Inquilab Logo Happiest Places to Work

آپؐ سے محبت جزوِ ایمان ہے، اس محبت کا دائرہ بہت وسیع ہے

Updated: October 06, 2023, 1:27 PM IST | Hazrat Maulana Muhammad Yusuf Ludhianvi | Mumbai

یہ محبت والدین اور اولاد سے بھی بڑھ کر ہے ، اس محبت میں آپؐ کے اہل بیت ، آپؐ کے صحابہؐ، آپؐ کی اُمت اور آپؐ کی سنتوں کی محبت بھی شامل ہےاور اس کے بغیر محض زبان سے محبت کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے۔

Our enthusiasm on Eid Milad-ul-Nabi is extraordinary. Undoubtedly, this is a natural result of the Prophet`s love, but we should think that there are many other things that need attention. Photo: INN
عید میلاد النبیؐ پر ہمارا جوش و خروش غیر معمولی ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ حب نبویؐ کا فطری نتیجہ ہے مگرہمیں سوچنا چاہئے کہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس پر توجہ ضروری ہے ۔ تصویر:آئی این این

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ ایسی محبت جو تمام محبتوں سے فائق ہو، جو مؤمن کے رگ و ریشہ میں سمائی ہوئی ہو، خدا کے بعد اس درجہ کی محبت میں کوئی اور شریک نہ ہو، ایسی محبت جو اپنی ذات، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہو، جس میں وارفتگی، جاں نثاری، فدائیت اور خود سپردگی ہو، جس محبت کا سایہ محبوب کے تمام متعلقین تک وسیع ہو۔ 
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کوئی شخص اس وقت صاحب ِایمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر نہ ہوجائے۔ ‘‘ 
 صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور ؐپُرنور سے ایسی ہی محبت کرکے دکھائی، جو صرف زبان سے آپؐ پر اپنی جان و اولاد کو قربان کرنے کا دعویٰ نہیں کرتے تھے؛ بلکہ عمل سے اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے اور اپنی جان اور اولاد کو حضورؐ پر اس خوشی سے نچھاور کرتے تھے کہ گویا ان کی جان کی قیمت وصول ہوگئی ۔یہ تھا صحابہ کرام ؓ کی محبت کا معیار!
حضرت خبیب ؓ اہل مکہ کے ہاتھ آجاتے ہیں ، بعض لوگ جن کے مورثِ اعلیٰ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے تھے، قصاص و انتقام کے طورپر انہیں خرید لیتے ہیں ، پھر مکہ سے باہر ایک انبوہ کے ساتھ انہیں لے جایا جاتا ہے اور اذیت پہنچا پہنچا کر سولی پر چڑھایا جاتا ہے، عین اس وقت جب آزمائش کا یہ پہاڑ اس مردِ مومن کے اوپر ڈھایا جارہا تھا، پوچھا جاتا ہے: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ آج تمہاری جگہ ’’ محمد ‘‘ ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) ہوتے اور تم اس مصیبت سے بچ جاتے؟ حالانکہ ایسی مصیبت کے وقت میں دل کے اطمینان کے ساتھ زبان سے کلمۂ کفر ادا کر لینے کی بھی اجازت ہے ( الموسوعۃ الفقہیہ: ۶؍۱۰۷، لفظ اکراہ ) لیکن حضرت خبیب ؓ کے جذبۂ محبت پر قربان جائیے کہ اس وقت بھی فرماتے ہیں : ’’ خدائے عظیم کی قسم ! مجھے تویہ بھی گوارا نہیں کہ اس تکلیف سے بچ جاؤں اور میرے آقا کے قدم مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے۔‘‘ ( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۶ )
حضرت زید بن دثنہ ؓابوسفیان کی گرفت میں ہیں جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے۔ زید ؓکے قتل کی تیاری ہورہی ہے اور سرقلم کئے جانے کو چند ہی لمحات رہ گئے ہیں ، اتنے میں ابوسفیان نے استفسار کیا : اے زید! میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں یہ پسند نہیں ، کہ اس وقت تمہارے بجائے محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) یہاں ہوتے اور تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے؟ حضرت زیدؓ نے عین تلوار کی چھاؤں میں فرمایا : ’’ مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ اس وقت میں اس تکلیف سے بچ کر اپنے گھر میں رہوں اور رسولؐ اﷲ کو اپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ ‘‘ ( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۵ )
 غزوۂ بدر کے موقع پرحضرت ابوبکر ؓ کے مقابلہ میں خود ان کے صاحبزادے سامنے تھے، جو ابھی کفر کی حالت میں تھے، وقت گزرا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق عطا فرمائی، پھر صاحبزادے نے عرض کیا: ابا جان! غزوۂ بدر میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ میرے نرغہ میں آئے تھے، لیکن باپ کی محبت غالب آگئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ’’لیکن اسلام و کفر کی اس جنگ میں اگر تم میرے نرغہ میں آگئے ہوتے تو میں تمہیں معاف نہیں کرتا۔‘‘ ( الاستیعاب ، ذکر عبدالرحمن بن ابی بکر )
 عبداﷲ بن ابی خود منافق تھا ، اس کے لڑکے حضرت عبداللہ ؓمخلص تھے، ان پر اپنے والد کا منافق ہونا بھی ظاہر تھا، مدینہ میں افواہ تھی کہ حضورؐ اس کے نفاق کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینے والے ہیں۔ جب حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو بارگاہِ نبوی ؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سنا ہے کہ آپ ؐ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگر آپؐکا یہ منشاء ہو تو میں خود اپنے والد کا سرقلم کرکے آپؐ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ گویا حضور ؐ کی محبت اولاد اور والدین کی محبت پر غالب تھی، اور جو چیز آپ کو محبوب ہوتی وہ انہیں اپنی مرغوبات سے زیادہ عزیز ہوتیں ۔ حضورؐ کی محبت کے تقاضہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپؐ کے تمام متعلقین سے محبت ہو، آپ ؐ کے اہل بیت سے محبت ہو، صحابہ کرام ؓ سے محبت ہو۔ یہ محبت کا فطری تقاضہ ہے کہ جو چیز عزیز ہوتی ہے اس سے تعلق رکھنے والی ساری ہی چیزیں انسان کو عزیز ہوتی ہیں ، اس لئے سلف صالحین اہل بیت سے بھی محبت رکھتے تھے اور صحابہ ؓ سے بھی۔ اہل بیت سے محبت نہ ہو اور ان کی توقیر و احترام کا جذبہ نہ ہو تو یہ حضور ؐکی کما حقہ محبت سے محرومی ہے؛ کیونکہ اہل بیت کی محبت اس نسبت کی وجہ سے ہے جو انہیں حضور ؐ سے حاصل ہے اور ان کی محبت سے محروم ہونا اس نسبت کی ناقدری ہے۔ اسی طرح رسولؐ اﷲ کے صحابہؓ آپ ؐ کے وہ رفقاء ہیں ، جنہوں نے آپؐ کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کیلئے اپنے جان و مال کی قربانی دی، جن کو براہِ راست صحبت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اُٹھانے کا موقع ملا، جو بلا واسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرداختہ اور تربیت یافتہ ہیں ، ان سے بغض رکھنا یا ان کی تنقیص کرنا دراصلعبداﷲ بن ابی خود منافق تھا ، اس کے لڑکے حضرت عبداللہ ؓمخلص تھے، ان پر اپنے والد کا منافق ہونا بھی ظاہر تھا، مدینہ میں افواہ تھی کہ حضورؐ اس کے نفاق کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ۔ جب حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو بارگاہِ نبوی ؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سنا ہے کہ آپ ؐ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگر آپؐ کا یہ منشاء ہو تو میں خود اپنے والد کا سرقلم کرکے آپؐ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ گویا حضور ؐ کی محبت اولاد اور والدین کی محبت پر غالب تھی، اور جو چیز آپ کو محبوب ہوتی وہ انہیں اپنی مرغوبات سے زیادہ عزیز ہوتیں ۔ حضورؐ کی محبت کے تقاضہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپؐ کے تمام متعلقین سے محبت ہو، آپ ؐ کے اہل بیت سے محبت ہو، صحابہ کرام ؓ سے محبت ہو۔ یہ محبت کا فطری تقاضہ ہے کہ جو چیز عزیز ہوتی ہے اس سے تعلق رکھنے والی ساری ہی چیزیں انسان کو عزیز ہوتی ہیں ، اس لئے سلف صالحین اہل بیت سے بھی محبت رکھتے تھے اور صحابہ ؓ سے بھی۔ اہل بیت سے محبت نہ ہو اور ان کی توقیر و احترام کا جذبہ نہ ہو تو یہ حضور ؐکی کما حقہ محبت سے محرومی ہے؛ کیونکہ اہل بیت کی محبت اس نسبت کی وجہ سے ہے جو انہیں حضور ؐ سے حاصل ہے اور ان کی محبت سے محروم ہونا اس نسبت کی ناقدری ہے۔ اسی طرح رسولؐ اﷲ کے صحابہؓ آپ ؐ کے وہ رفقاء ہیں ، جنہوں نے آپؐ کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کیلئے اپنے جان و مال کی قربانی دی، جن کو براہِ راست صحبت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اُٹھانے کا موقع ملا، جو بلا واسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرداختہ اور تربیت یافتہ ہیں ، ان سے بغض رکھنا یا ان کی تنقیص کرنا دراصل بالواسطہ آپ ؐکی تربیت پر حرف گیری کرنا ہے، اسی لئے اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ ؓ قابل احترام اور قابل محبت ہیں اور یہ سب کے سب مسلمانوں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں ۔
 سرکار دو عالم، حضورپُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین میں آپؐ کی اُمت بھی شامل ہے؛ کیوں کہ حضورؐکی نسبت نے اس اُمت کو ایک عالم گیر اور آفاقی خاندان بنا دیا ہے۔ جیسے انسان کو باپ دادا کے رشتہ سے وجود میں آنے والے خاندان سے محبت ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کا خیر خواہ اور معاون و مددگار ہوتا ہے اور دشمنوں کے مقابلہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے ، اسی طرح پوری اُمت ایک خاندان کا درجہ رکھتی ہے، جیساکہ حضور ؐنے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے باپ کے درجہ میں ہوں اور جیساکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔
 افسوس کہ اُمت کے ایک وسیع خاندان ہونے کا تصور ہمارے ذہنوں سے نکل گیا اور تنظیموں ، جماعتوں ، درسگاہوں ، خانقاہی نسبتوں ، علاقوں ، زبانوں ، پیشوں اور برداریوں کے دائرہ میں ہماری محبت سکڑ کر رہ گئی ہے۔ ہم نے اس حقیقت کو بھلا دیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ایک ایک فرد سے محبت فرماتے تھے ، نہ عرب و عجم کی تفریق تھی، نہ کالے گورے کی تمیز، نہ مہاجرین و انصار کی تفریق، نہ دولت مندوں اور غریبوں میں امتیاز ۔ کاش! مسلمان اس حقیقت پر توجہ دیں ، کہ ہمارے نبیؐنے ہمیں ایک اُمت بنایا تھا لیکن آج ہم نے اپنے درمیان فرقہ واریت اور گروہ بندی کی اتنی اونچی دیوار کھینچ لی ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں ۔ حضورؐسے محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہمیں اس اُمت سے بھی محبت ہو، جس اُمت کی تشکیل آپؐ کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔
 محبت کے اور بھی تقاضے ہیں ۔ مثال کے طور پر، آپؐ کی محبت کا ایک مظہر آپؐ کی سنتوں سے محبت ہے، اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو انسانیت کیلئے اسوہ اور نمونہ بنایا اور پھر آپؐکے اسوہ کو قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا ہے، عبادت و بندگی، اخلاق و سلوک، خاندانی زندگی کے آداب، کسب معاش اور تجارت کے طریقے، حکومت اور ملکی نظم و نسق، جنگی مہمات، ازدواجی زندگی، اعزہ و اقارب کے ساتھ برتاؤ، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ رویہ، دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ سلوک، سونے جاگنے ، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، سفر و حضر اور جلوت و خلوت، تعلیم و تعلم، عدل و قضاء اور احکام شرعیہ کی رہنمائی، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں آپؐ کا اسوہ موجود و محفوظ ہے اور نشانِ راہ بن کر منزلِ مقصود کی طرف لے جاتا ہے۔ ان سنتوں کی محبت آپؐ سے محبت کا عین تقاضہ ہے، آپؐ کی سنتوں کو پامال کرنا اور نبی کی مرضیات کے مقابلہ اپنی خواہشات کو ترجیح دینا اور پھر آپؐ سے عشق و محبت کا دعویدار بھی ہونا آگ اور پانی کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔
 اسی لئے آپؐ نے بار بار اُمت کو اپنی سنتوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے ، آپؐنے ارشاد فرمایا کہ : تم بہت سے اختلاف دیکھو گے؛ لیکن تمہارے لئے صحیح راہِ عمل یہ ہے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ( ترمذی ، ابواب الایمان ، باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ، حدیث نمبر : ۲۶۴۱) آپؐ نے تاکید فرمائی کہ تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقہ پر قائم رہو۔ (ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ ، حدیث نمبر : ۴۶۰۷ ، ابن ماجہ ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین ، حدیث نمبر : ۴۲ ) آپؐ نے فرمایا: جس نے میری مردہ ہوتی ہوئی سنت کو زندہ کیا، اس کیلئے سو شہیدوں کا اجر ہے۔ (حلیۃ للاولیاء وطبقات الأصفیاء الأصبہانی : ۸ ؍ ۳۰۰ ، عن ابی ہریرۃؓ) پس حضورؐ کی محبت جزوِ ایمان ہے، یہ محبت ایسی ہے جو والدین اور اولاد سے بھی بڑھ کر ہے، اس محبت میں آپؐ کے اہل بیت، آپؐ کے صحابہؐ، آپؐ کی اُمت اور آپؐ کی سنت کی محبت بھی شامل ہے، محض زبان سے محبت کا دعویٰ کافی نہیں ۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تقاضو ں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK