Inquilab Logo

مودی کی انتخابی تقاریر میں جھوٹ اور نفرت کا سیلاب؟

Updated: May 13, 2024, 2:24 PM IST | Ram Puniyani | Mumbai

ہمارے وزیراعظم حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک ہیں، وہ وہاں بھی آگ پیدا کرسکتے ہیں جہاں دھواں تک نہ ہو۔

In order to scare Hindu women, the Prime Minister even said that if the Congress comes to power, it will take away the Mangalsutra from them as well. Photo: INN
وزیراعظم نے ہندو خواتین کو ڈرانے کیلئے یہ تک کہہ دیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو ان سے منگل سوتر بھی چھین لے گی۔ تصویر : آئی این این

بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشینری بہت مضبوط ہے اور پارٹی کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس اس مشینری کی رسائی کو مزید قوت فراہم کرتی ہے۔ آر ایس ایس بی جے پی مہم کی بنیاد ہمیشہ قرون وسطیٰ کی تاریخ کو مسخ کرنا، ذات پات اور صنفی درجہ بندی پر مبنی قدیم ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی مالا جپنا اور مسلمانوں کو ویلن بنانا رہی ہے۔ سنگھ پریوار وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات کا استعمال کرتا رہا ہے۔ ایک موضوع یہ ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے ہندو مندروں کو تباہ کیا۔ یہ رام مندر تحریک کا بنیادی پیغام تھا۔ پھر ملکی سلامتی بھی ایک بڑا موضوع ہے، جس میں پاکستان کو ہندوستان کے دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے، ہندوستانی مسلمانوں کو ’مین اسٹریم‘ میں لانا اور انہیں ’ہندوستانی‘ بنانا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ 
 پچھلی دہائی میں انھوں نے’اچھے دن‘کی بات کی اور کئی دوسرے جملے بھی اچھالے جیسے خواتین کی حفاظت، ۱۵؍ لاکھ روپے ہر شخص کے کھاتے میں آئیں گے اور ہر سال دو کروڑ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ کانگریس کو بدعنوان پارٹی ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ انا ہزارے کی تحریک آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں کے تعاون سے چلائی گئی جس کی وجہ سے برسوں تک لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات رہی کہ کانگریس بدعنوان لیڈروں کی پارٹی ہے۔ پھر۲۰۱۹ء کے انتخابات میں پلوامہ بالاکوٹ کو موضوع بنایا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ صرف بی جے پی حکومت ہی ملک کی حفاظت کر سکتی ہے۔ تاہم اس پورے عرصے میں مسلم مخالف پروپیگنڈا بھی جاری رہا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آر ایس ایس اوربی جے پی کے پروپیگنڈہ کو آگے بڑھانے والےسچائی اور حقیقت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ 
 اس الیکشن میں بی جے پی کو امید تھی کہ ایودھیا میں رام مندر اس کی کشتی کو پار لگا دے گا۔ گیان واپی کا مسئلہ بھی تھا، لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ عوام رام مندر اورگیان واپی جیسے موضوعات سے تھک چکے ہیں اور ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہونے والا ہے۔ لوگ رام مندر پرخوش ہونے کے بجائے اپنی گرتی ہوئی سماجی و اقتصادی حالت کے تئیں زیادہ فکر مند ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: وزیراعظم مودی ہندو مسلم کیوں کررہے ہیں؟

اس کے بعد بی جے پی، آر ایس ایس نے ایک بار پھر اپنی پرانی چالیں چلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چال مسلمانوں کی مخالفت اور معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی ہے۔ وزیراعظم مودی نے مسلمانوں کو اپنا انتخابی مسئلہ بنایا اور کانگریس کے انتخابی منشور کا استعمال کیا جس میں سماج کے کمزور طبقات (قبائلی، دلت اور مذہبی اقلیتوں ) کو موقع فراہم کرنے، خواتین کو بااختیار بنانے، روزگار اور نوجوانوں کیلئے انٹرن شپ وغیرہ کے ساتھ انصاف کا وعدہ کیا گیا ہے۔ 
 آر ایس ایس نے سماج کے کمزور طبقوں کو انصاف فراہم کرنے کی ہمیشہ ہی مخالف کی ہے۔ آر ایس ایس کا قیام ۱۹۲۵ء میں اسلئے کیا گیا تھا کیونکہ انہیں دنوں دلتوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا شروع کیا تھا اور سماج میں خواتین کی سرگرمی اور شرکت بڑھنے لگی تھی۔ بی جے پی نے محسوس کیا کہ راہل گاندھی کا ریزرویشن پر زور اور مثبت امتیازی پالیسیوں کا عوام پر مثبت اثر پڑ رہا ہے۔ 
 اب بی جے پی کھل کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ ریزرویشن کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ انہیں راہل گاندھی کے بڑھتے گراف سے بھی نمٹنا ہے۔ اس سمت میں پہلا قدم آر ایس ایس سربراہ کی جانب سے یہ غلط بیانی تھی کہ آر ایس ایس کبھی بھی ریزرویشن کی مخالف نہیں رہی ہے۔ دوسری طرف مودی نئی کھچڑی بنا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس دلتوں اور پسماندہ طبقات کیلئے مقرر کیا گیا کوٹہ کم کر کے مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہتی ہے۔ مودی نے کانگریس کے منشور میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی بات کو بھی اپنے حساب سے استعمال کیا اور اسے اپنے مسلم مخالف پروپیگنڈے کے مطابق سماج کا ایکسرے قرار دیا۔ جھوٹ بولنے کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس ایکسرے کرے گی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کس ہندو کے پاس سونا اور پیسہ ہے اور پھر اسے دراندازوں میں تقسیم کرے گی (جو مسلمانوں کیلئے بی جے پی کی جانب سے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے)۔ ہندوؤں اور خاص کر ہندو خواتین کو ڈرانے کیلئے انہوں نے کہا کہ’’ کانگریس میری ماؤں اور بہنوں کے منگل سوتر کو بھی نہیں چھوڑے گی۔ کانگریس کے منشور میں کہا گیا ہے کہ اگر اس کی حکومت بنتی ہے تو وہ ملک کے ہر فرد کی جائیداد کا سروے کرے گی تاکہ پتہ چلے کہ ہماری بہنوں کے پاس کتنا سونا ہے اور سرکاری ملازمین کے پاس کتنی جائیداد ہے؟ایسا کرکے کانگریس آپ کی جائیداد آپ سے چھین لے گی اور اسے دوسروں میں تقسیم کردے گی۔ کیا حکومت کو آپ کو جائیداد چھیننے کا حق ہے؟‘‘ اسی جھوٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ کانگریس آگئی تو ہندو خواتین کا منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ ‘‘(باقی صفحہ ۱۲؍ پر)
بقیہ:مودی کی انتخابی .....
 یہ سب کہہ کر وہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلا، کانگریس کے منشور پر تنقید، دوسرا، مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور تیسرا، ہندو خواتین کو ڈرانا۔ آخر کوئی کتنا جھوٹ بول سکتا ہے؟ دراصل انہیں یقین ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اُن کے جھوٹ پر یقین کر لے گی۔ وہ جانتے ہیں کہ سنگھ پریوار، ان کا آئی ٹی سیل اور گودی میڈیا اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس سفید جھوٹ کو عام لوگوں کا ایک بڑا حصہ سنجیدگی سے لے۔ یہاں تک کہ مودی نے بے چاری بھینس کو بھی اپنی مہم میں گھسیٹ لیا، جسے بی جے پی کے گائے پر مبنی بیانئے میں کبھی جگہ نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ کے پاس دو بھینسیں ہوں گی تو کانگریس ان میں سے ایک کو لے لے گی۔ ‘‘
 ور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بی جے پی مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان کا چرچا نہ ہو۔ مودی جی نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ ہندوستان میں کمزور حکومت بنے۔ پاکستان کے سابق وزیر فواد چودھری نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہہ دیا تھا کہ راہل گاندھی سماجوادی پالیسیوں کی بات کر رہے ہیں۔ مودی اس بیان کو لے اُڑے اور اس کی تشریح اپنے انداز میں کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ راہل وزیراعظم بنیں تاکہ بالاکوٹ جیسا آپریشن نہ ہوسکے۔ مودی جی شاید بھول گئے ہیں کہ راہل کی دادی اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے بنگلہ دیش کو آزاد کرانے اور پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا تھا۔ 
  انتخابی مہم چل رہی ہو، اب اس میں مغلوں کی انٹری نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کیلئے مودی نے تیجسوی یادو کی ایک تصویر کو نشانہ بنایا۔ مودی نے کہا کہ تیجسوی نوراتری کے مقدس تہوار کے دوران مچھلی کھا کر ہندوؤں کی اسی طرح توہین کر رہے ہیں جس طرح مغل بادشاہ مندروں کو توڑ کر کیا کرتے تھے۔ اس طرح مودی یہی ثابت کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور اپوزیشن پر الزام تراشی کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ 
 واقعی، مودی جی حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ وہاں بھی آگ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں دھواں تک نہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK