وادی کشمیرمیں میوہ صنعت معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاہم یہ صنعت سال رفتہ میں ایسے غیر معمولی اور تباہ کن بحران سے دوچار ہوئی جس کی مثال گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی ہے۔
وادی کشمیرمیں میوہ صنعت معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاہم یہ صنعت سال رفتہ میں ایسے غیر معمولی اور تباہ کن بحران سے دوچار ہوئی جس کی مثال گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تاجروں کو صرف ایک ہی سیزن میں ۲؍ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، جو نہ صرف مالیاتی ضرب ہے بلکہ کشمیر کی دیہی معیشت کےلئے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں ہے۔ باغ مالکان کے مطابق مشکلات کی اصل سنگینی اگست کے آخری ہفتے میں اس وقت نمایاں ہونا شروع ہوئی جب وادی بھر میں شدید بارش نے تباہ کن صورتحال پیدا کر دی جس کے نتیجے میں سری نگر- جموں قومی شاہراہ کے مختلف مقامات پر بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی، جس کی وجہ سے اس شاہراہ پر تقریباً ایک ماہ تک ٹریفک کی نقل و حمل متاثر رہی۔ کئی ٹرک ہفتوں تک وادی سے باہر نہ نکل سکے اور جب یہ گاڑیاں بالآخر منڈیوں تک پہنچیں تو پھلوں کا بڑا حصہ پہلے ہی خراب ہو چکا تھا۔
سپلائی چین کا بکھر جانا اس سال کے تباہ کن اثرات میں سے سب سے خطرناک پہلو ثابت ہوا ۔ کسانوں کے مطابق انہوں نے پیکیجنگ، پلاسٹک کریٹس، مزدوری اور ٹرانسپورٹ کےلئے جو قرض اٹھائے تھے، وہ بھی پورے نہ ہوئے۔ جب شاہراہ بند رہی تو حکام نے میوہ صنعت کو راحت پہنچانے کے لئے متبادل کے طور پر مغل روڈ کو فعال کر دیا لیکن اس سے بھی صنعت کی پوری طرح بھرپائی نہیں ہوئی۔