Inquilab Logo Happiest Places to Work

اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ کوئی رمیش بدھوڑی کسی دانش علی کی تحقیر نہ کر سکے

Updated: October 01, 2023, 10:32 AM IST | Nadir | Mumbai

حال ہی میں جب بی جے پی رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے ایوان میں بی ایس پی کے رکن دانش علی کی تضحیک اور تحقیر کیلئے انہیں قومیت اور مذہب کے حوالے سے گالیاں دیں تو کئی لوگوں نے اس پر رد عمل ظاہر کیا۔

BSP Member of Parliament Danish Ali. Photo. INN
بی ایس پی کے رکن پارلیمان دانش علی۔ تصویر:آئی این این

حال ہی میں جب بی جے پی رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے ایوان میں بی ایس پی کے رکن دانش علی کی تضحیک اور تحقیر کیلئے انہیں قومیت اور مذہب کے حوالے سے گالیاں دیں تو کئی لوگوں نے اس پر رد عمل ظاہر کیا۔ کوئی اسے مسلمانوں سے منافرت کی انتہاقرار دے رہا تھا تو کوئی اس کی وجہ سے نئی پارلیمنٹ کے شرمسار ہونے کی دہائی دے رہا تھا۔ بدھوڑی کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد فوری طور پر ۳؍ مسلم لیڈران کے بیان ہم نے دیکھے ایک خود دانش علی کا جو کہ مظلوم تھے، دوسرے اسدالدین اویسی کا جنہیں نڈر تصور کیا جاتا  ہے اور تیسرے مسلم مسائل پر کھل کر بولنے کے عادی  ابو عاصم اعظمی کا۔ تین الگ الگ پارٹیوں سے وابستہ اور الگ الگ سیاسی حیثیت کے حامل ان لیڈروں نے حکومت پر سخت تنقید کی اور اس حرکت کی مذمت بھی کی لیکن تینوں کے بیان میں ایک مشترکہ پہلو یہ تھا کہ تینوں ہی کو یقین تھا کہ وزیر اعظم رمیش  بدھوڑی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر یںگے۔ دوسرے دن اس موضوع پر یوٹیوب پر واحد بیباک خاتون مسلم صحافی عارفہ خانم شیروانی کا  پروگرا م بھی نظر سے گزرا انہوں نے بھی بدھوڑی پر تنقید کی لیکن یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ بدھوڑی پر کارروائی کرنےکے بجائے انہیں ترقی دے کر پذیرائی کی جائے گی۔ یعنی مسلمان کسی بھی شعبے میں ہوں انہیں اس بات کا یقین ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ صرف کرکٹر عرفان پٹھان کا واحد ٹویٹ ایسا تھا جو مثبت نظر آتا ہے۔ عرفان نے بغیر کسی کا نام لئے صرف ایک جملہ لکھا ’’اگر اس اشتعال انگیزی کو نہ روکا گیا تو کل یہ فیشن بن جائے گی۔‘‘ .... ہیش ٹیگ پارلیمنٹ۔ 
 سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کا یقین کیوں ہے کہ بدھوڑی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی؟ ان کے اندر یہ عزم کیوں نہیں ہے کہ ہم بدھوڑی کے خلاف کارروائی کروا کر چھوڑیں گے؟  جیسے پنجاب کے کسانوں نے کہہ دیا تھا کہ حکومت کو کسان بل واپس لینا پڑے گا اور ایک سال بعد ہی سہی وہ بل واپس لے لیا گیا۔ جیسے مراٹھوں نے ضد پکڑ لی کہ مراٹھا ریزرویشن بھلے ہی عدالت کی نظر  میں غیر آئینی ہے لیکن ہمیں ریزرویشن چاہئے۔ حکومت چاہے اس کیلئے جو راستہ نکالے اور حکومت نے راستہ نکالنے کا اعلان کر بھی دیا۔    بق

تصور کیجئے کہ رمیش بدھوڑی نے اس طرح کے الفاظ کسی دلت رکن پارلیمان کیلئے استعمال کئے ہوتے تو اس کا کیا انجام ہوتا؟ یا کسی سکھ لیڈر کی یوں تضحیک کی ہوتی تب اس کا کیا حشر ہوتا؟یہاں یہ بات یاد دلانی ضروری ہے کہ سکھ برادری اس ملک میں محض ۲؍ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ مسلمان ۲۲؍ کروڑ ہیں ! لیکن اقلیت میں ہونے کا احساس جس شدت کے ساتھ ہمیں ہے ، انہیں کبھی نہیں رہا۔ اس لئے کہ ہم جمہوری طور پر بے عمل ہیں اور وہ فعال ۔آخر کیوں رمیش بدھوڑی کے طوفان بدتمیزی کے بعد   تمام پارٹیوں کے مسلمان اراکین پارلیمان واسمبلی نے متحدہ طور پر کوئی پریس کانفرنس کرکے بدھوڑی پر کارروائی  کا مطالبہ نہیں کیا؟ کیوں تمام مسلم اراکین پارلیمان نے متحدہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے میں احتجاج نہیں کیا جیسا کہ وہ دیگر معاملات پر کرتے رہتے ہیں؟خود دانش علی ہی کون سا دھرنے پر بیٹھ گئے؟  انہوں نے کئی بار لوک سبھا سے استعفیٰ دینے کی بات کہی لیکن اس کا حوصلہ نہیں کر سکے۔
 یہ جو صورتحال ہمارے سامنے ہے وہ  اسلئے نہیں ہے کہ فرقہ پرست اچانک بہت طاقتور ہو گئے ہیں بلکہ اسلئے ہے کہ انہیں کبھی روکنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ہم حکومت کے تبدیل ہونے یا کسی مسیحا کی آمد کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور ادھر مسلمانوںکے خلاف نت نئے مظالم زمانے کے چلن میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ اخلاق کے قتل کے بعد خوب شور ہوا،مگر فوراً پہلو خان کو بھی ہلاک کر دیا گیا، اس پر ماتم تھما نہیں تھا کہ جنید ، پھر تبریز ایک کے بعد ایک ہجومی تشدد کے واقعات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔  اس طرح کے واقعات  میں فوت ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے لیکن اب اگر ہم مہلوکین کے نام شمار کرنے جائیں تو ہمیں شروعات کے ۴؍ یا ۵؍ نام ہی یاد آئیں گے۔ کیونکہ اب ہمارے لئے یہ روز مرہ کی بات ہو گئی  ہے۔ یعنی بقول عرفان پٹھان یہ ایک فیشن (چلن) بن گیا ہے۔ یقین کیجئے دانش علی کی سرعام تحقیر پارلیمنٹ کا پہلا واقعہ ضرور تھا لیکن یہ آخری نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کی  نئی عمارت میں یہ ایک علامتی واقعہ تھا کہ ’’دیکھ لو!  یہ نئے بھارت کی نئی پارلیمنٹ کا ایوان ہے یہاں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔‘‘کل کو پھر کسی اور رکن کو اسی طرح دشنام طرازی کا سامنا کرنا پڑے گا ، اس پر بھی شور ہوگا لیکن جیسے جیسے اس طرح کے واقعات بڑھتے جائیں گے۔ ہمیں اس کی عادت ہوتی چلی جائے گی۔اور آواز اٹھانے والے آواز اٹھانا بھی بند کر دیں گے۔ 
 بہت ممکن ہے کہ کل کو مسلمانوں ہی  میں موجود کچھ عقلمند یہ مشورہ دینے لگیں کہ ’’ ایوان میں جا کر صرف ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے اس لئے اب ہم الیکشن لڑنا ترک کر دیں، ایوان میں جانا بند کر دیں۔‘‘ ٹھیک ویسے ہی جیسے مسلمان سرکاری نوکریوں کیلئے امتحان دینے سے گریز کرتے ہیں کہ’’ کیا فائدہ جب مسلمانوں کو  ملازمت ملتی ہی نہیں ہے ۔‘‘   یاد رہے کہ نریندر مودی حکومت کی حکمت عملی ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک ہی طرح کے واقعات کو اس طرح دہرایا جائے کہ وہ ان کیلئےمعمول کی بات بن جائے ۔ ان میں آواز اٹھانے کی سکت باقی نہ رہے۔ اپنے اطراف میں نظر دوڑائیے، ہاتھ گاڑی کھینچنے والے کو، ہوٹل کے ویٹر کو، کسی سبزی والے کو کوئی بھی ’تو‘ کہہ کر مخاطب کر لیتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی طرف سے ’تو ‘ کہنے پر کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ بلکہ وہی شخص جب کسی دکان کے مالک، کسی شو روم کے مینیجر   ، یا کسی افسر سے ملتا ہے تو اسے ‘تو‘ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی کیونکہ وہاں سے فوراً رد عمل کا خدشہ ، بلکہ یقین ہوتا ہے۔ مسلمان خود کو اسی صورتحال کی جانب لے جا رہے ہیں۔ ابھی ملک میں قانون زندہ ہے، ابھی جمہوریت باقی ہے۔ اس سے پہلے کوئی اقدام کر لیں کہ کل کو یہ بھی باقی نہ رہے ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ کوئی رمیش بدھوڑی کسی دانش علی کی تحقیر نہ کر سکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK