• Sun, 02 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: ہمارے پاس کم ہے مگر ہم جیتے زیادہ ہیں : نئی نسل اور’تجرباتی معیشت‘

Updated: November 02, 2025, 1:00 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

متعدد تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ آج کی نسل کیلئے ’’امیر‘‘ ہونے کا مطلب جائیداد، گاڑیاں اور قیمتی زیورات نہیں بلکہ بہتر تجربات، یادیں، آزادی اور خوشی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس کے ساتھ بدل رہا ہے انسانوں کا پیسہ کمانے، خرچ کرنے اور جینے کا انداز۔ آج کی نسل کیلئے ’امیر‘ ہونے کا مطلب جائیداد، گاڑیاں یا قیمتی زیورات نہیں بلکہ بہتر تجربات، یادیں، آزادی اور خوشی ہے۔ متعدد تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ نوجوانوں کے درمیان ایک نئی مالی سوچ جنم لے رہی ہے جسے ماہرین ’تجرباتی اخراجات‘ (Experience Spending) کہتے ہیں، یعنی اپنی آمدنی کو چیزیں (جائیداد، گاڑیاں، زیورات وغیرہ) جمع کرنے کے بجائے تجربات پر خرچ کرنا۔ امریکہ اور یورپ میں نوجوانوں کیلئے کامیابی کی تعریف بدل گئی ہے۔ جہاں ان کے والدین یا دادا دادی کیلئے مکان خریدنا سب سے بڑی کامیابی تھی، وہیں آج کی نسل کیلئے سفر، سیاحت، فیسٹیولز، کھانے کے تجربے، اور نئی ثقافتوں سے ملنا زیادہ معنی رکھتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اب ’’اپنا گھر‘‘ کے بجائے کرائے پر رہنے کو ترجیح دیتی ہے تاکہ وہ سفر، موسیقی، کھانوں اور دوستوں کے ساتھ اپنی آمدنی خرچ کر سکیں۔ 
ایک حالیہ عالمی سروے کے مطابق ۷۰؍ فیصد ملینیئلز (۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان پیدا ہونے والے افراد) کا کہنا ہے کہ وہ ’’چیزوں کے بجائے تجربات‘‘ میں سرمایہ کاری کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ ان خیالات کی حامل جین زی بھی ہے۔ پی ڈبلیو سی کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ۲۰۲۴ء تک عالمی سطح پر ’ایکسپیرینس اکنامی‘ (Experience Economy) یا ’تجرباتی معیشت‘ ۱۲؍ کھرب ڈالر کی صنعت بن چکی ہے۔ یعنی کمپنیاں اب صارفین کو مصنوعات نہیں ’لمحات‘ فروخت کررہی ہیں، جیسے کہ کنسرٹس، تفریحی سفر، ایڈونچر رائڈز، یا ڈجیٹل گیمنگ ایونٹس۔ انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے اس رجحان کو مزید تیز کیا ہے۔ آج کامیابی کی پیمائش فالوورز، یادگار تصاویر اور منفرد تجربات سے ہوتی ہے۔ ایک نئی ’ڈجیٹل شناخت‘ نے نوجوانوں کو دکھایا ہے کہ خوشی کا اصل تعلق ’جینے کے انداز‘ سے ہے، ’سامان جمع رکھنے‘ سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ایونٹ انڈسٹری، لائیو کنسرٹس، سفری سیاحت، اور ایڈونچر ٹورزم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 
ہندوستان جو طویل عرصے سے بچت اور جمع پونجی کی ثقافت کیلئے جانا جاتا تھا، اب خرچ کرنے کی ذہنیت سے گزر رہا ہے۔ نوجوان شہری اب ’زندگی کے لمحات‘ میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں۔ ہفتہ وار مختصر سفر، کانسرٹس، ریستوراں کا تجربہ، یا سوشل میڈیا ایونٹس، یہ سب نئی لگژری ہیں۔ قومی دفتر برائے شماریات (این ایس او) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شہری نوجوانوں کے اخراجات میں ’تفریح اور ذاتی تجربات‘ کا حصہ پچھلے ۵؍ برسوں میں دُگنا ہو چکا ہے۔ ممبئی، دہلی، اور بنگلور جیسے شہروں میں ’ریٹیل تھیراپی‘ (شاپنگ کرنا) اور ’کافی کلچر‘ عام ہے جہاں دوستوں کے ساتھ ایک شام گزارنا کسی سرمایہ کاری سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ ڈجیٹل ادائیگیوں نے بھی اس رجحان کو فروغ دیا ہے۔ خرچ کرنا اب بٹن دبانے جتنا آسان ہو گیا ہے، اور مالی نظم و ضبط کہیں کھو سا گیا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مکان یا گاڑی خریدنا کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا، وہاں اب ’مالی آزادی‘ کو ترجیح دی جارہی ہے۔ میٹرو شہروں کے فری لانسرز اور کریئیٹیو پروفیشنز میں کام کرنے والے نوجوان اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ ’زندگی کے معیار‘ کیلئے کام کرتے ہیں ’زندگی گزارنے‘ کیلئے نہیں۔ 
پچھلی نسلیں دولت کو محفوظ کرنے، سرمایہ بڑھانے اور مستقبل کے تحفظ پر یقین رکھتی تھیں۔ لیکن موجودہ نسل زیادہ لچکدار ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ دولت کا مطلب زندگی کو بہتر طریقے سے جینا ہے، نہ کہ صرف بینک بیلنس بڑھانا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ تجرباتی اخراجات لوگوں کو دیرپا خوشی دیتے ہیں کیونکہ یادیں اور تجربات ذہنی اطمینان میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ مادی چیزیں وقتی تسکین تو دیتی ہیں، مگر ان کی اہمیت جلد ختم ہو جاتی ہے۔ نئی نسل ’کام کے اردگرد‘ نہیں بلکہ ’کام کو زندگی کے اردگرد‘ ترتیب دینے پر یقین رکھتی ہے۔ نتیجتاً ہندوستان میں تجرباتی معیشت کا حجم ۴۰؍ ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اور آنے والے برسوں میں اس میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔ 
نئی نسل کی یہ سوچ اگرچہ روایت سے مختلف ہے، مگر اس میں ایک گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ وہ سادہ زندگی، وقت کے بہتر استعمال، اور ذاتی سکون کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ نسل قرض اور غیر ضروری ذمہ داریوں سے بچنا چاہتی ہے، اور یہی طرزِ زندگی مستقبل کی معیشت کو نئی سمت دے رہا ہے۔ نئی نسل واضح کررہی ہے کہ دولت کا اصل مقصد تحفظ نہیں بلکہ زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اگر پرانی نسل نے ’جمع‘ کرنے کا ہنر سکھایا، تو نئی نسل ’جینے‘ کا طریقہ سکھا رہی ہے۔ ایکسپیرینس اکنامی میں کمپنیاں صارفین کو منفرد تجربات فروخت کررہی ہیں، جیسے ورچوئل ٹریول، ریئلٹی شوز میں شرکت، یا ماحول دوست ایونٹس۔ ہندوستان میں بھی اسٹارٹ اَپس اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، جیسے ’ٹرپ اِن اے باکس‘، ’کیمپنگ ایپ‘، یا، ’منی کنسرٹس‘ پلیٹ فارم۔ لیکن نئی نسل کو سمجھنا ہوگا کہ تجربے کی دوڑ میں مالی ذمہ داری کو نظر انداز نہ کرے۔ تجربات خوشی دیتے ہیں مگر مالی نظم و ضبط ہی ان خوشیوں کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ہر چیز جمع کرنا ضروری ہے نہ ہر تجربہ خریدنا یا جینا۔ 
انسان ایک ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے جہاں خوشی، کامیابی اور دولت کی تعریفیں بدل رہی ہیں۔ آنے والے وقت میں شاید بینک بیلنس نہیں بلکہ ’زندگی کے تجربات‘ ہی کسی شخص کی اصل حیثیت بتائیں گے۔ نئی نسل کہتی ہے کہ ’’ہمارے پاس کم ہے مگر ہم جیتے زیادہ ہیں۔ ‘‘ اور شاید یہی سوچ دنیا کی اگلی بڑی معیشت کی بنیاد بننے جا رہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK