• Sun, 16 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گوشہ بزرگاں: ’’ فجر کی نماز کیلئے ایک دوسرے کے گھر جاکرجگانا ہم دوستوں کا معمول تھا‘‘

Updated: November 16, 2025, 4:16 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی کے ۷۵؍سالہ مومن بلال احمد نے۳۴؍سال تدریسی خدمات انجام دیں اور بطور پرنسپل صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں نظم و ضبط کی ایک مثال قائم کی، ان کی تعلیمی خدمات کااعتراف صدر جمہوریہ نے میڈل دے کر کیا، آج بھی پوری طرح فعال ہیں۔

Momin Bilal Ahmed Ali Ahmed. Photo: INN
مومن بلال احمد علی احمد۔ تصویر:آئی این این
بھیونڈی، بھسار محلہ کے ۷۵؍ سالہ مومن بلال احمد علی احمد کی پیدائش یکم مارچ ۱۹۵۱ء کوقیصر باغ علاقہ میں ہوئی تھی۔اس دور میں بھسار محلہ کی ہندوستانی مسجد کے مدرسہ مفتاح العلوم کی عمارت میں جاری اُردو پرائمری اسکول سے چوتھی تک پڑھائی کی ،بعدازیں منڈئی کی پتھر والی اسکول سےساتویں اور پھر رئیس ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ بھیونڈی نظام پور نگرپالیکا کالج میں ایک سال پڑھائی کرنے کے بعد جوگیشوری کے اسماعیل یوسف کالج سے انٹرسائنس اور بی ایس سی کیا۔ گھریلو مالی حالت کے مستحکم نہ ہونے سے آگے کی پڑھائی کے بجائے ذریعہ معاش پر توجہ دی۔  ۱۹۷۳ء میں ملازمت کی تلاش شروع کی ۔ ممبئی ،بھیونڈی اور اطراف کے دیگر علاقو ںمیں ۲۵؍ سے ۳۰؍ کمپنیوںمیں انٹرویو دیا لیکن ملازمت کہیں نہیں ملی ۔ ایک دن تھانے کی کرشنا گلاس فیکٹری میں انٹرویو دے کر گھر لوٹتے وقت ،بنگال پورہ میں ایک سیاہ بورڈ پر نظر پڑی جس میں بھیونڈی ویورس اُردو ہائی اسکول ( جو آج صمدیہ ہائی اسکول کےنام سے جاری ہے )میں ٹیچر کی اسامی ہونے کی اطلاع درج تھی۔
 
 
دوسرے دن ملازمت کی درخواست کےساتھ اسکول پہنچ گئے۔ انٹرویوکےبعد ملازمت مل گئی۔۱۹۷۴ء میں بحیثیت معلم یہاں فائز ہوئے اور ۲۰۰۹ء میں ۳۴؍ سالہ تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد بطور پرنسپل سبکدوش ہوئے۔ ریٹائر ہونے کےبعد متعدد کاروبار سے وابستہ رہے لیکن اب کاروباری مصروفیت سے بھی علاحدگی اختیار کرلی ہے ۔ تعلیمی ،سماجی اور ملّی سرگرمیوں میں اب بھی حصہ لیتے ہیں ۔جس دور میں آپ پرنسپل تھے، اُس دور میںاسکول کا نظم و ضبط بہت مثالی تھا۔ تدریسی خدمات کیلئے کئی اہم سرکاری اور غیر سرکاری اعزاز سے نوازےگئےہیں۔ ان میں صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی شامل ہے۔ انکساری ،سادگی اور شریف النفس طبیعت کے مالک ہیں ۔
مومن بلال نے ۱۹۷۴ء میں جب ملازمت جوائن کی تھی ،اس دور میں بھیونڈی کے بیشتر اسکولوںمیں امتحان میں نقل کرنا عام بات تھی۔ بورڈ امتحان میں بھی دھڑلے سے نقل کی روش دہرائی جاتی تھی ۔انہوں نے نقل کی روایت ختم کرنے کیلئے ۸۰ء کے دہائی میں اپنے اسکول کے دیگر اساتذہ مثلاً عبدالملک مومن وغیرہ سے اس بارے میں مشورہ کر کے ایس ایس سی امتحان کو نقل سے پاک کرنےکی فیصلہ کیا۔ اُس سال ان کے ہی اسکول میں سینٹر لگا تھا۔ امتحان میں بدنظمی کو روکنے کیلئے لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے بالترتیب پہلی اور دوسری منزل پر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ سپروائزرس کو سختی سے امتحان لینے کی ہدایت دی گئی تھی۔ سرپرستوں کی جانب سے اس کا  بہت سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔ لوگوں نے اسکول انتظامیہ پر طلبہ کو پریشان کرنے کا الزام عائد کیا اور اس تعلق سے متعدد شکایتیں کیں، لیکن جب ان سے پریشانیوں کے بارے میں پوچھا جاتا تو ان کے پاس کوئی ٹھوس جواز نہیں ہوتا تھا۔ اُس سال پورا امتحان سخت نگرانی میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں کو ایسا کہتے سنا گیا کہ بھیونڈی میں پہلی مرتبہ بورڈ امتحان بغیر نقل کے ہوا ۔ یقینی طورپر یہ سختی طلبہ کو اچھی نہیں لگی۔ یہی وجہ تھی کہ امتحان کے آخری دن پرچہ ختم ہونے پر دوسری منزل  کے طلبہ نے کلاس روم کے باہر رکھے گملوںکو اُوپر سے پھینک اپنی بھڑاس نکالی تھی ۔ کچھ دنوں بعد مومن بلال جب ممبئی بورڈ کے آفس گئے تو وہاں کی ایک خاتون سیکریٹری نے انہیں ایک فائل دے کر کہا، اسے دیکھ لیں۔ فائل میں اسی امتحان سے متعلق ۲۰۰؍ سے زائد شکایتیں تھیں۔
 
 
سیکریٹری نے کہا کہ ان شکایتوں کی وجہ سے ہم نے دوران امتحان بورڈ کے ۲؍افسران کو آپ کے اسکول کی نگرانی پر مامور کیاتھا جو روزانہ کی رپورٹ ہمیں دیتےتھے۔ ان کی رپورٹ کافی اطمینان بخش تھی۔ بہر حال اس کےبعد بھیونڈی میںطلبہ محنت کرنے لگے اور رفتہ رفتہ نقل کرنے کا رجحان کم ہوتاگیا ۔ 
۷۰ء اور ۸۰ء کے دہائی میں بھیونڈی کے اسکولی عملے کو بینکوں سے قرض نہیں ملتے تھے۔ وجہ دریافت کرنےپر کہا جاتا کہ اسکولی عملے کا ’لون سیکیورڈ‘ نہیں ہے۔ ایسے میں بھیونڈی ویورس ہائی اسکول کے اساتذہ کے ایک گروپ نے اپنی پت پیڑھی (ایک طرح کا کوآپریٹیو بینک) شروع کی تھی ۔ اس دور میں صمدیہ اسکول میں تقریباً ۴۵؍ افراد پر مشتمل عملہ تھا جن میں سے ۱۹؍ لوگوںنے پت پیڑھی کی حمایت کی تھی۔ یہ ممبران  ۱۰۰؍روپے ماہانہ جمع کرتے تھے۔ اس پر کچھ لوگ یہ فقرہ بھی کستے تھے کہ یہ ۱۰۰؍ روپے والے بینک کے رکن ہیں ۔ ۲؍سال بعد پہلی مرتبہ اس پت پیڑھی سے ممبران کو ۲؍ہزارروپے کا قرض بغیر سود دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تقریباً ۴۰؍ سال سے جاری ہے۔ اب اس پت پیڑھی کے تقریبا ً ۱۰۰؍ممبرز ہیں اور قرض کے طور پرساڑھے ۷؍لاکھ روپےتک دیئے جاتے ہیں جبکہ ایمرجنسی لون کے طورپر ایک لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں ۔ اس لون پر کوئی سود نہیں لیا جاتا ہے۔ اس سہولت سے سیکڑوں ممبر استفادہ کر رہے ہیں ۔
مومن بلال جب اوّل جماعت میں تھے، اس وقت ان کے ساتھیوں کے گروپ نے بالخصو ص فجرکی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنےکی ایک مہم شروع کی تھی۔گروپ میں ان کے ہم عمر ۸۔۱۰؍ دوست ، مثلاً شبیر، یوسف، مشتاق ، نثار ، عبدالملک ، نصیر اور شکیل غلام رسول وغیرہ شامل تھے۔ فجر کی اذان سے آدھاگھنٹے قبل اُٹھ کر ایک دوسرے کے گھر جاکر نماز کیلئے اُٹھانا ،ان دوستوں کا معمول تھا ۔سب اکٹھا ہو کر فجر کی نماز پڑھنے جاتے ۔ نماز کے بعد مسجد سے باہر آکر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کر کے پھر گھر لوٹتے تھے۔ چھوٹی عمر سے پڑنے والی نماز کی عادت  ان تمام ساتھیوں میںاب بھی قائم ہے۔ 
 
 
غربت اور مفلسی کو بھی مومن بلال نے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ اکثر اسکول سے جانے سے قبل بغیر دودھ کی چائے پی کر جاتے تھے۔ پیسوں کی قلت سے اسکول بیگ کے بجائے ماں کے ہاتھوں سلے  ہوئےکپڑے کے جھولے میں کتابیں اور بیاضیںلے کر جانا اور ساتویں جماعت تک ننگے پائوں اسکول جانابھی انہیں یاد ہے۔ جب آٹھویں جماعت کی پڑھائی کیلئے ان کا نام رئیس ہائی اسکول میں لکھوایا گیا، تو انہوںنے والد سے چپل دلانے کی ضدکی اور کہاکہ چپل بغیر میں اسکول نہیں جائوں گا جس پر ان کے چاچا نے انہیں پلاسٹک کی ایک چپل دلائی تھی  جسے پہن کر وہ بہت خوش ہوئے تھے۔
۶۲ء کی جنگ سے بھیونڈی بری طرح متاثر ہوا تھا۔ ۶؍مہینے تک لوم کی صنعت بند تھی جس کی وجہ سے متوسط اور پسماندہ گھرانوں میں فاقے کی نوبت آگئی تھی۔ اس دور میں پابندی عائد ہونے سے چاول کوٹے کی بنیاد پر ملتا تھا جس کی وجہ سے دال زیادہ اور چاول کم ، والی کھچڑی پکائی جاتی ہے ۔مالی بحران سے افراتفری کا ماحول تھا ۔ ایسے میں حکومت نے عوام کو روزگار مہیا کروانے کیلئے نالے کی کھدائی کا کام شروع کیا تھا، لوگ بھیونڈی سے دور جاکر نالے کی کھدائی کرتے تھے،جس کے عوض یومیہ۱۳۔۱۴؍ روپے مزدوری ملتی تھی ۔اس سے لوگ اپنے بال بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے۔ اس دور میں گھروں میں فاقہ ہونا عام بات تھی جس کا شکار مومن بلال بھی ہوچکے ہیں۔
اس دور کے قدآور سیاسی لیڈران اندرا گاندھی، چندرشیکھر، وی پی سنگھ اور مدھوڈنڈوتے وغیرہ کو مومن بلال نے بہت قریب سے دیکھا اور سنا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک مرتبہ اسماعیل یوسف کالج کی این سی سی یونٹ کے طلبہ کو ممبئی کے پولیس گرائونڈ میں اندراگاندھی کے پروگرام میں شرکت کیلئے بھیجاگیا تھا ، جن میں مومن بلال بھی  تھے۔ تقریب میں اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ’ ’اس وقت دنیا ہم کو سویاہوا سمجھ رہی ہے، لیکن ہم سوئے ہوئے شیر ہیں۔ تم لوگ یاد رکھو، کیونکہ تم نوجوان ہو، جس دن یہ شیر جاگے گا اس روز دنیا سمجھ جائے گی کہ ہم کون ہیں۔‘‘ ان کے اس تاریخی جملے کو وہ نہیں بھولے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK