Sun, 09 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’عدت کے بعد چائے بناتے ہوئے احساس ہوا، اب منصور تھے نہ پھوپھو جان‘‘

Updated: November 09, 2025, 12:27 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

انگریزی کی مشہور اور ۵۰؍ سے زائد ناولوں کی خالق عندلیب واجد کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’لرننگ ٹو میک ٹی فار وَن‘ کا جائزہ، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے اُتار چڑھاؤ کو بیان کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ مشکل حالات سے باہر کیسے نکلنا چاہئے۔

Book cover and author Andaleeb Wajid. Photo: INN
کتاب کا عکس اور مصنفہ عندلیب واجد۔ تصویر: آئی این این

ہندوستانی انگریزی ادب میں خواتین مصنفات کی فہرست طویل ہے۔ اس فہرست میں جدید دور کی ناول نگار عندلیب واجد نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ فعال ادیبہ ہیں، ۵۰؍ سے زائد ناولوں کی خالق ہیں۔ نوجوانوں کا ادب، رومانی کہانیاں اور سسپنس جیسے اصناف میں ان کا کام ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ’ مور دین جسٹ بریانی، مائی بردرس ویڈنگ، دی حنا اسٹارٹ اپ، کائٹ اسڑنگس اورہاؤس آف اسکریمس‘ وغیرہ ان کی مقبول کتابیں ہیں۔ ان کے ایک ناول کو فلمایا گیا۔ گزشتہ سال’دل دوستی ڈائلما‘ کے عنوان سے امیزون پرائم ویڈیو پر۷؍ قسطوں میں یہ سیریل دکھایا گیا۔ انہوں نے ابتدا میں مختصر کہانیاں اور مضامین لکھے لیکن جلد ہی ناول ان کا اصل میدانِ کار بن گیا۔ 
عندلیب کا اسلوب سادہ لیکن دلکش ہے۔ وہ جواں سال کتب بینوں کے ساتھ آسانی سے مکالمہ کرنے کی قابلِ قدر صلاحیت رکھتی ہیں۔ خود کو ایک اسٹوری ٹیلر یعنی قصہ گو کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اس افسانہ گو کی غیر افسانوی تخلیق، حال ہی میں شائع ہوئی۔ خود نوشت کا عنوان بھی خوب ہے؛ ’لرننگ ٹو میک ٹی فور ون‘ جس کا لفظی ترجمہ ذائقہ خراب کرسکتا ہے۔ یوں پڑھیں ؛ صرف ایک پیالی چائے بنانےکا کرب !
۲۰۲۱ء میں عالمی وبا کی دوسری لہر کے دوران عندلیب، ان کی ساس اور شوہر کووڈ کی زد میں آئے۔ دونوں خواتین اسپتال کے ایک مشترکہ کمرے میں رہیں۔ شوہر کو دوسرے اسپتال میں جگہ ملی۔ عندلیب تو صحت یاب ہوکر لوٹیں لیکن ساس اور شوہر بس دو روز کے فاصلے سے دنیا چھوڑ گئے۔ اپنوں کے جانے کا صدمہ ہر انسان پر مختلف انداز سے اثر ڈالتا ہے۔ وقت ہر زخم کا مرہم ہے، پر ایسے درد کا درماں ایک طویل مدت طلب کرتا ہے۔ ایک ہوشمند، مضبوط، فیصلے کرسکنے والی عورت نے بچوں کے حوصلوں کو برقرار رکھنے کی خاطر یقیناً اپنے دکھ کو سینے میں چھپائے رکھا لیکن ایک حساس رائٹر نے اس غم کو کیسے برداشت کیا؟ کیا افسانہ لکھنے کا عمل بھی اس ذہنی و قلبی عارضے سے شفا یابی میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ شاید ہاں ۔ 
عندلیب بچپن میں ایک کھوئی کھوئی سی رہنے والی لڑکی تھی۔ ساتویں جماعت میں جب ایک ٹسٹ میں اس بچی کو صفر ملا تو اُس کی حالت غیر ہوگئی۔ ابّو کو کیسے بتائے کہ وہ ان کی توقعات پر پوری نہیں اترتی؟ کیسے کہے؟ شرمندگی، والد کا احترام اور بچی کا بول نہ پانا۔ پریشانی کے عالم میں اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ ہمت کرکے، ایک کاغذ پر اس نے اپنا مسئلہ تحریر کیا کہ اسے ریاضی میں کچھ پلے نہیں پڑتا۔ ٹفن پہنچانے آئی ملازمہ کے ہاتھوں یہ رقعہ گھر بھجوا دیا۔ نتیجتاً شام کو ابّو نے اپنے کمرے میں بلا کر سارے معاملے کی تفہیم کی۔ اِندو نامی ایک ٹیوٹرکی تقرری عمل میں آئی۔ عندلیب کی اِندو آنٹی سے دوستی ہوگئی۔ اُس میں خود اعتمادی لوٹ آئی۔ اُس سال اس نے کلاس میں ۱۲؍ واں مقام حاصل کیا۔ کہتی ہیں کہ ’’اس ایک تحریر نے میری زندگی بدل ڈالی۔ ‘‘
کالج کے دوسرے ہی برس عندلیب اپنے پھوپی زاد منصور سے بیاہ دی گئیں جبکہ وہ اپنی سہیلیوں کی طرح کریئر بنانا چاہتی تھیں۔ انھیں اپنے انفرادی وجود کے ’کچھ ہونے‘ کا احساس کھونا نہیں تھا۔ منصور نے ان کے جذبات کی قدر کی۔ عندلیب کی چاہت منصور کیلئے یوں بھی تھی کہ خود انا پسند ہونے کے باوجود وہ بیوی کی ترقی اور شہرت پر سدا خوش تھے۔ کہتی ہیں کہ ازدواجی زندگی میں اس بات کی سمجھ انھیں بڑی تاخیر سے آئی۔ 
مصنفہ نے اپنے دکھ کو کسی پردے کے پیچھے چھپایا نہیں۔ وہ رنج وغم، مایوسی، شک اور امید، سب کچھ صاف لفظوں میں بیان کرتی ہیں۔ گہرے احساسِ تنہائی کی باطنی کیفیت کو وہ بار بار بیان کرتی ہیں۔ ’’ہم ایسا جوڑا نہ تھے جس سے ظاہری طور پرباہمی انسیت جھلکتی ہو لیکن زندگی کے منصوبوں پر ہمارے آپسی مکالمے بہت اطمینان بخش ہوا کرتے تھے۔ منصور کی رحلت کے بعد جب یہ گفتگو بند ہوئی تو میں کھو سی گئی۔ ‘‘تعلقات میں کتنی باریکیاں، کتنی پرتیں ہوتی ہیں۔ صحت یاب ہوکر جب اسپتال سے چھوٹیں تو وہ پلاسٹک کا حفاظتی خول پہن کر منصور سے ملنے گئیں۔ منصور نہیں چاہتے تھے کہ وہ آئیں۔ مرد پریکٹیکل تھا اوربیحد پریکٹیکل عورت بھی جذباتی! عندلیب اپنی دل شکنی کسے دکھاتیں ؟ جب جب منصور کی حالت بگڑنے کی خبر آتی عندلیب کا دل بیٹھ جاتا لیکن دماغ عملی خیالات کے سہارے اُٹھ کھڑا ہوجاتا۔ 
قارئین کو وہ مشورہ دیتی ہیں ’’ پتیلی میں چائےکیلئے پانی چڑھائیں تو اسے ابلتے ہوئے دیکھنے کیلئے کھڑی نہ رہیں۔ جب تک چائے کی پتیاں دودھ میں بکھرتی ہیں کوئی اور کام نمٹالیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تھوڑی دیر کیلئے چائے کو بھول جائیں اور جب وہ پکّے بھورے رنگ کی ہوجائے تو واپس آجائیں۔ اب آپ چائے چھان کر پیش کریں اور ایک خفیف مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں کی تعریفیں قبول کریں۔ ‘‘ اب وہ منصور کو یاد کرتی ہیں۔ خالی بیٹھا دیکھ منصور ہمیشہ چائے طلب کرتے۔ اکثر وہ پھٹ پڑتیں کہ یہ کیا وقت بے وقت کی فرمائش ہے۔ تین افراد کی چائے بنتی تھی۔ عدّت کی تکمیل کے بعد جب عندلیب پہلی دفعہ چائے بنانے لگیں تو نادانستہ طور پر تین کپ دودھ برتن میں ڈالا۔ معاً احساس ہوا کہ اب منصور تھے نہ پھوپھوجان۔ بس اپنے لئے ایک پیالی چائے بنانی تھی۔ اور یہ کام سیکھنا کتنا کٹھن تھا۔ 
کتاب اس طرح لکھی گئی ہے کہ قاری خود سے ربط محسوس کرے، اور اسے لگے کہ اس کا اپنا غم، اپنی تنہائی، اپنی یادیں بھی اس سیاق و سباق سے مطابقت رکھتی ہیں۔ راقم الحروف بھی کووڈ کے دنوں کو یاد کر کے افسردہ ہو جاتا ہے۔ راتوں کی بھیانک خاموشی میں ایمبولنسوں کے سائرن، دن میں پولیس کا لڑکوں کو پیٹنا، ہزاروں لاشوں کی باعزت آخری رسوم سے محرومی۔ خود اپنوں کی جدائی کا غم۔ ایک عالمِ بے بسی! راقم سوچتا ہے کہ ادب اور ادیب، انسانیت پر گزرے اس عظیم سانحے سے اس طرح لاتعلق کیوں رہے؟ شاعری اور نثر کھنگال لیجئے اور خود دیکھئے کہ کیا ہاتھ آتا ہے۔ 
عندلیب واجد کا تعلق بنگلور سے ہے، جو ٹیکنالوجی اور جدیدیت کے ساتھ ساتھ ایک قدیم تہذیبی ورثہ بھی رکھتا ہے۔ یہی امتزاج ان کی کی تحریروں میں جھلکتا ہے۔ وہ روایت اور جدت کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ ان کے ناولوں میں مزاح بھی ہے، رومانس بھی، فلسفہ بھی اور زندگی کے تلخ حقائق بھی۔ ہاں، تحریروں میں کہیں کہیں مارکیٹنگ میں سہولت پیدا کرنے والے اجزا کی پیوندکاری چھپ نہیں پاتی۔ وہ ماڈرن زمانے کی خاتون ہیں لیکن اپنے تہذیبی اقدار کو بھی سینے سے لگائے رکھتی ہیں۔ ان کا فن ہندوستانی مسلم خواتین کی نئی شناخت کا آئینہ دار ہے؛ تعلیم یافتہ، حساس، تخلیقی اور خود کفیل۔ 
زیرنظر کتاب میں قارئین، جو زیادہ تر نوعمر اور جوان افراد ہیں، عندلیب کی زندگی میں موجود روحانیت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ والدین کے ساتھ اور بعد میں شوہر اور بچوں کے ساتھ عمرہ اور حج کے دوران دلی جذبات اور روحانی تجربات کو بڑی سلاست سے بیان کرتی ہیں۔ قارئین کے وسیع حلقے کا لحاظ کرتے ہوئے اسلامی رسوم اورعبادات کی ہلکی پھلکی وضاحت بھی کرتی جاتی ہیں۔ عندلیب کی تعلیم انگریزی میں ہوئی لیکن اُن کی اردو پڑھنا لکھنا بھی سکھایا گیا تھا۔ بچپن میں گھر کے سب بچوں کے ساتھ کرشن چندر کی ’چڑیوں کی الف لیلیٰ‘ کا پڑھنا ان کی شیریں یادوں کا حصہ ہے۔ 
ان کی زیادہ تر کہانیاں مسلم ماحول کے ارد گرد گھومتی ہیں، اکثر کردار بھی مسلمان ہوتے ہیں، لیکن وہ انہیں صرف مذہبی نمائندگی کیلئے محدود نہیں رہنے دیتیں۔ کہتی ہیں کہ وہ صرف ایک اچھی کہانی لکھنا چاہتی ہیں، نہ کہ صرف مسلم معاشرے کی تصویر کشی۔ وہ مذہب کو کردار کا جزو بناتی ہیں، مگر اسے محورِ داستان نہیں بناتیں۔ یہ خوبی ہے۔ کہانی سماجی بحث تک محدود ہو کر نہیں رہ جاتی۔ 
کتاب ایک کیفیتِ یاس سے شروع ہوتی ہے، مگر عقب میں ایک مسلسل رجحان ہے، امید کا ایک عمل ہے جو صدمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ منصور کی موت کے وقت عندلیب نے شاید زندگی کی ۴۰؍ بہاریں بھی نہ دیکھی تھیں۔ پھر انھوں نے اپنے بکھرے وجود کو کس طرح سمیٹا؟ وہ اپنے کو بیوہ کیوں نہیں سمجھتیں ؟ قلم، لیپ ٹاپ اور تحریر کی مدد سے انھوں نے ایک حیاتِ نو کیسے تشکیل دی؟ ان سوالوں کے جواب کیلئے آپ کو ۲۲۲؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پڑھنی چاہئے۔ سینے میں دل رکھنے والے ہرعمر کے خواتین و مرد اس کتاب کو پسند کریں گے۔ 
زیر نظرکتاب یاد دلاتی ہے کہ اکیلے ہونا تنہائی نہیں، خود سے رشتہ جوڑنے کا موقع ہے۔ جب پڑھ کر ختم ہوئی تو راقم نے ایک نرم سی دستک سنی۔ اندرون سے ابھرتی ایک سرگوشی:’’رک جاؤ، ایک کپ چائے بناؤ، اور ذرا خود سے بات کرو۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK