Inquilab Logo

منی انڈیا کے بعد مین انڈیا

Updated: October 05, 2021, 8:45 AM IST | Mumbai

ممتا بنرجی بھوانی پور ضمنی الیکشن جیت گئیں۔ اُنہیں جیتنا ہی تھا۔ ۲۰۱۱ء کے مقابلے میں اس بار زائد ووٹوں سے جیتنا بھی یقینی تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بھوانی پور میں غیر بنگالیوں کی تعداد کم و بیش ۴۳؍ فیصد ہے۔

Mamata Banerjee won the Bhawanipur by-election.Picture:INN
ممتا بنرجی بھوانی پور ضمنی الیکشن جیت گئیں تصویر آئی این این

ممتا بنرجی بھوانی پور ضمنی الیکشن جیت گئیں۔ اُنہیں جیتنا ہی تھا۔ ۲۰۱۱ء کے مقابلے میں اس بار زائد ووٹوں سے جیتنا بھی یقینی تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بھوانی پور میں غیر بنگالیوں کی تعداد کم و بیش ۴۳؍ فیصد ہے۔ ممتا اس حلقۂ اسمبلی کو ’’منی انڈیا‘‘ کہتی ہیں چنانچہ یہاں سے جیتنے کے ساتھ ہی اُن کا ہدف ’’منی انڈیا‘‘ کے بعد ’’مین انڈیا‘‘  یا ’بھوانی پور‘ کے بعد ’بھارت ورش‘ زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ یاد رہنا چاہئے کہ جب ممتا نے نندی گرام سے پرچہ داخل کیا تھا تب بی جے پی نے شور مچایا تھا کہ اُنہیں اپنے پرانے حلقۂ انتخاب (بھوانی پور) میں شکست کا خوف ہے اس لئے وہ وہاں سے انتخاب نہیں لڑرہی ہیں۔ ممتا نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بھوانی پور سے جیت کر بی جے پی کے دانت کھٹے کردیئے جو اُس وقت بھی کافی تلملائی تھی جب ترنمول نے پورا مغربی بنگال جیت کر تاریخ رقم کی تھی۔ 
  ممتا کو نندی گرام میں ۱۹۵۷؍ ووٹوں سے شکست ہوئی تھی مگر بھوانی پور میں ۴۶۱۹؍ ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی ہے۔ کاش، بھوانی پور کی اس فتح سے اور اس سے قبل پورے مغربی بنگال کی فتح سے (جب پارٹی نے ۲۱۳؍ سیٹیں جیتی تھیں)، بی جے پی کو یہ درس ملے کہ اپنی طاقت چاہے جتنی ہو، مدمقابل کو کمزور سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئے۔ ممتا کیلئے اسمبلی کی رُکنیت حاصل کرنا تکنیکی طور پر ضروری تھا اس لئے، اس تقاضے کو پورا کرکے اب وہ پارٹی کے وسیع تر مفادات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دے سکیں گی۔اس دوران انہوں نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط اور مؤثر بنانے کو اولیت دی اور اس کی ذمہ داری ابھیشیک بنرجی کو سونپی جنہوں نے پارٹی میں ’’ایک شخص ایک عہدہ‘‘ کا فارمولہ نافذ کرنے میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ پارٹی کے عہدیدارعوامی توقعات پر بحسن و خوبی پورا اُترسکیں۔ ایک اور مقصد اقتدار کے کئی مراکز کو روکنا بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ا ب تک ایک درجن سے زائد وزراء کو اُن کی اضافی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جاچکا ہے۔ اس سے ممتا بنرجی کے ارادوں کو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے انتظامی اُمور کو اس قابل بناکر، کہ کوئی انگشت نمائی نہ کرسکے، بیرون ریاست زیادہ وقت دینے کا معمول اپنانا چاہتی ہیں۔ 
 ترنمول کے قومی عزائم کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ ممتا کا یہ نعرہ بھی ان عزائم کی توثیق ہے جو بھوانی پور کی جیت کے بعد لگایا گیا کہ ’’بی فار بھوانی پور، بی فار بھارت ورش اور بی فار بھارت ماتا۔‘‘ ممتا اس کیلئےسرگرم ہوچکی ہیں۔ وہ چاہے مرکز کے خلاف غیر بی جے پی ریاستوں کے اتحاد کی تجویز ہو (تاکہ اگر ایک ریاست کے خلاف مرکز ناانصافی سے کام لے تو تمام ریاستیں اس کے خلاف آواز اُٹھائیں ) یا تری پورہ، گجرات اور گوا میں مضبوطی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی، ان تمام سرگرمیوں سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ترنمول کے لیڈران قومی عزائم کے تعلق سے زبانی جمع خرچ نہیں کررہے ہیں۔ ان کے منصوبے عملی طور پر متشکل بھی ہورہے ہیں۔ حال ہی میں گوا کے سابق وزیر اعلیٰ اور پرانے کانگریسی لوئیزنہو فلیریو ترنمول میں شامل ہوئے ہیں۔ 
 بنگال میں بی جے پی کو دھول چٹانے کے بعد دیگر ریاستوں میں ممتا کی مقبولیت بڑھی ہے۔ اسے مستحکم کرنے کیلئے اُنہیں متحدہ اپوزیشن کی قیادت کا موقع ملے تو حالات کچھ اور ہونگے۔ اس منصب پر کانگریس فائز ہے مگر اسے اپنا گھر ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا جس کیلئے نہ تو ۲۰۲۲ء ٹھہر سکتا ہے نہ ہی ۲۰۲۴ء۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK