Inquilab Logo

معاشیانہ:لوک سبھا انتخابات: معاشی، سماجی اور سیاسی اشاریوں پر حکومت کی ’کارکردگی‘

Updated: May 05, 2024, 3:11 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

گزشتہ ہفتے اس کالم میں مختلف معاشی اشاریوں کی مدد سے موجودہ حکومت کی ’کارکردگی‘ پر روشنی ڈالی گئی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پچھلے ۱۰؍ سال میں ہندوستان معاشی طور پر کمزور ہوا ہے۔

Probably the most protests against corruption and injustice are in India itself, yet the government does not change its ways. Photo: INN
بدعنوانیوں اور نا انصافیوں کے خلاف غالباً سب سے زیادہ احتجاج ہندوستان ہی میں ہوتے ہیں، اس کے باوجود حکومت اپنے انداز نہیں بدلتی۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہفتے اس کالم میں مختلف معاشی اشاریوں کی مدد سے موجودہ حکومت کی ’کارکردگی‘ پر روشنی ڈالی گئی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پچھلے ۱۰؍ سال میں ہندوستان معاشی طور پر کمزور ہوا ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے حکومت نے ان عوامل کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا جو’بنیادی‘ تھے ہی نہیں اور جن سے ہم ایک قوم اور ایک ملک کے طور پر کبھی مضبوط نہیں ہو سکتے۔ ایک ملک معاشی طور پر اس وقت مستحکم ہوتا ہے، جب حکومت عوام اور کاروبار کو مالی طور پر مضبوط کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرتی ہے اور معاشی پہلوؤں پر ناکامی کی صورت میں اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ عالمی سطح پر ترتیب دیئے جانے والے اِن اشاریوں میں ہندوستان بہترین ۵۰؍ میں بھی شامل نہیں ہے۔ ذیل میں پڑھئے کہ پچھلے ۱۰؍ سال میں دیگر محاذوں پر ہندوستان کی کارکردگی کیسی رہی۔ 
 ایک ملک کی مضبوط معاشی پالیسیوں کا اندازہ اس کے پاسپورٹ کی طاقت سے بھی لگایا جاتا ہے کہ اس کا حامل شخص کتنے ممالک میں بغیر یا پیشگی ویزا کے سفر کرسکتا ہے۔ یہ اعدادوشمار ہینلی پاسپورٹ انڈیکس ہر سال جاری کرتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں طاقتور پاسپورٹ کی فہرست میں ہندوستان ۷۶؍ویں نمبر پر تھا۔ تاہم، رواں سال ۱۹۹؍ ممالک کی فہرست میں یہ ۸۴؍ ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔ 
 جمہوریت کا چوتھا ستون ’میڈیا‘ ظاہر کرتا ہے کہ عوام سرکاری پالیسیوں، ملکی حالات اور حکومت سے کس قدر مطمئن ہیں۔ میڈیا کی آزادی یعنی پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان نے کبھی بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ حکومت اور سرکاری ادارے طے کرتے ہیں کہ میڈیا میں کون سی خبریں آئیں گی اور کون سی نہیں۔ میڈیا کی آزادی کے معاملے میں ۲۰۱۴ء میں ہندوستان ۱۴۰؍ ویں نمبر پر تھا جبکہ ۲۰۲۴ء میں ۱۸۰؍ ممالک کی فہرست میں یہ ۱۵۹؍ ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ملک کے میڈیا کی حالت پہلے ہی خراب تھی، اب مزید خراب ہوگئی ہے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: لوک سبھا انتخابات مختلف معاشی اشاریوں پر حکومت کی ’کارکردگی‘

اخبارات اور ٹی وی چینلز روزانہ کی بنیاد پر بدعنوانی اور رشوت سے جڑی خبریں نشر کرتے رہتے ہیں۔ رشوت دینا اور لینا، دنیا کے بیشتر ملکوں میں عام ہے۔ تاہم، سرکاری اداروں میں رشوت کے معاملات بڑھتے جارہے ہیں۔ دلچسپ اور تشویشناک بات یہ ہے کہ کرپشن پرسپشن انڈیکس (۱۸۰؍ ممالک) میں ۲۰۱۴ء اور ۲۰۲۴ء، دونوں ہی برسوں میں ہمارا ملک ۹۳؍ ویں نمبر پر رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ ۱۰؍ سال میں اس محاذ پر حکومت نے کوئی اہم کام نہیں کیا ہے۔ بدعنوانی اور رشوت خوری کا جو حال ۲۰۱۴ء میں تھا، آج بھی وہی ہے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔ 
 دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں حقوقِ انسانی کی پاسداری اور انصاف کے محاذوں پر کیا ہورہا ہے، اس سے قاری بخوبی واقف ہیں۔ بدعنوانیوں اور نا انصافیوں کے خلاف غالباً سب سے زیادہ احتجاج ہندوستان ہی میں ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اپنے انداز نہیں بدلتی۔ رُول آف لاء انڈیکس پر ہمارا ملک ۲۰۱۴ء میں ۶۶؍ ویں نمبر پر تھا اور ۲۰۲۴ء میں ۱۰۲؍ ممالک کی فہرست میں ۷۹؍ ویں نمبر پر آگیا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گزشتہ ۱۰؍ سال میں ان محاذوں پر کیا ہوا ہے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔ 
 زمانۂ قدیم ہی سے مردوں کو خواتین پر فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ خواتین کو اپنے حقوق پانے کیلئے برسوں جدوجہد کرنی پڑی ہے مگر اب بھی ان کے ساتھ صنفی امتیاز برتا جارہا ہے۔ گھریلو خاتون ہو یا ملازمت پیشہ، مختلف جگہوں پر اسے کہیں نہ کہیں صنفی امتیاز کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت ’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘ نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی مگر اس کے دور حکومت میں بیٹیوں کے ساتھ کس قسم کا غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے، قاری اس سے بھی واقف ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں خواتین کے خلاف تشدد کی شرح ۵۳ء۶؍ فیصد تھی، جو مودی حکومت کے دور میں بڑھ کر ۶۶ء۶؍ فیصد ہوگئی ہے۔ اس محاذ پر حکومت ناکام رہی ہے۔ 
 ’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے‘ یہ جمہوریت کا نعرہ ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ رائے دہندگان ہیں جو ہر ۵؍ سال میں اپنی حکومت منتخب کرتے ہیں۔ مگر ہمارا ملک کس قدر جمہوری ہے؟ ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان ۲۰۱۴ء میں ۲۷؍ ویں نمبر پر تھا۔ تاہم، اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۶ء سے ہندوستان میں جمہوری اقداروں کو پامال کیا جارہا ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان اب ۱۰۴؍ ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان اب جمہوری ملک نہیں رہ گیا ہے؟ اس محاذ پر حکومت بری طرح ناکام رہی ہے۔ 
 اس کالم میں ۱۱؍ اشاریوں (گزشتہ ہفتے کے ۵؍ اشاریئے) پر موجودہ حکومت کے ۱۰؍ سال کی کارکردگی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ۱۱؍ اشاریے کسی بھی ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات جاننے کیلئے اہم ترین خیال کئے جاتے ہیں لیکن ہماری حکومت نے گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں ان محاذوں پر کام کرنے کیلئے ناکافی پیش رفتیں کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۰؍ سال پہلے ہم جہاں سے چلے تھے، آج اس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ ترقی کرتی دنیا میں ہندوستان کی ترقی کی رفتار دھیمی پڑتی نظر آرہی ہے۔ رواں لوک سبھا انتخابات میں چاہے جس پارٹی کی حکومت بنے، اسے ان ۱۱؍ اشاریوں سمیت متعدد محاذوں پر ملک کو مستحکم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اُس حکومت کو ان اشاریوں کو ’بنیادی عوامل‘ میں شامل کرنا ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK