اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اخلاقی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اسی سے روشنی لینی چاہئے۔ یاد رہے کہ خوش اخلاقی سخت سے سخت دل کو بھی پگھلانے کی طاقت رکھتی ہے۔ کلام اللہ میں جہاں انبیاء کرام اور ان کی اقوام کا احوال بتایا گیا، اور قوموں کی اپنے انبیاء کے ساتھ بد سلوکی و بد زبانی اور اس کے مقابلہ میں انبیاء کا انتہائی درجہ تحمل کا ذکر ملتا ہے وہیں آپؐکی بابت فرمایا گیا کہ آپؐ بلند اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر تھے۔
فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے عام معافی کا اعلان کرکے عفوودرگزر کی وہ نظیر پیش کی کہ جس کی مثال تاقیامت نہیں مل سکتی۔ تصویر: آئی این این
اﷲ کی طرف سے جو نبی اور رسول آتے ہیں، وہ انسانیت کے لئے نمونہ اور آئیڈیل ہوتے ہیں، ان کا ہر عمل لوگوں کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتا ہے؛ اسی لئے وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ ترین معیار پر قائم رہتے ہیں، ان کی عبادتیں خشوع و خضوع کا نمونہ ہوتی ہیں، ان کے معاملات پوری طرح راست گوئی اور پاکیزگی پر مبنی ہوتے ہیں، ان کی معاشرت حسن سلوک اورسماج کے مختلف طبقوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور حقوق کی ادائیگی کی بہترین مثال ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر ہوتے ہیں۔ یہ بات اس لئے بھی ضروری ہے کہ نبی کا بنیادی فریضہ دعوت و تبلیغ ہے اور دعوت کے مؤثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مدعو پر اس کے اخلاق وسلوک کے بہترین نقوش ثبت ہوں ؛ کیوں کہ محبت اور خوش اخلاقی سخت سے سخت دل کو بھی پگھلانے کی طاقت رکھتی ہے، قرآن مجید میں مختلف انبیاء کرام اور ان کی اقوام کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں، ان واقعات میں قوموں کی اپنے انبیاء کے ساتھ بد سلوکی و بد زبانی اور اس کے مقابلہ میں انبیاء کی طرف سے انتہائی درجہ تحمل و بردباری اور خوش گفتاری کا ذکر ملتا ہے۔
جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ بلند اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر تھے؛ اسی لئے قرآن مجید میں آپؐکے بارے میں کہا گیا ہے: ’’ بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔ ‘‘ (القلم :۴) اکثر اخلاقی کمزوریوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے، وہ گفتگو تو بہت اونچی کرتا ہے؛ لیکن عمل میں بہت نیچی سطح پر ہوتا ہے۔ آپؐ کی حیات ِ مبارکہ میں قول و فعل کا تضاد بالکل نہیں تھا، آپؐ لوگوں کو جس بات کی دعوت دیتے اسی پر آپؐ کا عمل ہوتا؛ اسی لئے حضرت عائشہؓ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اخلاق محمدیؐ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپؐ سراپا قرآن تھے۔ (مسند احمد : ۶؍۹۱ )
تواضع و انکساری
آپؐ کے مزاج کا نمایاں پہلو تواضع و انکساری کا تھا۔ آپؐ مقام نبوت پر فائز ہیں اور پورا جزیرۃ العرب آپؐ کے قدموں میں ہے؛ لیکن تواضع اور سادگی کا حال یہ تھا کہ گھر پر خود جھاڑو دے لیتے، بازار سے سودا لاتے، جوتی پھٹ جاتی تو اسے سی لیتے اور بکری کا دُودھ دوہ لیتے، ( مسند احمد، حدیث نمبر : ۲۵۶۶۲) کھانے کے لئے بیٹھتے تو نہایت تواضع کی کیفیت کے ساتھ، اور فرماتے کہ میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کو کھانا چاہئے۔ (مسند البزار، حدیث نمبر: ۵۷۵۲) اگر کوئی غریب آدمی کسی معمولی سی چیز پر مدعو کرتا تو اس کی دعوت بھی قبول فرمالیتے، مریضوں کے گھر پہنچ کر ان کی عیادت فرماتے، غلاموں کی دعوت بھی قبول فرماتے، ہر عام وخاص کے جنازہ میں شریک ہوتے، گدھے کو معمولی سواری سمجھا جاتا تھا، مگر آپؐ اس کی بھی سواری کیا کرتے تھے اور اگر کوئی غلام دعوت دے تو اسے بھی قبول فرماتے تھے۔ (مدارج السالکین : ۲؍۳۲۸)
لوگ تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے تو منع فرما دیتے، اگر کسی باندی کا بھی کوئی کام ہوتا اور وہ بھی سرِ راہ اپنی کسی ضرورت کیلئے روکتی تورُک جاتے، بڑے تو بڑے، چھوٹے بچوں کو بھی سلام فرماتے، (بخاری، عن انس ؓ، حدیث نمبر : ۶۲۴۷) رفقاء کے ساتھ اس طرح بیٹھتے کہ امتیازی شناخت نہ ہونے کی بناء پر لوگ آپؐ کو پہچان نہ پاتے۔ تواضع و فروتنی کا یہ حال ہم آپ بار بار سنتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر جب دس ہزار مسلح جاں نثار آپؐ کے گرد و پیش تھے، انکساری کی وجہ سے آپؐ کا سرمبارک اس قدر جھکا ہوا تھا کہ بار بار اونٹنی کے کوہان سے ٹکرا جاتا تھا۔
آپؐ کا رہن سہن بھی تواضع کا مظہر تھا؛ ایک بار حضرت عمرؓ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپؐ کھلی چٹائی پر آرام فرمارہے ہیں، جس پر کوئی بستر بھی نہیں ہے اور سر مبارک کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے، جس میں چھالیں بھری ہوئی ہیں، بدن مبارک پر چٹائی کے نشانات ہیں، حضرت عمر ؓیہ منظر دیکھ کر رونے لگے، آپؐ نے سبب دریافت کیا، کہنے لگے: اللہ کے رسولؐ! قیصر و کسریٰ تو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہے ہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہونے کے باوجود اس حالت میں ہیں ؟ ارشاد ہوا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۵۸۴۳) حج کا سفر فرمایا تو ایک پرانے کجاوے پر، اور اس پر ایک ایسے کپڑے کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا، جس کی قیمت چار درہم سے بھی کم ہی ہوگی۔ (رواہ ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۸۹۰)۔ آپؐ چاہتے تو بہتر سے بہتر کپڑا آپؐ کو میسر آسکتا تھا؛ لیکن آپؐ ہمیشہ تواضع کا راستہ اختیار کرتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو جسم اقدس پر ایک چادر اورگاڑھی کھردری تہبند تھی۔ (بخاری، عن عائشہؓ، حدیث نمبر: ۵۸۱۸ )
تواضع ہی کا ایک پہلو یہ تھا کہ تعظیم میں مبالغہ کو پسند نہیں کرتے تھے، بعض صحابہ دوسرے علاقوں میں گئے تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں، انہوں نے آپؐ سے سجدہ کی اجازت چاہی اور عرض کیا: آپ تو ان سے زیادہ مسجود بننے کے مستحق ہیں مگر آپؐ نے یہ کہہ کر فرمایا کہ خدا کے سوا کسی کیلئے سجدہ روا نہیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الرضاع، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر : ۱۱۵۹) ایک انصاری کی شادی میں کچھ لڑکیاں دف کے ساتھ نغمے گارہی تھیں ، انہوں نے اس میں ایک مصرع پڑھا: ’’اور ہمارے بیچ ایسے پیغمبر ہیں جو کل واقع ہونے والی باتوں کو جانتے ہیں۔ ‘‘ آپؐ نے اس مصرع کو پڑھنے سے منع فرما دیا۔ (بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر : ۴۰۰۱ ) جس روز آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓکی وفات ہوئی، اتفاق سے اسی دن سورج گہن لگ گیا، جاہلیت کے قدیم تصور کے مطابق لوگ کہنے لگے: صاحبزادۂ نبوی کے انتقال کی وجہ سے گہن لگا ہے، آپؐ نے فوراً اس کی تردید میں باضابطہ خطبہ ارشاد فرمایا۔
آپؐ نے تواضع پر عمل بھی کیا اور اُمت کو بھی اس کی تلقین فرمائی؛ کیوں کہ تواضع حسن اخلاق کی بنیاد ہے اور تکبر بد اخلاقی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس شخص کے لئے خوشخبری ہےجو تواضع اختیار کرے۔ (الترغیب و الترہیب: ۳۰؍۵۵۸) ایک موقع پر ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں۔ (مسلم، عن ابی ہریرہؓ)
چوں کہ تواضع کا مظہر ظاہری سادگی بھی ہے؛ اس لئے آپ لباس و پوشاک اور رہن سہن میں سادگی کو پسند فرماتے تھے، آپؐ نے فرمایا: سادگی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (ابوداؤد، عن ابی امامہ حارثی، حدیث نمبر : ۴۱۶۱) ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود تواضع اختیار کرتے ہوئے عمدہ لباس نہیں پہنا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور جو لباس وہ پسند کرے گا، اسے اس کو پہننے کا اختیار دیا جائے گا۔ ( ترمذی، عن معاذ بن انسؓ، حدیث نمبر: ۳۴۸۱)
اس تواضع کا ایک مظہر یہ تھا کہ آپؐ غرباء کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے تھے، آپؐ نے فرمایا کہ مجھے غریب لوگوں کے درمیان تلاش کرو، اس لئے کہ تمہیں تمہارے کمزوروں کی وجہ سے ہی روزی دی جاتی ہے اور مدد کی جاتی ہے۔ ( ترمذی، حدیث نمبر: ۱۷۰۲)
عفو و درگزر
عفو و در گزر کا باب آپؐ کے یہاں بہت وسیع تھا اور دوستوں اور دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا۔ جب مکہ فتح ہوا تو وہ سارے لوگ آپؐ کے سامنے موجود تھے، جنہوں نے آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے، آپؐ کو اور آپؐ کے رفقاء کو شدید جسمانی اذیتیں پہنچائیں، آپؐ کو بُرا بھلا کہا، معاشی ناکہ بندی کی اور آپؐ کے پورے خاندان کو دانہ دانہ کے لئے ترسایا، آپؐ کی صاحبزادیوں کے طے رشتے ختم کروا دیئے؛ لیکن آپؐ نے ان سبھوں کو بیک جنبشِ زبان معاف فرما دیا۔ یہاں تک کہ ان کے جور و ظلم کا ذکر کرکے انہیں شرمندہ بھی نہیں فرمایا، آپؐ نے اپنے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کے قاتل حضرت وحشیؓ، ان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ، بدترین دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ اور غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں مشرکین کی قیادت کرنے والے ابوسفیان سبھوں کو دامنِ عفو میں پناہ دی۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ چل رہا تھا، آپ سخت کناروں والی نجران کی بُنی ہوئی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ ایک دیہاتی کی آپؐ سے ملاقات ہوئی، اس نے بہت زور سے چادر کھینچی، میں نے دیکھا کہ رسولؐ اللہ کی گردن پر اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کا نشان پڑ گیا۔ اس نے کہا : اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے، مجھے اس میں سے دینے کا حکم دو، رسولؐ اللہ اس کی طرف متوجہ ہوئے، تبسم فرمایا اور پھر اس کو دینے کا حکم دیا۔ ( بخاری، حدیث نمبر : ۶۰۸۸)
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سواری پر سوار ہوئے اور حضرت اسامہؓ کو اپنے پیچھے بیٹھالیا، آپ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے جارہے تھے، آپؐ کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا، جہاں مسلمان بھی تھے، مشرکین بھی تھے اوریہود بھی تھے۔ انہی میں منافقین کا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا اور مخلص صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ بھی تھے۔ آپؐ کی سواری کا غبار اُڑا اور اس مجلس میں پھیل گیا۔ عبد اللہ بن ابی نے ناک پر چادر رکھ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اُڑاؤ۔ حضورؐ نے اس مجمع کو سلام کیا، پھر سواری سے اُترے اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دی، نیز ان کے سامنے قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ عبد اللہ بن ابی کہنے لگا: اس سے اچھی کوئی اور بات تمہارے پاس نہیں ہے؟ تم جو کچھ کہہ رہے ہو، اگر یہ سچ اورحق ہے تو ہمیں ہماری بیٹھکوں میں تکلیف نہ دیا کرو اور جاؤ اپنے گھر، اگر ہم میں سے کوئی تمہارے پاس آئے تو اس سے بیان کیا کرو۔ عبداللہ ابن ابی کا طرز عمل نہایت حقارت آمیز تھا مگر آپؐ نے اس سلوک کو نظر انداز کردیا۔ (بخاری، عن اسامہ بن زید، حدیث نمبر: ۶۲۵۴)
ایک موقع پر ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا: تمہارے پاس جو کچھ مال ہے، تمہارا ہے نہ تمہارے باپ کا، مجھے بھی اس میں سے دو۔ آپؐ اندر تشریف لے گئے اور کچھ لاکر عنایت فرمایا۔ عرب کے دیہاتی عام طورپر تہذیب سے ناآشنا ہوتے تھے، وہ کہنے لگے: آپؐ نے بہتر برتاؤ نہیں کیا اور نہ اچھے اخلاق کا ثبوت دیا، آپؐ اندر تشریف لے گئے، جو کچھ بچ گیا تھا، وہ بھی لے آئے اور عنایت فرمادیا۔ دیہاتی بہت خوش ہوا، کہنے لگا: آپؐ نے بہت اچھا سلوک فرمایا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ پھر آپؐ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا: میری مثال اس شخص کی ہے جس کا اونٹ بِدک گیا ہو، لوگ اس اونٹ کو پکڑنے کے لئے دوڑیں، لوگ جس قدر دوڑتے، اونٹ اسی قدر بھاگتا جاتا، یہاں تک کہ اونٹ کے مالک کو خبر ہوئی، اس نے لوگوں کو منع کردیا اورپیار کے ساتھ اپنے ہاتھ میں چارا لے کر اونٹنی کو آواز دی، اونٹنی واپس آنے لگی۔ مالک اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے واپس لے آیا۔ آپؐ نے فرمایا: جو سلوک بِدکی ہوئی اونٹنی کےساتھ اس کے مالک کا ہوتا ہے، وہی سلوک میرا اُمت کے اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے، جو بِدک گیا ہو۔ ( مسند بزار : ۱۵؍۲۹۴، حدیث نمبر: ۸۷۹۹ )
حقیقت یہ ہے کہ رسولؐ اللہ کی پوری حیات ِ مبارکہ عفو و درگزر سے عبارت ہے، آپؐ خود بھی عفو و درگزر سے کام لیتے تھے اور اپنے رفقاء کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک صاحب نے اپنے خادم کے بارے میں دریافت کیا، جس سے بار بار تکلیف پہنچتی تھی کہ ہم کتنی بار اسے معاف کریں ؟ آپؐ خاموش رہے، انہوں نے پھر یہی سوال دُہرایا، تب بھی آپ خاموش رہے، انہوں نے تیسری بارپھر یہی سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہر دن ستر بار معاف کیا کرو۔
(ابوداؤد، عن عبد اللہ بن عمرؓ، حدیث نمبر : ۵۱۶۴ )
عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ بدلہ لینے میں ان کا وقار اور رُعب بڑھ جائیگا اور معاف کرنے میں کم ہو جائیگا، آپؐ نے لوگوں کی اس نفسیات کے پیش نظر فرمایا کہ جو بندہ عفو سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔ ( مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۸۸) ایک موقع پر فرمایا : تم رحم کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا، تم معاف کرو تو اللہ تم کو معاف کرے گا۔ (مسند احمد، عن عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ، حدیث نمبر: ۲۵۸۸۲)۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب باتیں سیکھنے اور عمل کرنے کی ہیں۔