یہ شارداہل کے زمانے کا ذکر ہے، مولانا محمد علی، میاں فیروز الدین احمد کی معیت میں شاہی مسجد لاہور میں تشریف لائے اور فرش پر بیٹھ گئے۔
EPAPER
Updated: August 13, 2023, 4:00 PM IST | Shorish Kashmiri | Mumbai
یہ شارداہل کے زمانے کا ذکر ہے، مولانا محمد علی، میاں فیروز الدین احمد کی معیت میں شاہی مسجد لاہور میں تشریف لائے اور فرش پر بیٹھ گئے۔
یہ شارداہل کے زمانے کا ذکر ہے، مولانا محمد علی، میاں فیروز الدین احمد کی معیت میں شاہی مسجد لاہور میں تشریف لائے اور فرش پر بیٹھ گئے۔ جمعہ کی نماز ہوچکی۔ ایک صاحب نے اعلان کیا: مولانا ظفر علی خاں کی صدارت میں جلسہ ہورہا ہے۔ مولانا محمد علی فرش پر بیٹھے رہے۔ دوچار فرمائشی نعروں کے بعد مولانا ظفرعلی خاں نے صدارتی کرسی پر نزول اجلال فرمایا۔ تلاوت قرآن مجید کے بعد، ایک صاحب نے نظم سنائی۔ ظفر علی خاں اٹھے، خطبہ مسنونہ پڑھا۔ ان میں جوانی کا کس بل باقی تھا۔ ہاتھ میں چھڑی، سر پہ ترکی ٹوپی اور ٹوپی میں پھندنا۔ جس تیزی سے تقریر فرماتے اسی سرعت سے پھندنا گھومتا۔ مولانا ظفرعلی خاں نے مولانا محمد علی پر کوئی آوازہ کسا، فیروزالدین احمد نے اڑنگا لگادیا ، ظفر علی خاں پٹخنی کھانے سے پہلے، ذہنی سنبھالا لے کر اٹھےاور طیش میں آگئے:
’’اگر آپ نے رویہ نہ بدلا تو میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی سے کہوں گا کہ وہ حقائق کے چہرہ کو ننگا کردیں۔‘‘
اور پھر اس کے بعد، ہت تیرے کی دھت تیرے کی۔ ظفرعلی خاں یہ جا وہ جا۔ محمد علی منبر پر پہنچے اور زناٹے کی تقریر جھاڑ ڈالی۔ ان کی ٹوپی کا نقشہ تو یاد نہیں رہا کہ کس قطع کی تھی لیکن بدن پر چغہ تھا، کھچڑی داڑھی اور قد بالا ہی تھا۔ رنگ میں کسی قدر سانولا پن آچکا تھا لیکن آنکھیں تیز بھی تھیں اور معنی خیز بھی۔ یاد نہیں انہوں نے کیا کہا اور کیا نہیں مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ ان کی باتیں پہلودار تھیں… اور یہ تھا محمد علی کا پہلا مشاہدہ!
دوسری دفعہ انہیں لاہور کانگریس کے موقع پر خلافت کانفرنس کی صدارت فرماتے دیکھا۔ ان کا جلو س بھی جواہرلال کے مقابلے میں نکالا گیا لیکن اس میں سج دھج کا وہ روپ نہ تھا جو جواہرلال کے جلوس میں تھا۔ راقم الحروف کا ذہن غیرشعوری طور پر کانگریس کی طرف تھا لیکن محمد علی کی تقریر کے سحر نے ایک لحظہ کے لئے دل و دماغ کو جھنجھوڑا اور عام مسلمانوں کو تو انہوں نے اپنے ہی سانچے میں ڈھال لیا، تقریر کیا تھی ایک دریا بہہ رہا تھا، رواں دواں ، کٹے ہوئے فقرے ، چبھتے ہوئے معانی، بے بہا بندشیں ، برمحل اشعار، دلآویز چوٹیں،جذبات کا چشمہ ٔ صافی… اور یہ تھا ایک مطالعہ۔
اس سے اگلے دن وہ کانگریس کے پنڈال میں چلے گئے اور وزیٹرز گیلری میں بیٹھے۔ اسی کانفریس کے وہ صدر رہ چکے تھے لیکن آج انہیں وہاں کوئی پوچھ نہیں رہا تھا اور یہ تھا ایک تماشا۔ محمدعلی بہرحال مسلمانانِ ہندوستان کی ایک تاریخ تھے، وہ اشجع (بہت بہادر) تھے، وہ ساونت(دلیر) تھے، وہ ہندوستانی مسلمانوں کا دل تھے، وہ تیز مزاج اور تیز زبان تھے، جو منہ میں آتا بے ساختہ کہہ دیتے اور اسی وجہ سے انہوں نے بہت سے دوست ناراض کرلئے، ہندویت کے مسلمانی ذہن نے انہیں نیشنلزم سے بیزار کردیا اور مسلمانوں کے رجعتی ذہن نے انہیں قبول نہ کیا۔
ایچ جی ویلز نے اُن کے متعلق کہا تھا:
’’محمد علی کا قلم میکالے کا، زبان برک کی اور دل نپولین کا تھا۔‘‘
المختصر وہ ایک ایسی قوم کا فرزند تھا جو ڈنڈے والے کے آگے آگے دوڑتی اور دولت والے کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔