Inquilab Logo Happiest Places to Work

مردوں کی طرح خواتین بھی یکساں توقیر اَور احترام کی حقدار ہیں

Updated: November 17, 2023, 1:37 PM IST | Dr Obaidullah Fahad Falahi | Mumbai

یہ قرآن کی صراحت ہے۔ اسے مرد اور عورت دونوں کی روحانی ترقی مطلوب ہے چنانچہ رضائے الٰہی کے حصول اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کیلئے یکساں مواقع دونوں کو حاصل ہیں۔

A consideration of the style of the Holy Quran shows that there is recognition of the excellence and distinction of both men and women. Photo: INN
قرآن کریم کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مرد اور عورت دونوں کی فضیلت اور امتیاز کا اعتراف ہے۔ تصویر : آئی این این

ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’مرد عورتوں کے سرپرست ہیں ، بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے۔ (النساء: ۳۴)
 مرد کو قوام بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بربنائے جنس وہ برتر اور افضل ہے اور عورت کم تر اور کم مرتبہ ہے، بلکہ گھر کی چھوٹی سی وحدت میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے اور معاشی کفالت، محافظت و مدافعت کی ذمہ داری اُسی کے مضبوط کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ اسی وجہ سے اُسے یک گونہ فضیلت حاصل ہوگئی جو کلّی نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کو ثابت کرتی ہے۔
قرآن کریم کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مرد اور عورت دونوں کی فضیلت اور امتیاز کا اعتراف ہے۔ مرد کی فضیلت یہ ہے کہ اُسے باہر کی دنیا میں تگ و دو کی استعداد زیادہ دی گئی ہے اور حفاظت اور دفاع کی صلاحیت اور ہمت نسبتاً زیادہ بخشی گئی ہے۔ بعض دوسرے پہلو خواتین کے امتیاز اور فضیلت کے ہیں ۔ گھر سنبھالنے، بچوں کی پرورش و پرداخت کرنے اور عائلی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا صبروتحمل اور حکمت و فراست سے مقابلہ کرنے کی جو صلاحیت خواتین میں ہوتی ہے، مرد اُس سے محروم ہوتے ہیں ۔ اُوپر کی آیت میں قرآن نے ابہام کا اسلوب اختیار کیا ہے جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب ِ فضیلت ہونا نکلتا ہے ۔
رقابت فساد کی جڑ ہے
 مردوں کی طرح خواتین کو بھی گھر سے باہر سماجی و معاشی جدوجہد کرنے کیلئے پوری آزادی حاصل ہے۔ اگر ضرورت لاحق ہو تو وہ اپنے فطری دائرۂ کار سے آگے بڑھ کر متحرک ہونے کا حق رکھتی ہیں ، کیونکہ اسلامی معاشرہ میں دونوں اصناف کے درمیان کوئی معرکہ آرائی نہیں ہے۔ دنیوی مال و متاع کے حصول کیلئے باہمی کشمکش اور تنازعات سے یہ معاشرہ پاک ہوتا ہے۔ اس میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی طبقہ دوسرے کے خلاف صف آرا ہو، اس کی نکتہ چینی اور عیب جوئی کرے اور اُس کے مقابلے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑے۔ یاد رہنا چاہئے کہ صنفین کی ساخت اور خصوصیات میں تنوع ہے اور اسی لئے وظائف ِحیات اور ذمہ داریوں میں بھی رنگارنگی اور بوقلمونی ہے۔ اس تصورِ مساوات کو قرآن نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ جیسی کمائی کریں گے اُسی کے مطابق اُن کا حصہ ہوگا۔ جو جتنی اور جیسی بھلائی یا بُرائی کمائے گا اُسی کے مطابق اللہ کے ہاں حصہ پائے گا:
’’ اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں ، اللہ سے اُس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ (النساء :۳۲)
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی جدوجہد کرنے اور گھر سے باہر بھاگ دوڑ کرنے کی آزادی حاصل ہے اور جو کچھ وہ کمائیں گے اُن کا حصہ شمار ہوگا۔ اکتساب کی یہ آزادی دنیاوی و روحانی دونوں میدانوں میں ہے۔ قرآن نے ایسا اسلوبِ بیان اپنایا ہے جس میں آخرت کے ساتھ دنیا کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا بھی شامل ہے۔ اگر یہ آیت معنوی مقاصد کے حصول کیلئے یکساں آزادی دینے کے اعلان تک محدود نہیں ہوتی تو آیت کے اوّلین حصے کا جوڑ بے ربط ہوتا، جس میں اہلِ ایمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دوسروں کی کمائی اور اُن کے مقدر پر حسد اور لالچ نہ کریں اور اللہ نے جو کچھ اُن کے نصیب میں لکھا ہے اُس پر شاکر و صابر اور قانع رہیں ۔
 اِس آیت میں ایک اخلاقی تعلیم یہ بھی دی گئی ہے کہ اجتماعی زندگی میں بدامنی اور انتشار کی بڑی وجہ صبروقناعت کا فقدان اور حسد ورقابت کا بڑھتا ہوا میلان ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے۔ خوب صورتی و بدصورتی میں ، طاقت اور کمزوری میں ، آواز کی نرمی و کرختگی میں ، سلیم الاعضا ہونے اور جسمانی طور پر ناقص ہونے میں ، حالات کی بہتری و بدتری میں ، صلاحیتوں اور قابلیتوں کے فرق و امتیاز میں دُنیا کے انسان برابر نہیں ہیں اور اسی عدمِ برابری پر انسانی تمدن کی عمارت قائم ہے اور ثقافت و تہذیب کی ترقی منحصر ہے۔ اس فطری فرق و امتیاز کو ختم کردیا جائے تو معاشرے میں فساد رُونما ہوجائے اور تمدن کا ارتقاء تھم جائے۔
اخلاقیات کی مساوی پاسداری
قرآن یہ صراحت بھی کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی روحانی ترقی مطلوب ہے اور رضائے الٰہی کے حصول اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کیلئے یکساں مواقع دونوں کو حاصل ہیں ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی دونوں پر فرض ہے۔ اسلامی اخلاق و کردار کا مظاہرہ دونوں کے ذریعہ ہونا چاہئے بحیثیت عادت بھی اور بحیثیت صفت بھی۔ ایمان دین کی ایک جامع تعبیر ہے اور یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں ۔ دل کی پوری یکسوئی اور پوری نیازمندی کے ساتھ خدا و رسول کی فرماں برداری، قول و فعل کا صدق، صبرواستقامت اور استقلال و پامردی، فروتنی و خاکساری اور جلالِ خداوندی کا استحضار، انفاق و تصدق، ضبط ِ نفس اور تربیت صبر کیلئے روزوں کا اہتمام، زیب و زینت کی جاہلانہ نمائش سے پرہیز اور عفت و عصمت پر اصرار اور ذکر الٰہی، یہ وہ اعلیٰ درجے کی صفات ہیں جن سے مرد اور عورت دونوں کو متصف ہونے کی ضرورت ہے۔ اِن ہی صفاتِ محمودہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اسلامی اخلاق و کردار کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
’’بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مَرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں ، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں ، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں ، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں ، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، اللہ نے اِن سب کیلئے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے ۔‘‘(الاحزاب :۳۵)
اس آیت میں قرآن مجید نے ۱۰؍ صفات کا تذکرہ کیا ہے اور اسلامی اخلاق کے جملہ پہلوئوں کو اُن کے اندر اس خوبصورتی سے سمیٹا ہے کہ اس سے بہتر تشریح اور کیا ہوگی:
(۱) اسلام، یعنی ظاہری اطاعت و فرمانبرداری (۲) ایمان، یعنی دین کا باطن جس میں اخلاص اہم ہے (۳) قنوت، مکمل تابع داری اور کامل یکسوئی کے ساتھ خدا کی اطاعت (۴) صدق، یعنی قول، فعل اور ارادہ کی استواری (۵) صبر، یعنی پامردی اور مستقل مزاجی (۶) خشوع، جو استکبار کی ضد ہے۔ اس سے خدا کے آگے جھکنے اور خلقِ خدا کیلئے مہربان ہونے کی صفت پیدا ہوتی ہے (۷) صدقہ، حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا (۸) روزہ، صبر کی تربیت کا سب سے مؤثر ذریعہ (۹) عفت و حیا، جس کیلئے حفظ فروج کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور (۱۰) ذکرخداوندی، جو تمام محمود صفات کا منبع ہے۔ (تدبر قرآن، ج ۵، ص ۲۴-۲۲۲)
اس آیت میں مسلمان مرد اور عورت دونوں کیلئے ایک آئینہ فراہم کیا گیا ہے جس میں وہ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو سنوار سکتے ہیں اور رب کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہاں خواتین کا تذکرہ ضمناً نہیں بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے، کیونکہ وہ معاشرے کا بالکل نصف اور برابر حصہ ہے بلکہ معاشرے کی تعمیر میں اُن کی شراکت قدرے زائد ہے۔
اطاعت ِ رسولؐ کا یکساں مطالبہ
سورئہ احزاب میں اُوپر مسلمان مردوں اور عورتوں کی مطلوبہ صفات و اخلاقیات فراہم کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کی زندگی کے ایک اہم واقعے (حضرت زینبؓ کو طلاق) کا تذکرہ اور اس سے متعلق اصولی ہدایات دی گئی ہیں۔
اس واقعے پر تبصرہ کرنے اور اس سے متعلق ضروری ہدایات دینے سے پہلے اللہ نے سورئہ احزاب میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا کہ جب اللہ اور رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اس میں کسی مومن مرد یا عورت کیلئے کچھ کہنے سننے یا چون و چرا کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس ضمن میں کلام پاک کی یہ آیت رہنمائی کرتی ہے جس میں کہا گیا:
’’ کسی مومن یا مومنہ کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے لئے اس میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا۔‘‘ (احزاب :۳۶)
آیت میں قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے روا نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کریں ۔ یہ بات ایمان کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اور جو اِس کا ارتکاب کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، وہ صریح ضلالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ایسے کسی ارتکاب سے ہر اہل ِ ایمان کو پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی فیصلے پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی بلکہ اس کا خیال بھی پیدا نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ رسول جو فیصلہ بھی کرتا ہے اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کی حیثیت مُطاع مطلق کی ہوتی ہے۔

حریف نہیں ،رفیق: قرآن نے اہلِ ایمان کے معاشرے کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھی، دست و بازو اور ہمدرد و غمگسار ہیں ۔ وہ اس مشترک خصوصیت کے مالک ہوتے ہیں کہ نیکی کو فروغ دیں ، بُرائی سے نفرت کریں ، خدا کی یاد خون بن کر ان کی رگوں میں دوڑے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کیلئے اُن کے دل اور ہاتھ کھلے ہوں اور خدا و رسولؐ کی فرماں برداری اُن کی زندگی کا وطیرہ ہو۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ وہ معاشرہ میں حریف بن کر کشاکش اور کشمکش پیدا نہیں کرتے بلکہ رفیق بن کر ایک دوسرے کے لئے سہارا ثابت ہوتے ہیں۔ اہل ایمان کی یہ تصویرکشی اہلِ نفاق کی تصویر سے بالکل مختلف اور متصادم ہے۔
منافق مرد اور خواتین دونوں برابر کے شریکِ جرم ہیں ۔ منافقین کے ساتھ قرآن نے منافقات کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ نفاق زدہ خواتین کو تنبیہ ہو کہ مردوں کے ساتھ ان کا بھی انجامِ بد مقدر ہے۔ وہ بھی خدا کے غضب سے بچنے والی نہیں ہیں ۔ انہوں نے اپنے مردوں پر جان و مال کی محبت کو غالب کردیا ہے اور انہیں بخیل و بزدل بنایا اور دین کے تقاضوں سے غافل کیا ہے تو نفاق کے اِس کھیل میں حصہ داری نبھانے کی وجہ سے یکساں طور پر وہ اللہ کی ناراضی کی مستحق ہیں۔ قرآن مجید بڑی خوب صورتی اور وضاحت کے ساتھ منافق معاشرے کی کیفیت بیان کرتا ہے:
’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی چٹّے کے بٹّے ہیں۔ یہ بُرائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے اور ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اللہ کو بھلا رکھا ہے تو اللہ نے بھی انہیں نظرانداز کردیا ہے۔ یہ منافق بڑے ہی بدعہد ہیں ۔ منافق مردوں ، منافق عورتوں اور کفار سے اللہ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ان کے لئے کافی ہے اور ان پر اللہ کی لعنت اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔‘‘ 
(التوبہ : ۶۷-۶۸)
اس کے بعد سورہ توبہ ہی کی آیت نمبر ۷۱؍ میں مومن معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے:
’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ یہ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ، اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا، اللہ عزیزوحکیم ہے۔‘‘ 
اُوپر کی آیت میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو اُن کی انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، ایک دوسرے کا ’ولی‘ قراردیا گیا ہے جس کی جمع ہے اولیا۔ ولی کے معنٰی ہیں دوست، رفیق، دم ساز ، غم گسار اور محرم راز۔ مسلم معاشرہ میں صنفی امتیاز و تفریق کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مردوں کے حقوق و فرائض ہیں تو عورتوں کے بھی ہیں ۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں دونوں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں ۔ اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا نظام دونوں مل کر قائم کرتے ہیں ۔ دونوں اصناف خدا و رسولؐ کی اطاعت کے لئے پابند عہد ہیں ۔ مردوں اور عورتوں کی باہم رفاقت و ولایت کے نتیجے میں معاشرہ رحمت خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر انعامات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے فیضان سے وہ جگ مگ کرتا ہے۔ طبقاتی کشمکش، صنفی تفریق، گروہی تصادم، نسلی و لسانی منافرت و مسابقت سے یہ معاشرہ کوسوں دُور ہوتا ہے۔
تکریم خواتین
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں خواتین کی تکریم و توقیر کی تعلیم دی، اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اپنانے کی تلقین کی اور اُن سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ عورت پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اُسی طرح اس سے استفادہ کرنا چاہو تو استفادہ کرسکتے ہو، کیونکہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‘‘
(بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص ۱۹۸۷، حدیث ۴۸۸۹)
بعض حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عورت پیدائشی طور پر اپنی خلقت کے اعتبار سے ٹیڑھی ہوتی ہے اس لئے وہ فروتر اور کم رُتبہ ہے۔ یہ حدیث کا غلط مطلب نکالنا ہے۔ فحوائے کلام بتا رہا ہے کہ خواتین سے دھینگامشتی کرنے اور ان کے ساتھ جبرو تشدد کا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ خواتین میں منفعل المزاجی، جذباتیت، اثرپزیری میں سُرعت اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین سے معاملہ کرتے وقت اُن کی اس فطرت کا لحاظ کرنے اور اُن کے ساتھ چشم پوشی اور رافت و رحمت کا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہوتی ہے اور سخت بھی۔ اگر زبردستی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اللہ نے عورتوں کو منفرد خصوصیات اور ممتاز اوصاف سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی بھرپور رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسری حدیث میں زیادہ صراحت کے ساتھ یہ مثال موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’ جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے اُوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، اس لئے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔‘‘(ایضاً، حدیث ۴۸۹۰)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔ اس میں خواتین کے مزاج، ان کی سرشت اور طبیعت کا بھرپور اِدراک ہے۔ اُن کی نفسیات اور طبعی خصوصیات پر بہترین روشنی اس میں ڈالی گئی ہے۔ عام طور پر مردجفاکش، طاقتور، قوتِ مزاحمت اور قوتِ دفاع کا مالک ہوتا ہے۔ وہ بزور اپنی بات منواناچاہتا ہے۔ عورت لطیف و رقیق مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ محبت و عقیدت اور سرافگندگی اس کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ مرد اپنی مردانگی کے زعم میں عورت کے لطیف جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ دھونس، دھاندلی اور جبرواِکراہ سے عورت کو خاموش کرنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ خواتین اپنی جبلت، خلقی فطرت اور مزاجی ساخت کی بناء پر تکریم و توقیر کی زیادہ حقدار ہیں ۔ اگر ان کی فطرت اور ساخت کو بزور بدلنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ اُن کی صلاحیتیں ختم ہوجائیں گی اور معاشرے کی تعمیر میں اُن کا کردار صفر ہوکر رہ جائے گا۔ اُن کی قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اُٹھانا ہے اور بہتر سماج کی تشکیل میں ان کی حصہ داری کو یقینی بنانا ہے تو اُن کے مزاج، طبعی ساخت اور صنفی خصوصیات کی بھرپور رعایت رکھنی ہوگی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت بھی کردی کہ میں اُن کے ساتھ ہرحال میں حُسنِ سلوک کرنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہوں ۔ اگر تمہیں اپنی خواتین کے اندر کوئی کجی، ضد اور انانیت کی کوئی رمق نظر آئے تو اشتعال انگیزی اور پُرتشدد کارروائی سے بچو۔ محبت، عفوودرگزر اور حُسنِ سلوک سے انہیں اپنانے اور اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر اُن کا شیشۂ دل ٹوٹ گیا تو خاندان ٹوٹ جائے گا، سماج بکھر جائے گا اور انسانیت ختم ہوجائے گی۔
عورت ہی ماں بھی ہے۔ ماں کی حیثیت میں وہ سب سے زیادہ معظم، مکرم اور واجب الاحترام ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے:
’’ایک شخص نے آپ ﷺکی خدمت میں حاضرہوکر سوال کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ اُس نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ اس نے تیسری بار سوال کیا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ پھر پوچھا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیرا باپ۔(بخاری، الجامع الصحیح)
عورت ہی بیٹی بھی ہے اور اللہ کے رسول ﷺنے اپنی لخت ِ جگر حضرت فاطمہؓ کے بارے میں تکریم کے جو الفاظ استعمال کیے، اُن سے دنیا کی تمام بیٹیوں کی قدرومنزلت متعین ہوگئی کیونکہ حضرت فاطمہؓ تمام دخترانِ انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری بچی میرا ہی گوشت پوست ہے۔ جو بات اس کیلئے موجب ِ تشویش ہوگی وہ میری تشویش کا سبب بنے گی اور جو چیز اس کے لئے باعث ِ اذیت ہوگی اُس سے یقینا مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔‘‘(ترمذی، السنن)۔ بیوی کے ساتھ حُسن ِ سلوک اور اس کی نازبرداری اسلام کی تعلیم ہے یہاں تک کہ خالص مذہبی معاملات میں اس کے جذبات کی رعایت کی تلقین ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے:
 ایک آدمی نبیؐ پاک کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے سوال کیا:’’ اے اللہ کے رسولؐ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے، جبکہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم واپس جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ (بخاری، الجامع الصحیح)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK