Inquilab Logo

اَدب ایک مستقل فن ہے اَور نازک اور مشکل بھی !

Updated: March 31, 2024, 6:18 PM IST | Ali Jawad Zaidi | Mumbai

الفاظ کے ذریعہ ادب سماج کو کیا دیتا ہے اور سماج سے کیا حاصل کرتا ہے یہ نکتہ بہت اہم ہے اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس مضمون میں مضمون نگار نے ایسی ہی چند باتوں کی نشاندہی کی ہے جن پر ادب کا قاری عام طور پر غور نہیں کرتا۔

Literature is not only influenced by society, but also by individuals, and since every individual belongs to some class, class trends have also been found in literature. Photo: INN
ادب پر سماج ہی کی نہیں افراد کی بھی چھاپ ہے اور چونکہ ہر فرد کا کسی نہ کسی طبقے سے تعلق ہے اس لئے ادب میں طبقاتی رجحانات بھی پائے گئے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اب سے چند مہینے پہلے ’تعمیری ادب‘ کی بات چند ذہنوں میں ایک فکری خلش پیدا کرتی تھی لیکن آج اربابِ فکر اس نئی اصطلاح کے بہت سے مشتقات سے واقف ہوچکے ہیں اور اس کی طرف نظر بھر دیکھنے میں کسی قسم کی الجھن محسوس نہیں کرتے۔ بہت سے سوالات جو ذہنوں میں شک و شبہ کے کانٹے چبھویا کرتے تھے اب واضح جوابات کے تمنائی نہیں رہ گئے۔ ابہام کی جگہ وضاحت نے اور شک کی جگہ شناسائی نے لے لی ہے پھر بھی ابھی تک ’’تعمیری ادب‘‘ کے بارے میں بہت کچھ کہنا باقی ہے کیونکہ کبھی کبھی نئے نئے سوالات بھی اٹھتے ہیں اور بعض حلقوں سے نئی نئی الجھنوں کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ 
 تعمیری ادب کی بات کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’ادب‘ کے عمومی مفہوم کے بارے میں بھی خیال کی وضاحت کردی جائے۔ ’ادب‘ کی منطقی تعریف کرنا دریا کو کوزہ میں بند کرنے کی کوشش سے کم نہیں ہے لیکن میں کوئی منطقی تعریف کرنا بھی نہیں چاہتا۔ میں صرف ادب کی اصطلاح کے چند ضروری حدود کا تعین کرنا چاہتا ہوں تاکہ مسئلہ میں کسی قدر وضاحت پیدا ہوسکے۔ احتشام حسینؔ نے ’تنقید اور عملی تنقید‘ میں ’ادب ‘ کی وضاحت اس طرح کی ہے:
 ’’ادب، لکھنے والے کے شعور اور خیالات کا وہ اظہار ہے جسے وہ سماج کے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لئے ایسے ذرائع سے نمایاں کرتا ہے جسے وہ سمجھ سکیں اور لطف حاصل کرسکیں یا کم سے کم سمجھنے کی کوشش کرسکیں۔ ‘‘
  مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ تعریف بے حد تشنہ اور کئی اعتبار سے نامکمل سی ہے۔ شعور اور خیالات کو دوسروں تک قابل فہم انداز میں تحریر کردینا ہی ادب ہو تو ہر وہ شے جو ضبط تحریر میں آجائے ’ادب‘ ہوجائے گی کیونکہ ہر تحریر اظہار خیال و شعور کے لئے ہی ہوتی ہے اور جب معرض اظہار میں آئی تو ظاہر ہے کہ لکھنے والے کا کوئی نہ کوئی مخاطب ضرور ہوگا۔ 
  ادب ایک مستقل فن ہے اور نازک اور مشکل بھی ہے۔ لکھنے والے لاکھوں ہیں لیکن دیدہ ور کتنے ہیں ؟ لفظ انسان بناتے ہیں یا پورا سماج بناتا ہے، ان لفظوں کو پورا سماج اظہار خیالات کے لئے استعمال بھی کرتا ہے لیکن ہر اظہار خیال ادب نہیں بنتا، لکھنے سے بھی ادب نہیں بنتا۔ ہمارا بہت سا قدیم ادبی سرمایہ ایسا ہے جو ضبط تحریر میں نہیں آسکا تھا لیکن ادب بن گیا تھا۔ خیال کی وسعت دنیا کی وسعت کی طرح لامحدود ہے۔ خیال موجود سے معدوم تک پہنچ جاتا ہے، ماضی، حال و مستقبل کی بیک وقت سیر کرتا ہے لیکن لفظ نے ماضی اور حال کے آگے قدم نہیں بڑھایا ہے اور حال میں بھی قدم قدم پر اُسے نئے تجربات اور نئے نئے محسوسات سے سابقہ پڑتا ہے۔ انسان اپنی جدوجہد میں جہاں پہاڑوں کو توڑ کر نئے راستے بناتا ہے اور مادے کے جزو کو بھی تقسیم کرتا ہے وہاں نئے نئے خیالات سے بھی دوچار ہوتا ہے، نئے نئے جذبات بھی اس کے دل میں امنڈتے آتے ہیں اور جب ان کو بیان کرنا چاہتا ہے تو الفاظ کا دامن تنگ نظر آتا ہے۔ جیسے اس نے پہاڑوں میں بامقصد کوہ کنی کی تھی ویسے ہی وہ لفظوں کو فنکارانہ چابکدستی سے تجربے کی آنچ دکھا کر گرماتا ہے، توڑتا موڑتا ہے، پھیلاتا ہے اور دل پسند شکلیں بناتا ہے۔ 
 بلاشبہ، یہ تخلیقی عمل ہے، سراسر تخلیقی عمل۔ 
 کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوتا اور مافی الضمیر کو لفظوں کے جال میں پھنسا نہیں پاتا۔ اس کی اسی تخلیقی مساعی کی آغوش میں ادب جنم لیتا ہے۔ انسان کی یہ کوششیں آج سے نہیں کروڑوں برس سے جاری ہیں۔ اسے لکھنا نہیں آتا تھا تب بھی وہ ادب کی تخلیق میں مصروف تھا۔ اس وقت اس نے ایسا انداز بیان اختیار کیا جو آسانی سے یاد رہ سکے۔ لوگ ادب پاروں کو حفظ کرلیا کرتے تھے۔ جیسے تہذیب کے اور مظاہر اجتماعی کوششوں سے وجود میں آئے ہیں ویسے ہی بہت سا قدیم ادب بھی اجتماعی کوششوں سے وجود میں آیا ہے۔ 
 تحریر کی ایجاد نے اُس کی نوعیت بدلی۔ لوک گیت، لوک کتھائیں، ضرب الامثال، سماجی چٹکلے، مذہبی گیت یا کہاوتیں اپنی جگہ پر رہیں، اب منظر سماج سے ہٹ کر کسی حد تک فرد کی جانب منتقل ہوگیا۔ لوگ لکھنے لگے۔ پہلے تو انہوں نے اس ذخیرہ کو دستبرد زمانہ سے بچانے کی فکر کی جو گزشتہ نسلوں سے وراثتاً پایا تھا، پھر سماج کے روحانی اور مادی مسائل سے متعلق غور و فکر کرکے ان کے بارے میں خامہ فرسائی شروع کی۔ یہ غور و فکر افراد نے تنہا بھی کیا اور دوسروں کے ساتھ مل کر بھی۔ خیالات کی آپس کی رگڑ سے نئے خیالات پیدا ہوئے۔ علاء الدین اپنے چراغ کو رگڑ کر فلک بوس محل تیار کرلیتا تھا۔ یہ تو افسانہ ہے۔ لیکن سماج نے دماغوں کو رگڑ کر ہزاروں ادبی محل تعمیر کئے ہیں۔ دیئے سے بھی دیئے جلے ہیں اور کبھی ایک ہی دیئے نے ہزاروں دیئے ایک ساتھ جلا کر دیوالی کا تہوار بھی منایا ہے۔ پھر یہ سب خیالات مختلف عنوانات سے معرض وجود میں آئے۔ جب مروجہ الفاظ نے کفایت نہ کی تو تشبیہات و استعارات و تلمیحات کی آڑ لی گئی۔ مترادفات بنے، متضاد الفاظ وجود میں آئے، پھر یہ کوششیں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ہزاروں جگہ ہورہی تھیں۔ جب انسان تلاش معاش میں مارا مارا پھر رہا تھا تو اس کو وہ خزانہ بھی مل گیا جو اس کے ہم جنسوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں یکجا کیا تھا۔ اس طرح ادب اجتماعی مساعی کو اپناتا رہا اور ادیب کے ہاتھ میں نئے نئے اوزار دیتا رہا جس سے وہ (ادب) ہزاروں عجائبات کی تخلیق کرتا رہا۔ 
  ہر تخلیق کا ایک سماجی مقصد ہے، ادب کا بھی یہ سماجی مقصد تھا کہ وہ انسانوں کے مابین اظہار خیالات کا وسیلہ بنے۔ پہلے تو یہی دھن رہی ہوگی کہ کسی طرح ادھوری بات بھی دوسروں تک پہنچ جائے تو بہت ہے۔ پھر ادیبوں نے مشکلات سے جنگ کی ہوگی اور نئے الفاظ نئی نئی ترکیبیں تراشی ہوں گی۔ یہیں سے صناعانہ کوششوں کی ابتداء ہوئی ہوگی۔ اگرچہ صناعی بھی تخلیق ہے لیکن تخلیق کی منزل اول نہیں ہے۔ یہ صناعانہ کوششیں بری نہیں تھیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو زبان و بیان میں یہ وسعت ِ اظہار کہاں سے آتی، علوم و فنون کے دریا کیسے بہتے اور کاروانِ ترقی کیسے آگے بڑھتا؟
 ادب کی وہی ضرورت تھی جو اشاعت ِ علم کی تھی۔ علم سماجی تجربوں سے وجود میں آتا ہے لیکن اس کی اشاعت افراد کے ذریعے ہوتی ہے۔ فی الحقیقت سماج افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ادھر چند برسوں سے بعض لوگ کچھ اس طرح کی باتیں لکھنے لگے ہیں جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ فرد، سماج کے سمندروں کی لہروں پر ایک کاگ ہے جو ہر موج کے ساتھ بے بسی کے عالم میں ادھر سے اُدھر اچھلتی رہتی ہے۔ یہ لہریں اسے جدھر چاہیں بہا لے جائیں۔ فرد سماج کا مجبور رکن نہیں، مختار رکن ہے، وہ سماج پر اثرانداز ہوتا ہے اور پھر سماج کی اجتماعی طاقت کے سامنے مجبور بھی ہوجاتا ہے۔ اس لئے اشاعت ِ علم اور تخلیق ادب افراد کے ہاتھوں ضرور ہوئی لیکن دونوں ہی کی جڑیں سماجی تجربات کی زمین میں بہت دور تک پیوست تھیں۔ اس نونہال کو سماج نے سینچا اور سماج کی صالح ہوا نے اس کو زندہ رکھا۔ پھر جب پودا بڑا ہوکر پھلا پھولا تو سماج نے اس کے میٹھے، کڑوے، کسیلے اور تیکھے پھل چکھے۔ کبھی پیٹ بھرنے کے لئے اور کبھی ’’مزا منہ کا بدلنے کے لئے۔ ‘‘ سماج تو وہی تھا لیکن تجربات کی رنگارنگی اور جذبات و احساسات کی بوقلمونی اسے افراد نے عطا کی۔ اس لئے ادب پر سماج ہی کی نہیں افراد کی بھی چھاپ ہے، افراد ہی کی نہیں طبقات کی بھی چھاپ ہے اور چونکہ ہر فرد کا کسی نہ کسی طبقے سے تعلق ہے اس لئے اب تک ہر ادب میں طبقاتی رجحانات بھی پائے گئے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK